شاید امریکی غلاموں نے ایسا نہیں سوچا تھا؟

آج کی بات آج افغانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے وہ ویڈیو اور منظر دیکھا جو بدخشان ہوائی اڈے پر کابل انتظامیہ کے حکام، ارکان پارلیمنٹ اور کمانڈرز بدخشان سے راہ فرار اختیار کرنے کے موقع پر طیارے میں کتنی عجلت اور ازدھام کے ساتھ سوار ہورہے تھے۔ اگرچہ امارت اسلامیہ ہمدردی اور معاف کرنے […]

آج کی بات
آج افغانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے وہ ویڈیو اور منظر دیکھا جو بدخشان ہوائی اڈے پر کابل انتظامیہ کے حکام، ارکان پارلیمنٹ اور کمانڈرز بدخشان سے راہ فرار اختیار کرنے کے موقع پر طیارے میں کتنی عجلت اور ازدھام کے ساتھ سوار ہورہے تھے۔
اگرچہ امارت اسلامیہ ہمدردی اور معاف کرنے کی پالیسی کے تحت میدان جنگ میں گرفتار فوجیوں اور عہدیداروں کے ساتھ مجاہدین ہمدردی، رحم اور شفقت کا اظہار کرتے ہیں، ان کے سر پر دست شفقت رکھتے ہیں، لیکن بزدل دشمن کے حکام اور سیاست دانوں نے ان کے گھناؤنے اور وحشیانہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے اپنی گریبانوں میں جھانک کر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے کچھ ڈالر اور اقتدار کی کرسی کو حاصل کرنے کے لئے اپنے دین ، ملک ، عوام اور قومی اقدار کے خلاف کسی جرم اور ظلم سے دریغ نہیں کیا۔
امریکی اور نیٹو کے غلاموں کی یہ حالت زار صرف بدخشان تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر صوبے میں وہ راہ فرار اختیار کررہے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ کابل میں محفوظ رہیں گے یا پھر وہ آسانی سے کابل سے فرار ہوجائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق ہندوستان کے علاوہ کوئی بھی ملک انہیں پناہ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔
امریکہ ، مغرب ، نیٹو اور دیگر 48 ممالک نے اربوں ڈالر، عملی موجودگی اور جدید ٹکنالوجی کی وجہ سے ورغلائے ہوئے کٹھ پتلیوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کے آقا انہیں آدھے راستے میں تنہا چھوڑ دیں گے، شام کو فوجی اڈوں میں موجود ہوں گے لیکن آدھی رات کو بگرام جیسے فوجی اڈوں سے راہ فرار اختیار کریں گے، انہوں نے شاید کسی قیمت پر سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن امریکی صدر وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے کہیں گے کہ ان کے سامنے مزید افغان جنگ کا نام نہ لیا جائے، ہم نے وہاں بیس سال کٹھن دور گزارا ہے۔