شہید ملا محمدرحمہ اللہ کی جہادی زندگی پر ایک نظر

شاہدغزنیوال ملامحمد رحمہ اللہ تحریک اسلامی طالبان کے ان بانیوں  میں  سے ہیں  جن کی زیر تربیت کئی ایسے عسکری و جہادی شاہکاروں  نے تربیت پائی،جنھوں  نے آج کفری دنیاکے بڑے بڑے تربیت یافتہ فوجی جرنلوں  کو ان کے تمام وسائل کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے ۔ان بہادر مجاہدین کے ہر کارنامے […]

شاہدغزنیوال

ملامحمد رحمہ اللہ تحریک اسلامی طالبان کے ان بانیوں  میں  سے ہیں  جن کی زیر تربیت کئی ایسے عسکری و جہادی شاہکاروں  نے تربیت پائی،جنھوں  نے آج کفری دنیاکے بڑے بڑے تربیت یافتہ فوجی جرنلوں  کو ان کے تمام وسائل کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے ۔ان بہادر مجاہدین کے ہر کارنامے کے ساتھ اور عملی محاذوں  میں  ہر عسکری کامیابی کے ساتھ ملامحمد شہیدؒ کانام اور بھی تروتازہ ہوتا جاتا ہے ۔ ان کے جہادی مدرسے کے شاگرد اب بھی ان کا نام لینے پر فخرکرتے ہیں ، ملامحمدؒ شہید کی حیات سعیدہ اس شجرۂ طیبہ کی طرح ہے جس کی جڑیں  تو زمین میں  ہیں  مگر اس کی شاخیں  آسمان تک جا پہنچی ہوں ۔ ملامحمد رحمہ اللہ نے بھی اپنے خون سے اس تحریک کی جڑوں  کو سیراب کیا ہے ، اسی پاکیزہ خون سے نمونے پانے والی طالبان کی تحریک ہمارے سامنے ہے کہ یہ اسلامی دنیا کی سب بڑی جہادی تحریک بن چکی ہے، جس نے دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور اور مغرور صلیبی طاقت سے ٹکر لے رکھی ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسٹریٹجک پاور ، ٹیکنالوجی ، تربیت یافتہ فوج اور بے انتہاء مالی وسائل سے مالا مال امریکہ ان نہتے لوگوں  کے سامنے پانی بھرتانظرتاآرہا ہے ۔

شہیدملامحمد رحمہ اللہ طالبان اسلامی تحریک کے بانیوں  میں  سے واحد ایسی شخصیت تھے جو سوویت یونین کے خلاف جنگ کے حوالے سے ملک کے جنوب مغربی کونے میں  انتہائی اچھی شہرت رکھتے تھے،۔اسی نیک نامی نے تحریک طالبان کی تاسیس کے موقع پر نہایت اہم کردار اداکیا ۔ غاصب سوویت یونین اور ان کے چاپلوسوں  اور مفسدین کے خلاف جہاد میں  یہ انتھک اور ممتاز شخصیت تھی جن کی حیات طیبہ اور ہر کارنامہ تاریخ کے صفحات پر زریں  الفاظ کے ساتھ رقم کیے جانے کے قابل ہے ،تاکہ ہماری آئندہ نسلیں  ان کی زندگی سے مستفید ہوسکیں  ۔

تعارف:

ملامحمد رحمہ اللہ نے آج سے 53سال پہلے 1338ھ ۔ش میں  صوبہ قندہارکے ضلع ارغنداب کے گاؤں  منار میں  مرحوم مولوی عبدالواحد کے علمی گھرانے میں  پیدا ہوے، مرحوم نے اپنی علمی زندگی کا آغاز اپنے شفیق ومہربان چچا مولوی نورمحمد کی شرف تلمذ سے کیا ،اور انتہائی کم عرصے میں  درمیانی مراحل تک تعلیم مکمل کرلی ۔

جہاد اورعملی زندگی :

شہید ملامحمد رحمہ اللہ ابھی دینی مدرسے میں  اپنی تعلیم میں  مصروف تھے کہ سوویت یونین ہمارے پاکیزہ حریم پر حملہ آور ہوا ۔ ملامحمد رحمہ اللہ اگرچہ اس وقت کم سن تھے مگر ان کا غیرت مند دل یہ برداشت نہ کرسکا کہ وہ ایسے حالات میں  اپنی تعلیم جاری رکھیں  جب کہ ان کا ملک غاصبوں  کی جارحیت کے زیر تسلط ہو۔یہی وقت تھا جب وہ اپنی تعلیم چھوڑ کر ان جارحین کے مقابلے کے لیے علاقے کے مشہور جہادی کمانڈر شہید لالا ملنگ رحمہ اللہ کے ساتھ محاذ میں  شامل ہوگئے ۔ شہید ملا محمدرحمہ اللہ کو بہت کم وقت میں  ایک ماہر جہادی رہنما کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ خطے کے دیگر مجاہدین بھی اپنے جہادی پروگراموں  میں  ان سے مشورے اور ان کی رہنمائی لینے کے لیے ان کے پاس آتے جاتے تھے۔

مرحوم نے اپنی جہادی زندگی کاآغاز قندہار کے ضلع مجالات ، خوشاب، پاشمول اور چارباغ سے روسی فوجیوں  کے خلاف لڑائی سے کیا ۔انہوں  نے مذکورہ علاقوں  میں  دشمن کی کارروائیاں  روکنے کے لیے پہلی مرتبہ حلقہ بند مورچہ بندی کا طریقہ ایجاد کیا ۔ دشمن سے مقا بلے میں  معرکے کی اس پہلی صف کی ساری کی ساری تنظیم وادارت وہ خود کرتے تھے ۔ان کی عسکری تکنیک دشمن کی فوج کو محاصرہ کرنے اور ان کی راہ روکنے میں  بنیادی کردارادا کرتی تھی ۔ موصوف نے پہلی مرتبہ اسی عسکری مہارت کے ذریعے قندہار کاضلع باباصاحب فتح کیااوروہاں  موجود دشمن کا ساراسامان مال غنیمت میں  لے آئے ۔ ملامحمد شہید کے قریبی اور ہمنشین ساتھی حاجی رحمت اللہ ان کی عسکری فہم وفراست کے بارے میں  کہتے ہیں  :

ایک مرتبہ قندہار شہر کے قریب انہوں  نے روسی فوجیوں  کے ایک کانوائے پر حملہ کے لیے مورچہ بندی کی ، یہ کانوائے تین بکتربند گاڑیوں  کی حفاظت میں  گزرہاتھا ۔ مجاہدین نے ملامحمد کی کمان میں  اس کانوائے پر اچانک حملہ کردیا جس میں  دو بکتربند گاڑیاں  تباہ ہوگئیں  جبکہ ایک بکتربند گاڑی بچ نکلنے میں  کامیاب ہوگئی ۔ ملامحمد شہید نے اس بکتر بندکا بھی تعاقب کیا ، انہوں  نے دیکھا کہ وہ گاڑی ایک جگہ آکر رک گئی جس سے تین روسی فوجی اترے اور سڑک کے کنارے ایک گوشے میں  بیٹھ گئے ۔ یہ تینو فوجی روسی ساختہ گن کلاکوف سے مسلح تھے ۔ انہوں  نے اپنے اسلحے ساتھ ہی زمین پر رکھدیے ۔ شہید ملا محمد نے اچانک تکبیر کے ایک نعرے کے ساتھ ان پر فائر کھول دیا ، تینوں  کو موقع پر ہی ماردیا اور ان کا اسلحہ غنیمت میں  حاصل کرلیا ۔

جنوب مغربی علاقے میں  روسیوں  کے خلاف مقابلہ کرنے والوں  میں  سب سے زیادہ مشہور،کمانڈر لالا ملنگ شہید رحمہ اللہ کامحاذ تھا ،جس میں  علاقے کے سب سے بڑے مجاہدین ملابورجان شہید، ملامحمد حسن رحمانی، حاجی لالااور کمانڈر عبدالرازق شامل تھے اور اس گروپ کے بڑے رہنماؤں  میں  شمار کیے جاتے تھے ۔ ان نامور مجاہدین کے مجموعے میں  ایک ملا محمد شہید رحمہ اللہ بھی تھے جو اپنے ساتھیوں  میں  اچھے اخلاق ، اچھی عسکری مہارت ، تقوی اور مجاہدانہ بہادری میں  معروف تھے ۔

تحریک اسلامی طالبان کی تاسیس میں  شہید ملامحمد رحمہ اللہ کا کردار:

افغانستان میں  کمیونسٹوں  کے زوال کے بعدپورے ملک میں  ظالمانہ تنظیمی لڑائیوں  کا آغاز ہوگیا ۔ ان خونریز لڑائیوں  سے افغان عوام کی وہ ساری امیدیں  خاک میں  مل گئیں  جن کے حصول کے لیے ڈیڑھ ملین انسانوں  نے اپنا پاکیزہ خون بہایا تھا۔یہ نا موافق حالات کسی بھی افغان مسلمان کے لیے قابل قبول نہ تھے ، اور یہی حالات تھے جن کے بدلنے کے لیے امیرالمومنین ملامحمد عمر حفظہ اللہ کی جانب سے طالبان کی اسلامی تحریک کی بنیاد رکھی گئی ۔اس تحریک کے بانیوں  میں  ایک ملامحمد شہید رحمہ اللہ تھے جنہوں  نے انتہائی قربانیوں  اور جنگی مہارتوں  کے ذریعے جنوب مغربی علاقوں  میں  طالبان کی اسلامی تحریک کے لیے راہ ہموار کی ۔ شہید ملامحمد کے ایک قریبی ساتھی حاجی لالا تحریک کی تاسیس میں  ان کے کردار کے متعلق فرماتے ہیں  :

کابل میں  نجیب کی کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے بعد ہمارا ایک وفد جوسو آدمیوں  پر مشتمل تھا کابل میں  معروف جہادی شخصیت مولوی یونس خالص صاحب ملنے گیا ۔ مولوی یونس خالص صاحب حزب اسلامی کے نام سے ایک جہادی تنظیم کے سربراہ تھے ۔ہمارا محاذبھی موصوف کی تنظیم سے مربوط ایک محاذ تھا ، وہ ہمارے لیے ایک قابل قدر عالم اور جہادی رہنماکی حیثیت رکھتے تھے ۔ ہم نے کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد اپنے آئندہ کے پروگراموں  کے متعلق مشورہ مانگا توان کا کہنا تھا:

‘’محض کمیونسٹوں  کے خاتمے سے جہادی اہداف حاصل نہیں  ہوئے اور نہ ہی حقیقی مجاہدین کی آرزؤوں  کا مان پورا ہوگیا ہے ، آپ لوگ اپنا اسلحہ اور تمام جہادی وسائل سنبھال کررکھیں  اور کسی بھی تنظیم کے ساتھ مل کر تنظیمی جھگڑوں  میں  فریق بننے سے احتراز کریں ۔ آپ لوگ جنوب مغرب میں  میری تنظیم کے سارے ہی متعلقین تک میرا یہ پیغام پہنچائیں  اور ان سے کہیں  کہ جس ہدف کے حصول کے لیے ہم نے جہاد کا آغآز کیا تھا وہ ابھی پورا نہیں  ہوا، آپ لوگ کوشش کریں  کہ اپنی جہادی تشکیلات اور گروپ اسی طرح برقرار رکھیں  اور تنظیمی جھگڑوں  سے دور رہیں  ۔‘‘
حاجی لالا فرماتے ہیں  جب ہم نے کابل سے واپس قندہار آکر خالص بابا مرحوم کی ہدایات ملامحمد رحمہ اللہ کو سنائیں  تو موصوف نے اپنے سارے مجاہدین کو جمع کیا اور انہیں  اپنے جہادی رہنما خالص کی ہدایات سنائیں  ۔ اس کے بعد گروپ کے سارے عسکری وسائل کو جمع کیا اور ان کی حفاظت کے لیے کچھ لوگوں  کو متعین کرکے ان کے حوالے کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی دینی تعلیم وتعلم کے لیے دینی علوم کے ایک اچھے ماہر عالم دین کا بندوبست کیا اورانہیں  مجاہدین کی تعلیم کی ذمہ داری سونپ دی گئی، یہاں  تک کہ ہماراجہادی محاذ بہت جلدایک تعلیمی مدرسے میں  بدل گیا۔

ان مجاہدین کو ملامحمد شہید کی رہنمائی میں  شرعی اور عسکری تعلیم دی جاتی اور ان کی فکری تربیت کااہتمام کیا جاتا ۔ یہ ایسے وقت میں  ہورہاتھا جب تنظیموں  کے آپس کے جھگڑے عروج پر تھے ۔ ہر طرف بدامنی ، چوری اور ڈاکے کا راج تھا ۔ روسی جارحیت کے خلاف لڑنے والے بہت سے مخلص مجاہدین ان دردناک حالات کواپنی آنکھوں  سے دیکھ رہے تھے ، انھیں  ان حالات سے انتہائی تکلیف ہوتی تھی ۔ ہر ایک امید لگائے بیٹھا تھا کہ کہیں  سے کوئی آئے گا جوانہیں  ان مصائب سے نجات دلائے گا ۔ اور یہی وہ وقت تھا جب ملامحمد عمر مجاہد کی جانب سے تحریک اسلامی طالبان کی بنیادی رکھی گئی اور ملک کے کونے کونے سے سارے مخلص مجاہدین امن اور نجات کے اس قافلے سے آکر ملنے لگے ۔

لامحمد شہید رحمہ اللہ جو تحریک کے قریبی مخلص رہنماؤں  میں  سے تھے اور بہت پہلے سے فساد کے خاتمے کے لیے ایک اسلامی تحریک کے انتظار میں  تھے وہ پہلے کمانڈرتھے جو تحریک میں  آکر شامل ہوے اور اپنے سارے عسکری وسائل اور تربیت یافتہ مجاہدین کو تحریک کا حصہ بناکر اس میں  ضم کردیا۔

شہید ملامحمد کے تربیت یافتہ مجاہدین وہ لوگ تھے جنہوں  نے اپنے اچھے اخلاق اور اپنی مجرّب جہادی مہارات کے ذریعے امارت کے ہاتھ مضبوط کیے ،یہی وجہ تھی کہ بہت کم عرصے میں  ملک کے جنوب مغربی حصے میں  تمام علاقوں  کے مفسدین اور تنظیمی لڑاکو لوگ بھگادیے گئے اور وہاں  امن وامان کی فضا بحال کردی گئی۔ اور اسی دورانیے میں  طالبان تحریک کے رہنماؤں  نے ملامحمد شہید کو ان کی عسکری سمجھ بوجھ اور سابقہ جہادی تجربہ کی بناء پر تحریک کا عمومی کمانڈرمقررکردیا اور سارے عسکری علاقوں  کی ذمہ داری ان کے حوالے کردی ۔

تحریک کی تاسیس کے بعد ان کے کارنامے:

5/11/1994کو قندہار پر طالبان کے قبضے کے بعد ملامحمد شہید نے طالبان تحریک کے عمومی ناظم کی حیثیت سے قندہار کے پڑوسی صوبوں  کے تصفیے کے لیے ایک عسکری پلان مرتب کیا ،جس کے ذریعے سے بہت جلد ہلمند ، فراہ ،نیمروز اور اروزگان کے صوبہ جات سے پے درپے تنظیمی لڑاکاؤں  کاصفایا ممکن ہوا ۔ موصوف نے اس آپریشن میں  صوبہ فراہ کے ضلع دلارام سنجیلان کے علاقے میں  ایک بڑے معرکے میں  مخالفین کے 1300مسلح افراد کو زندہ گرفتار کرلیا اور نہایت ہی تھوڑے عرصے بعد انہیں  آزاد کردیا،وہ بار باراپنے ساتھیوں  کو قیدیوں  سے اچھے سلوک کی نصیحت کرتے رہے ۔

اس آپریشن کے آخر ی مراحل میں  مخالفین کی جانب سے جا بجا بچھائی گئی بارودی سرنگوں  کے ایک دھماکے میں  وہ شدید زخمی ہوگئے اورصوبہ ہرات کے لیے جو پلان انہوں  نے مرتب کیاتھا اور جسے وہ لے کر آگے جارہے تھے وہ یوں  ہی رہ گیا ۔ ملامحمد شہید ابھی پوری طرح سے صحتیاب بھی نہیں  ہوئے تھے کہ پھر سے خط اول پر گئے اور وہاں  مخالفین کے خلاف اپنی آغاز کردہ لڑائی کی کمان سنبھالی اور اللہ تعالی کی نصرت اور اپنی خاص عسکری مہارت سے خط اول کو ہرات تک پہنچاآئے ۔

ملامحمدکی جہادی زندگی کی چندخصوصیات:

دینی ماحول اور مضبوط ایمانی عقیدے کی بدولت ہمیشہ ایک مسلمان اس بات پرتیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان اللہ تعالی کی راہ میں  قربان کرے اور ایسے لوگوں  کو تیار کرے جو ضعیف اور کمزور لوگوں  کو جابروں  کے جبر سے آزاد کرائیں  ۔ ایسے جد وجہد کرنے والے لوگ بہت سے امتیازی خصوصیات کے حامل ہوا کرتے ہیں  ، ملامحمد رحمہ اللہ بھی ایسے لوگوں  میں  سے تھے ۔ ہم مختصر اً موصوف کی جہادی زندگی کی ان ہی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں  ؛

۱۔بے ریا تقویٰ اور خوف خداموصوف کا خاص امتیاز تھا ، ان کی اس خصوصیت کا اس وقت زیادہ پتہ چلتا ہے جب رات کے اندھیرے میں  وہ اللہ رب العزت سے راز ونیاز میں  مشغول ہوتے یا قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہوتے ۔

۲۔دشمن سے مڈبھیڑکے وقت ان کی بے پایاں  بہادری اور اپنے مجاہدین بھائیوں  پر بے انتہاء شفقت اور ہمدردی یہ وہ صفات تھیں  جس کی وجہ سے دیگر جہادی رہنماؤں  کے درمیان انہیں  خصوصی امتیاز حاصل تھا۔

۳۔وہ علمائے کرام اور بزرگوں  کابے حد احترام کیاکرتے تھے اور ہر کام میں  ان سے مشورہ لیا کرتے ۔

۴۔حلم ، حیا ء اور ایثاران کو بے حد پسند تھا وہ اپنے گھر ،محاذ اور مدرسے میں  اپنے ساتھیوں  کے ساتھ انہ ہی اعلیٰ اسلامی اخلاق سے پیش آتے تھے۔

۵۔زندگی میں  ہمیشہ ایک حالت پر رہتے ، نہ کسی پریشانی اور تکلیف کے وقت بے قابو گبھراہٹ کا شکار ہوتے اور نہ ہی خوشی کے موقع پر آپے سے باہر ہوتے ۔

۶۔ن کی زندگی بہت سادہ تھی ، عیش پر ستی اور ہوس رانی سے انہیں  سخت نفرت تھی ۔ ریا اور دکھلاوا وہ پسند نہیں  کرتے تھا ۔ بیت المال کے پیسوں  سے خود کو بہت دور رکھتے ، زندگی کے آخر تک انہوں  نے ذاتی کاموں  کے لیے بیت المال کا استعمال نہیں  کیا ۔

۷۔ہر قسم کی گناہوں  سے خود کو صاف رکھتے ، نہ پیٹھ پیچھے کسی کی غیبت کرتے اور نہ سامنے کسی کی تعریف کرتے ۔

۸۔ جہادی ضروریات اور ٹریننگ کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ اسلحہ ودیگر عسکری آلات اور جنگی تکنیکوں  کا سیکھنا ان کا مشغلہ تھا ۔ عسکری وسائل اور جنگی آلات کے ساتھ ان کی بے انتہا محبت کے بارے میں  ان کی قریبی ساتھی حاجی لالا یوں  کہتے ہیں :

[ملا محمد مرحوم ہر قسم کے اسلحہ سے بے انتہا محبت رکھتے تھے ۔ اپنا اسلحہ صرف نماز کے وقت خود سے الگ کرتے باقی ہر وقت ان کا اسلحہ ان کے کندھے سے لٹکا رہتا تھا ۔ 1990 ء میں  صوبہ زابل کی جنگ میں  کمیونسٹوں  سے بہت زیادہ اسلحہ مال غنیمت میں  حاصل کیا تو دیگر محاذوں  کے مجاہدین کے حصے میں  جو آیا تھا،اسلحہ زیادہ ہونے کی وجہ سے سب نے وہ اسلحہ فروخت کردیا ۔ صرف ملامحمد ایسے شخص تھے جنھوں  نے نہ صرف اپنا اسلحہ اپنے پاس سنبھالے رکھا بلکہ کوشش کرتے رہے کہ دیگر ساتھیوں  سے ان کا اسلحہ بھی باقاعدہ قیمت دے کر خریدا جائے ۔ مرحوم نے یہ اقدام ایسے وقت میں  کیا جب ہمارا محاذ اس وقت انتہائی تنگ دستی کا شکار تھا۔ ]

موصوف مزید بتاتے ہیں  کہ انہوں  نے اس مال غنیمت میں  سے روسی ساختہ دو ڈی، سی توپیں  انتہائی بڑی قیمت دے کر خریدیں  اور پھر ایک خاص فوجی صاحب منصب اپنے محاذ کے لیے متعین کیا کہ وہ آکر ہمارے محاذ کے مجاہدین کو ان توپوں  کے استعمال کا طریقہ سکھائے ۔

شہادت سے سرفرازی :

بڑی مدت تک جہاد اور قربانیو ں  کے بعد اللہ کے راستے کا یہ انتھک مجاہد ، غازی اورہمدرد ذمہ دارمخالفین سے روبرو لڑائی میں  23/8/1995کو ضلع دلارام اور کرشک کے درمیان واقع شوراو کے علاقے میں  شہاد ت سے سرفراز ہوگیا۔

محترم قارئین! ہم اپنے اس تاریخی شاہکار اور نڈر مجاہد ملامحمد کے جہادی کارناموں  کے اتنے ہی تذکرے پر اکتفاکرتے ہیں ، کیوں  کہ ان کی زندگی بھر کے تفصیلی واقعات کی تشریح کے لیے ہماری تحریر کا دامن ناکافی ہے ۔ سوانح کی اشاعت کامقصد آئندہ نسلوں  تک تاریخ کی ان عبقری شخصیات کے متعلق مکمل و مستند معلومات محفوظ کرناہے تاکہ امریکی جارح سے مقابلہ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آ باء واجداد کی تاریخ موجود ہو اور ان کی زندگیوں  سے استفادہ کرسکیں  ۔