سمرقند

سمرقند ازبکستان میں افغانستان پر پڑوسی ممالک کا چوتھا اجلاس

سمرقند ازبکستان میں افغانستان پر پڑوسی ممالک کا چوتھا اجلاس

مستنصر حجازی

ازبکستان کے شہر سمرقند میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کا چوتھا اجلاس 13 اپریل کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں روس، چین، ترکمانستان، تاجکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ جب کہ پاکستان کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں افغانستان کے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ اس سے قبل اسی نوعیت کے اجلاس ستمبر 2021 کو پاکستان، نومبر 2021 میں ایران کے دارالحکومت تہران اور مارچ 2022 میں چین منعقد ہوئے تھے۔ افغانستان کے بحران پر سب سے اہم افغانستان کے پڑوسی ممالک کے اجلاس ہوتے ہیں۔ کیوں کہ افغانستان کے حالات کا براہ راست اثر انہی پر پڑتا ہے اور وہ افغانستان کے مسئلے کو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی اہم وہ اجلاس ہوتا ہے جس میں افغان حکومت کا نمائندہ بھی مدعو ہو۔ کیوں کہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان کا اپنا نمائندہ افغانستان کے مسائل بیان اور اس کے حل کےلیے بہتر تجویز دے سکتا ہے۔ سمرقند کا حالیہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ اس میں افغانستان کے وزیر خارجہ کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ انہوں نے وفد کے ہمراہ شرکت کی اور اجلاس کے شرکا سے خطاب بھی کیا۔ اجلاس سے قبل افغانستان ایران اور چین کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی غیر رسمی نشست بھی ہوئی۔ جب کہ اجلاس کے بعد روس، چین، پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کی غیر رسمی نشست ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے اجلاس کے حوالے سے بتایا کہ تمام شرکا کا افغانستان کے حوالے سے سوچ مثبت تھی۔ پڑوسی ممالک نے افغانستان میں سرمایہ کرنے میں دل چسپی کا اظہار کیا۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے افغانستان کے مسئلے کے حل کےلیے پانچ ممالک پر مشتمل ایک پلیٹ فارم بنانے کی تجویز دی، جس میں روس، چین، بھارت، ایران اور پاکستان شریک ہو۔ افغانستان کے وزیر خارجہ نے بھی افغان سر زمین کسی دوسرے ملک کی سالمیت کے خلاف استعمال نہ کرنے کے وعدے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا: “افغانستان اپنے وعدے پر قائم ہے کہ ہم کسی فرد یا گروہ کو افغانستان کی سرزمین خطے یا دنیا کے کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے یا افغانستان میں منشیات لگانے یا اسمگل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔”
سمرقند کے حالیہ نوعیت کے اجلاسات کی طرح پاکستان نے ستمبر 2021 میں ڈالی تھی، جس کے بعد ایران اور چین نے بھی اسی نوعیت کے اجلاسات منعقد کیے تھے۔