کابل

دوحہ معاہدہ، تین سال اور امریکیوں کی مسلسل عملی عہد شکنی

دوحہ معاہدہ، تین سال اور امریکیوں کی مسلسل عملی عہد شکنی

ماہنامہ شریعت کا اداریہ

 

امریکی سربراہی میں قابض مغربی قوتوں کی جانب سے وطن عزیز پر مسلط کردہ مہلک جنگ روکنے کے حوالہ سے تین سال قبل 29 فروری 2020 کو قطرکے درالخلافہ دوحہ میں  ہونے والا تاریخی معاہدہ یقینا بہت بڑی پیش رفت تھی ۔

امریکی اور دیگر قابض فوجیوں کے ناپاک وجودسے وطن عزیزکا خالی ہونا، بیرونی قبضہ کا خاتمہ اوریہاں ایک منظم  عدل وانصاف پرمبنی شرعی نظام کا نفاذ ہی افغان جہاد کا اصل ہدف تھا، اپنی سرزمین پر دشمن کے خلاف جنگ جاری رکھنا انتخاب یا دلی خواہش نہیں بلکہ ہماری مجبوری اور دشوار گزار راستوں کی بجائے آسانی اورسہولت سے  اس ہدف کا حصول ہماری ترجیح تھی ۔  یہی وجہ ہے کہ میدان جنگ میں شکست خوردہ دشمن نے جب ہم سے مذاکرات کا مطالبہ کیا ہم نے جنگ جاری رکھنے اور دشمن پر کاری ضربیں لگانے کے ساتھ ساتھ دشمن کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ بھی قبول کیا، مذاکرات کو بہت اہمیت دی اور تاریخی معاہدہ ہونے تک جاری رکھنے کی توفیق نصیب ہوئی۔

مسلمان اورپھر افغان ہونے کے ناطے، غدر، مکاری ،منافقت،جھوٹ اوروعدہ خلافی ہماراشیوہ اور کلچر نہیں اور نہ ہمارا دین ہمیں اس کی اجازت دیتاہے۔

امارت اسلامیہ کی قیادت شرعی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے دوحہ معاہدہ میں مذکور تمام شقوں اور دشمن کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی پابندی اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھتی ہے۔

گزشتہ تین سال میں امارت اسلامیہ نے اپنی طرف سے معاہدہ میں طے کی گئی تمام شرائط  پرکاربند رہ کر اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیاہے۔ الزامات تو بہت لگائے گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ مدت میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا نہ کوئی ایسا اقدام ہوا جسے امارت اسلامیہ کی جانب سے نقض عہد یا مخالفت  پر محمول کیا جائے جس کا اعتراف خود بعض امریکی حکمران بھی کرچکےہیں ۔

لیکن افسوس کہ امریکیوں  نے اس حوالہ سے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔

اللہ تعالی کے فضل وکرم سے قابض قوتوں کا قبضہ ختم ہونے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں کٹھ پتلیوں، ظالموں ، چوروں، اغواکاروں، منشیات فروشوں اور ڈاکوؤں کی قائم کردہ طوائف الملوکی اور ظالمانہ تسلط ختم ہوگیا- اس وقت پورے افغانستان پر امارت اسلامیہ کی حکومت قائم ہے، اور ملک مکمل طور پر ایک مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے –  ہرجگہ کلمہ طیبہ کا سفید امن کا پیامبر پرچم لہرا رہاہے، امارت اسلامیہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ امن وامان کے قیام کے لئے چوکس ہے، افغانستان کے طول وعرض میں باشندگان ملک پہلی دفعہ مثالی امن اور جان ومال کے تحفظ پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور بحمداللہ بدامنی ومخالفت کا کوئی عمدہ عنصرسامنے نہیں ہے۔  دنیا جانتی ہے کہ باغی عناصراور دیگرمجرمانہ وارداتوں کے خلاف امارت اسلامیہ کی طرف سے جگہ جگہ کامیاب کارروائیاں جاری ہیں ۔

شب و روز کوششوں سے افیون کی کاشت پہلی بار مکمل طور پرختم کرکے دنیا کو یہاں سے ہیروئن سمگل کرنے کے تمام کھلے دروازے بند کردئے گئے-

لیکن ان تمام مثبت تبدیلیوں کے با وجود امریکہ نہ خود امارت اسلامیہ کی حکومت کو تسلیم کررہاہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس نے سب کو آنکھیں دکھائی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ملک نے ابھی تک امارت اسلامیہ کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

بلیک لسٹ سے امارت اسلامیہ سربراہان کے نام نکالنے کی بات بھی ابھی تک یقینی نہیں بنائی گئی۔

حالانکہ یہ دونوں باتیں معاہدہ کے اہم ترین شقوں میں سے تھیں- اور بات معاہدہ کی مخالفت تک محدود نہیں بلکہ امریکی حکومت اب بھی افغانستان کے خلاف مشکلات کھڑی کرنے سے باز نہیں آتی-

جنگ کے میدان میں رسوا ہوکر شکست خوردہ امریکہ افغانستان سے نکل گیا لیکن افغان مظلوم قوم کے خلاف اس کا غیظ وغضب ختم نہیں ہوا اور اب وہ مسلمانان افغانستان سے انتقام لینے کی خاطر ایک نئی طرح کی جارحیت سے حملہ آور ہے۔ یہ حملہ معیشت کے راستے سے ہے ۔ اس کی کوشش ہے کہ افغان قوم کو بھوک کے عذاب میں مبتلا کر کے اور بحرانی حالات پیداکر کے عوام کو امارت اسلامیہ کے خلاف بغاوت کی فضا پیداکرے۔

اقتصادی پابندیاں عائد کرنا اور افغانستان کے ساڑھے نو ارب ڈالرز سے زائد کے اثاثے غیرقانونی طورپر منجمد کرنا افغان عوام کیساتھ کھلی دشمنی کی دلیل ہے –

خوراک کے عالمی ادارے کے بقول اقتصادی پابندیوں اور اثاثوں کے منجمد کرنے کے نتیجے  میں افغانستان کی تین کروڑ ۹۰لاکھ عوام کو معاشی بدحالی، خوراک کی کمی اور بڑھتی ہوئی غربت کا سامنا ہے۔ عالمی امداد جاری کرنے سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں لیکن امریکی پابندیوں کے باعث عالمی مالیاتی اداروں کے لئے فنڈز کو افغانستان میں منتقل کرنا ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امدادی اداروں کو خوراک اور ادویات جیسی بنیادی اشیا بھی افغان عوام تک پہنچانے میں مشکلات درپیش ہیں۔

یہ اگر افغان قوم کیساتھ دشمنی نہیں تو اور کیا ہے ؟

ہاں!یہاں اقتصادی مشکلات ہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ انسان دشمن سپرپاور کے ناجائز اقدامات کے نتیجے میں افغان عوام اقتصادی مشکلات کا سامنا کر رہےہیں لیکن امیدہے کہ امارت اسلامیہ کی شب وروز سخت کوششوں اور پرامید بڑے اقتصادی پراجیکٹس سے عنقریب یہ مشکلات بھی ختم ہوجائیں گے۔

ہم امریکہ کی عہدشکنی اور وعدہ خلافی کو نظرانداز کرکے آخرتک اپنے وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری کریں گے اوراسی میں ملک وملت کی بھلائی وخیر دیکھتے ہیں اس لئے دوحہ معاہدہ کو حتی الوسع ٹوٹنے نہیں دیں گے ۔  معاہدے سے امریکیوں کی روگردانی کے بارے میں صبرسے کام لیتے ہوئے  عملی رد عمل سے اجتناب ہی میں امارت اسلامیہ بہتری سمجھتی ہے۔ یہ امارت اسلامیہ کی کمزوری نہیں بلکہ سنجیدگی، اعلی ظرفی اورقوم کی امیدوں اور ملک کے عالیٰ اہداف کو مقدم رکھنے کی واضح دلیل ہے ۔