رواں سال تازہ پھلوں کا بڑا حصہ کیوں ضایع ہوا؟

آج کی بات: دارالحکومت کابل اور دیگر بڑے شہروں میں تازہ میوہ جات فروخت کرنے والوں کا ‏کہنا ہے کہ اس سال پھلوں کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے پچاس فیصد پ ضایع ہوگئے ہیں۔ ‏اسی طرح مختلف گاؤں کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پھلوں کی قیمتیں گرنے کی ‏وجہ سے […]

آج کی بات:

دارالحکومت کابل اور دیگر بڑے شہروں میں تازہ میوہ جات فروخت کرنے والوں کا ‏کہنا ہے کہ اس سال پھلوں کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے پچاس فیصد پ ضایع ہوگئے ہیں۔ ‏اسی طرح مختلف گاؤں کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پھلوں کی قیمتیں گرنے کی ‏وجہ سے آدھے سے زیادہ مال ضایع ہو گیا۔ خریدار اس صورت حال کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ‏ماضی میں پھل زمینی راستوں سے ہمسایہ ممالک میں برآمد کیے جاتے تھے، جس پر کرایہ ‏بھی کم لگتا تھا اور سہولت بھی تھی۔ لیکن افغانستان کے دو سربراہوں کی ناکام خارجہ پالیسی کی ‏بدولت  ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات جب سے کشیدہ ہوئے ہیں، اس کے عوام کی زندگی پر ‏برے اثرات پڑے ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس سال خربوزہ، تربوزہ اور ‏دیگر میوہ جات پاکستان، ایران، ازبکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی طرف نہایت کم تعداد میں ‏بھیجے گئے ہیں، جس کی وجہ یہ تھی کہ ایک جانب عین مال بھیجنے کے دنوں میں سرحدات کی ‏مسلسل بندش، جب کہ دوسری جانب بھاری بھرکم ٹیکسوں کے بوجھ اور تاجروں کے ‏پاسپورٹ اور ویزوں کا الگ سے مسئلہ تھا، جو فروخت کاروں کے لیے سخت نقصان کا ‏باعث بنا۔ دیگر سارے میوہ جات اندرون ملک ہی میں گل سڑ گئے ہیں۔ اور مخلوط حکومت کی جانب سے انہیں اسٹور کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ کابل کی مارکیٹ میں ‏تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے ماضی کے مقابلے ‏میں پاکستانی حکومت کی جانب سے تین گنا زیادہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جس سے افغان ‏تاجروں کو کافی زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کی تجارتی مارکیٹ کے ایک اہل کار کا کہنا ہے: ‏‏”جب افغانستان وسط ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے پاکستان کی راہ میں رکاوٹ ‏ڈالے گا تو پاکستان نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ افغان تاجروں سے ایک کلو میوہ پر 40 روپے ‏ٹیکس لے گا۔”‏

افغانستان ہر سال 200 ملین ڈالر کے تازہ میوہ جات برآمد کرتا ہے۔ خربوزہ، ‏تربوزہ، انگور اور سیب وہ تازہ میوہ جات ہیں، جو افغانستان ہر سال ہزاروں ٹن برآمد ‏کرتا ہے۔ افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایک ٹن پر 2 ہزار یا زیادہ سے زیادہ ‏‏2500 روپے ٹیکس لیتا تھا، جب کہ تعلقات کی کشیدگی کے بعد یہ ٹیکس یک دم 7000 تک ‏پہنچا دیا ہے۔ افغان تاجروں کے بقول پاکستانی تاجروں کا کہنا ہے کہ وسط ایشیائی ممالک کے لیے ‏مال لےجاتے ہوئے افغان حکومت کی جانب سےرکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ 100 ‏ڈالر کمپیوٹرائز وزن کرنے پر عائد کیا گیا اور 100 ڈالر راستے کا لگا دیا۔ اس کے باوجود اجازت بھی ‏مشکل سے دیتے ہیں۔ جب سے افغان حکومت نے یہ اقدام اٹھایا ہے، پاکستان نے بھی افغان ‏تاجروں کے ایک کلو پر 40 روپے ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ کابل حکومت کی جانب سے اس ‏اعتراض کے جواب میں کہا گیا ہے کہ دراصل پاکستان حکومت افغان تاجروں ‏کے لئے مسائل کھڑی کرتی ہے، جس کی ہمیں کوئی پروا نہیں۔ کیوں کہ ہم نے فضائی راستوں کے ‏ذریعے ہندوستان، امارات، سعودی عرب، ہالینڈ، جرمن، فرانس، اٹلی اور دیگر بہت ‏سے یورپی ممالک کے لیے تازہ میوہ جات بھیجنے شروع کر دیے ہیں۔

بات یہ ہے کہ کابل حکومت کے اہل کار جو خود کو اقتصادی ماہر بھی سمجھتے ہیں اور اس حوالے ‏سے عوام کو جھوٹی تسلیاں بھی دیتے تھے، آج اپنے عمل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ان کا ہر عمل ‏امریکی مفادات کی تحفظ کے لیے ہے۔ انہیں عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک ‏جس کی اقتصادی حالت صفر درجہ پر ہو، وہ کس طرح فضائی راستوں کے ذریعے دنیا کے ‏مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرے گا؟ وہ زمینی راستے جو ایک متوسط درجے کے تاجر ‏کے لیے آسان ذریعہ تجارت سمجھا جاتا تھا، وہ مخلوط حکومت نے ناکام خارجہ پالیسیوں کی بدولت ‏امریکی مفادات پر قربان کر دیا ہے، جس کی قیمت ایک غریب  تاجر ادا کر رہا ہے۔

یہ ثابت ہوچکا کہ اس سال تازہ میوہ جات کا آدھے سے زیادہ حصہ ضایع ہو گیا ہے۔ حکومت کی ‏نااہلی کا حال یہ ہے کہ یہ حکام افغان عوام کی زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں۔ ہمسایہ ‏ممالک کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کا حال یہ ہے کہ اپنی تجارت کے لیے بھی ان کے پاس ‏کوئی راستہ نہیں، لیکن درپردہ انہی کے ساتھ سرحدی حدبندی جیسے مسائل پر سمجھوتہ ‏کرتے ہیں۔ اس ساری صورت حال پر نااہل حکومت کا جواب یہ ہوتا ہےکہ اشرف غنی نے ‏افغانستان کو فضائی راستوں کے ذریعے دنیا کے ساتھ ملا دیا ہے، جو درحقیقت افغان عوام کے ‏حقوق کے ساتھ کھیلنے کے مترادف اور ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک ہے۔