صوبہ ہرات کے جہادی مسؤول مولوی عبدالغنی سے گفتگو

انٹرویو:حبیب مجاہد محترم قارئین !صوبہ ہرات افغانستان کے مغرب میں واقع انہتائی اہم اور زیادہ آبادی والے صوبوں میں سے ایک ہے ، جس کی سرحدیں ترکمانستان اور ایران کی سرحدوں سے ملتی ہیں ۔ اس صوبے میں گنجان آبادی والے اضلاع اور بڑا مرکزی شہر شامل ہیں ۔ یہاں کے لوگ افغانستان بھر کے […]

انٹرویو:حبیب مجاہد
محترم قارئین !صوبہ ہرات افغانستان کے مغرب میں واقع انہتائی اہم اور زیادہ آبادی والے صوبوں میں سے ایک ہے ، جس کی سرحدیں ترکمانستان اور ایران کی سرحدوں سے ملتی ہیں ۔ اس صوبے میں گنجان آبادی والے اضلاع اور بڑا مرکزی شہر شامل ہیں ۔ یہاں کے لوگ افغانستان بھر کے لوگوں میں زیادہ جہادی جذبہ ،استقلال ا ور شجاعانہ صفات کے ساتھ ممتاز ہیں۔ اسی لیے جہاں افغانستان پر حالیہ بیرونی جارحیت کے خلاف دوسرے اضلاع میں جہادو قتال جاری ہے، وہیں رواں سال’’ الفاروق آپریشن ‘‘کے آغاز کے بعد سے پورے افغانستان کی طرح ہرات میں بھی جہادی کارروائیوں میں بہت تیزی آئی ہے ۔ اورخوش آیند بات یہ ہے کہ امارت اسلامی افغانستان کی جانب سے دعوت وارشاد کے مختلف ترغیبی پروگرام جاری ہونے کے بعد سے سینکڑوں ایسے لوگ جوصوبے میں دشمن کی صفوں میں کھڑے تھے حقائق سے باخبرہوکر اپنے اسلحہ سمیت دشمن کی صفوں سے نکل کر مجاہدین کی صفوں میں آشامل ہوے ہیں ۔ ہرات کے ان ایمان افروز حالات معلوم کرنے اور مجاہدین کی دیگر کامیابیوں سے متعلق جاننے کے لیے ہم نے زحمت دی ہے صوبہ ہرات کے عمومی جہادی ذمہ دار مولوی عبدالغنی صاحب کو،اور ان سے کچھ سوالات کیے ہیں جوقارئین کی معلومات اور امتِ مسلمہ کی حوصلہ افزائی کے لئے پیشِ خدمت ہیں ۔
نمایندہ :محترم مولوی صاحب ؛سب سے پہلے توہم آپ کواپنے مجلے کے’’ملاقاتی صفحے ‘‘میں خوش آمدید کہتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے قارئین کو ہرات کے موجودہ جہادی حالات کے متعلق ذراتفصیل سے بتائیں، اور ہرات کی موجود صورتحال پر بھرپور روشنی ڈالیں !
مولوی صاحب :نحمد ہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
سب سے پہلے میں آپ کو اور تمام قارئین کو السلام علیکم کہتاہوں ۔ صوبہ ہرات کے متعلق مختصراً اتنا کہوں گاکہ ہرات میں اب ماضی کے بنسبت جہادی کام کم وکیف کے اعتبار سے اچھاہوگیا ہے۔ ہرات کے مرکز اور تمام اضلاع میں نہ صرف ہماری تشکیلات فعال ہیں بلکہ وہ ساری تشکیلات جن کے احکامات امارت اسلامی کی جانب سے “لائحہ ” کی شکل میں آتے ہیں، سب کی سب ہرات کے تمام اضلاع میں فعال ہیں ۔ اس کے علاوہ عملی جہاد بھی پورے صوبے میں پھیلا ہوا ہے ۔ ہرات کے اضلاع میں شینڈنڈ ، ادرسکن، گلران ، رباب سنگی ، کشک کھنہ ، اوبی ، چشت، اور غوریان وہ علاقے ہیں ،جن کے اکثر حصے بالکل فتح ہوگئے ہیں، یعنی وہاں کے اطراف کے تمام علاقوں میں مجاہدین کو تسلط حاصل ہے اور دشمن کا قبضہ صرف علامتی ہے ۔ اس پر مستزاد گذرہ ، زندہ جان، انجیل ، پشتون ، زرغون اورکرخ وہ علاقے ہیں، اوروہاں موجود مجاہدین بھی خوب طاقت میں ہیں اور دشمن آسانی سے گشت و گذر نہیں کرسکتا ۔
ہرات میں دشمن کے قبضے اور استحکام کے متعلق بتاتاہوں کہ وہاں خارجیوں کا قبضہ انتہائی کمزور ہوگیاہے ۔ اب صرف مرکز ، شینڈنڈ اور اوبی کے اضلاع میں کچھ امریکی موجود ہیں ۔ ضلع شینڈنڈ میں زیرکوہ کا علاقہ جس کی آبادی انتہائی زیادہ ہے اور یہ انتہائی اہم علاقہ ہے ،پہلے اس علاقے میں بہت سے کیمپ اور اربکیوں کی چیک پوسٹیں تھیں ۔ اب دشمن ان کیمپوں سے بھاگ گیا ہے اور اکثر اربکیوں نے بھی اسلحہ ڈا ل دیا ہے ۔ اب اس وسیع علاقے میں جہاں ہزاروں خاندان رہتے ہیں ، صرف بخت آباد کے گاؤں میں کچھ خارجی اور داخلی فوجیوں کا تسلط ہے ، بقیہ علاقے دشمن سے پاک ہوگئے ہیں ۔ ہرات میں دشمن کا سارا تکیہ اب اس کرایے پر کام کرنے والی اردو ملی افواج(افغان نیشنل آرمی) پر ہے جو مختلف اضلاع میں چھی بیٹھی ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ خارجیوں کا تسلط بالکل کم ہوگیاہے۔ محلی پولیس (اربکی ) بھی صرف شینڈنڈ ، کشک کھنہ ، اوبی اور اسلام قلعہ میں تھوڑی سے تعداد میں موجود ہے۔ان علاقوں میں بھی اب وہ مجاہدین کے سامنے آئے روزہتھیار ڈال رہے ہیں ۔
نمایندہ: ہرات میں الفاروق آپریشن کی کامیابیوں کے متعلق کچھ معلومات سے پردہ اٹھانا پسند کریں گے ؟
مولوی صاحب : للہ الحمد! پورے افغانستان کی طرح صوبہ ہرات میں بھی الفاروق آپریشن نے بہت سی اہم کامیابیا ں حاصل کی ہیں ۔ اس آپریشن کے اعلان کے بعد سے اب تک پورے ہرات میں مختلف علاقوں میں دشمن پر 118ایسے حملے اور دھماکے ہوئے ہیں جس میں دشمن کو انتہائی سخت نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ اس پر مزید یہ کہ مرکزی شہر میں بھی مجاہدین کی کوششوں کی برکت سے کامیاب کارروائیوں کا آغازہوگیاہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہرات افغانستان کے مغرب میں سب اہم اور بڑا شہر ہے ۔ جس کے دفاع پر دشمن نے بھی بھر پور توجہ دی ہوئی ہے ۔ مگر دشمن کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مجاہدین کی قربانیوں کی برکت سے اب اس شہر کے داخل میں بھی دشمن پرحملے ہورہے ہیں ۔ رمضان المبار ک کے پہلے نصف میں ہرات کے شہر میں7مؤثر آپریشن ہوچکے ہیں ۔بعض مواقع پر دشمن کے فوجیوں کو بغیر آوازوالی رائفلوں سے نشانہ بنایا گیا یادشمن کے مراکز پر دستی بموں سے حملے کیے گئے ہیں۔ اسی طرح ہرات کے صوبائی مقام کے انتہائی قریب مستوفیت چورنگی پر دشمن کی رینجرگاڑی کو بم سے تباہ کردیا گیا تھا ۔ دشمن جو اس شہر کو اپنے لیے واحد پر امن شہر سمجھتا تھا ان واقعات کے بعد سخت مشکلات سے دوچارر ہوگیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس سال ہماری بڑی کامیابی دشمن کی صفوں سے سینکڑوں لوگوں جدا کرنا ہے،جس نے دشمن کے حوصلے پرانتہائی کاری ضرب لگائی ہے ۔
نمایندہ :آپ نے دشمن کے افراد کے ہتھیار ڈالنے کی بات کی ہے،اس کی تفصیلات اگر اجاگر کی جائیں تو بہت بہتر ہوگا ۔
مولوی صاحب :کیوں نہیں۔۔۔ اس سال ہرات کے مجاہدین کی بڑی کامیابی یہ تھی کہ دعوت وارشاد کے پروگراموں کی برکت سے جولوگ ہرات کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی اداروں میں کام کررہے تھے، دشمن کی صفوں سے نکل کر مجاہدین سے مل گئے ہیں ۔ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ خود آکر ملے ہیں بلکہ اپنے ساتھ بہت سارا اسلحہ بھی لائے اور مجاہدین کے حوالے کردیاہے۔ اب تک ہم نے دشمن کے ہتھیار ڈالنے والے افراد کی مکمل گنتی نہیں کی ہے مگر اجمالی طور پر اتنا کہاجاسکتاہے کہ قریبی دنوں میں صرف شینڈنڈ میں 159، ادرسکن میں 26، ضلع اوبی میں4اور چشت میں 21افراد مجاہدین سے آملے ہیں، جو بڑی تعداد میں بھاری اور ہلکا اسلحہ ، وائر لیس سیٹ ، اور موٹر سائیکلز اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔ ہرات کے دیگر اضلاع میں بھی دشمن کے افراد نے ہتھیار ڈالے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ اس بارے میں مزید بتا تا ہوں کہ اس سال دشمن کے افراد کے مجاہدین سے ملنے کے واقعات میں اس لیے تیزی آئی ہے کہ امارت اسلامیہ کی جانب سے دعوت وارشاد کے نام سے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو ان افغانوں کوجنہیں دشمن نے ورغلا کر اپنی صفوں میں کھڑا کردیا ہے اور وہ صرف اور صرف پیسوں کی خاطر دشمن کے لیے لڑرہے ہیں ، ان کی رہنمائی کرے اور ان کو اپنی غلطیوں پر متوجہ کرے ۔ اس کمیشن نے پورے افغانستان کی طرح ہرات میں بھی کام شروع کیاہے اور اب تک ان کے کاموں کا بہت اچھا نتیجہ آرہا ہے ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ دعوت وارشاد کے اس کام کے نتیجے میں ان شاء اللہ دشمن تنہا رہ جائے گا ،جو دشمن کی ناکامی کا باعث ثابت ہو گا ۔ اس لیے کہ اس طرح سے ہمارے لیے بغیر کسی جھگڑے اور نقصان کے دشمن کی صفوں کو نقصان پہنچانا ممکن ہورہاہے،دوسری طرف ہتھیار ڈالنے کا یہ سلسلہ دشمن کے مورال پربھی برا اثر ڈالے گا جس سے دشمن اپنے مستقبل سے مایوس ہوگا ۔
نمایندہ :آپ نے کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ صوبہ ہرات میں بہت سے علاقے دشمن کے وجود سے پاک ہوگئے ہیں کیا دشمن نے ان علاقوں پر دوبارہ قبضے کا کوئی قدم نہیں اٹھایا ؟ اگر ایسا کوئی اقدام کیاہے تو اس کا کیانتیجہ نکلا ہے ۔ کابل کاوزارت دفاع ہمیشہ یہ کہتاہے کہ انہوں نے امید کے نام سے پورے افغانستان میں آپریشن شروع کیا ہوا ہے ۔ وہ روزانہ بہت سے علاقوں کو قبضہ کرنے کے دعوے کرتے ہیں اسی طرح وہ ہر دن اپنے آپریشنز میں مجاہدین کی شہادت اور ان کی گرفتاریوں کے دعوے بھی کرتے رہتے ہیں ۔ ہرات کے متعلق ان کے اس طرح کے دعووں کی حقیقت کیا ہے؟
مولوی صاحب :اس میں کوئی شک نہیں کہ کرزئی حکومت عملی عسکری محاذ پر شکست سے دوچار ہوچکی ہے، اب وہ چاہتے ہیں کہ بے بنیاد پروپیگنڈے اور دعووں کے زور پر اس شکست کو فتح میں بدل دیں ۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ہرات میں خارجیوں کا تسلط اب بہت کم ہے اور وہ لوگ اب آپریشن میں بھی بہت کم حصہ لیتے ہیں، اس لیے اب دشمن کاسارا تکیہ وزارت دفاع کی بنائی ہوئی افغان نیشنل آرمی پر ہی ہے ۔ گذشتہ چند مہینوں میں دشمن کی داخلی فوج نے جن کے ساتھ کبھی کبھی خارجی جارحین بھی ہوتے تھے ،گذرہ ، رباط سنگی ، اور شینڈنڈ کے زیرکوہ کے علاقے میں بار بار آپریشن کیے مگر سوائے اس کے کہ دشمن کو بھاری نقصان کے ساتھ ہزیمت اٹھانی پڑی ان آپریشنوں کا کوئی اور نتیجہ نہیں نکلا۔ نہ کسی مجاہد کو گرفتار یا زخمی کرسکے ہیں اور نہ کسی علاقے پر قبضہ جمایا ہے ۔
مجاہدین کے نقصانات کے متعلق بھی بتادیتا ہوں ۔ الفاروق آپریشن کے آغاز کے بعد سے پوررے ہرات میں ہمارے 10مجاہدین شہید اور 7یا8 زخمی ہوئے ہیں ۔ یہ نقصانات 118سخت آپریشنوں کی بنسبت بہت کم ہیں۔یہ مجاہدین بھی دشمن سے آمنے سامنے کی جنگوں میں شہید ہوئے ہیں ، دشمن کے کسی آپریشن یا چھاپوں میں شہید نہیں ہوئے ۔
نمایندہ :صوبہ ہرات کی سرحدیں ترکمانستان اور ایران سے ملتی ہیں اسی طرح اس صوبے کو افغانستان کا مغربی دروازہ کہا جاتا ہے جس کے بیچ سے رسد کی فراہمی کے انتہائی اہم راستے گذرتے ہیں ۔ اگر معلومات ہمیں دی جائیں کہ سرحدی علاقے اور رسد کی فراہمی کے راستوں پر کن کا تسلط ہے ؟
مولوی صاحب :سرحدات کے متعلق عرض یہ ہے کہ افغانستا ن اور ایران کے وہ سرحدیں جو ہرات میں آپس میں لگتی ہیں وہ سب مکمل طور پر مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں ۔ یعنی وہاں تورغندی کے دروازے کے علاوہ اس طویل خط پرکرزئی حکومت کاکوئی کنٹرول نہیں اور اس سرحد کے حفاظتی انتظامات مجاہدین کے ہاتھ میں ہیں ۔ ایرانی سرحد کے قریبی علاقوں میں وہ میدانی علاقے جو شینڈنڈ اور گلران کے اضلاع کے قریب ہیں مجاہدین کے زیر تسلط ہیں ۔ اسلام قلعہ کے علاقے میں مجاہدین کا کنٹرول نہیں ۔
رسد کی فراہمی کے راستوں کے متعلق عرض کرتاہوں کہ یہ راستے بھی مجاہدین کے مکمل کنٹرول میں ہیں ان راستوں سے پرامن طور پر گذرنا دشمن کے لیے ممکن نہیں ۔ مزارہرات کی طویل شاہراہ جسے دشمن رسد کی فراہمی کے لیے استعمال کرتا ہے اس شاہراہ پر دشمن کی گذرنے والی کانوائے پر ہمیشہ مجاہدین کے حملے ہوتے ہیں ۔ مجاہدین چاہیں تو اس راستے کو سبزک کے علاقے میں دشمن کے لیے مستقل طور پر بند کردیں ، لیکن چونکہ اس راستے سے عوامی ٹریفک زیادہ ہے اس لیے مجاہدین صرف وقتی طور پردشمن کے قافلوں پر حملے کے وقت ان راستوں کو بند کردیتے ہیں اور کارروائی کے اختتام پر واپس کھول دیتے ہیں ۔
نمایندہ :محترم مولوی صاحب آخر میں ہرات کے عوام یا پورے افغانستان کے عوام اور مجاہدین کے نام کوئی پیغام، جسے ہم مجلے کے توسط سے ان تک پہنچائیں ۔
مولوی صاحب : جزاک اللہ ، تاریخ شاہد ہے کہ ہرات کے لوگ دین سے محبت کرنے والے ، اسلام پرست اور مجاہد واقع ہوئے ہیں ۔ اگر آپ قریبی تاریخ میں ان کی قربانیاں دیکھیں تو یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ کمیونسٹ انقلاب کے خلاف بھرپورعوامی مخالفت کی تحریک سب سے پہلے ہرات سے اٹھی تھی ۔ ہرات کے عوام نے روس کے خلاف جہاد کے بالکل آغازمیں 26ہزار شہداء پیش کیے تھے ۔ یہ ہرات کے لوگوں کے جہادی جذبے کاکھلا ثبوت ہے ۔ ابھی کچھ مدت پہلے جب بگرام بیس میں امریکیوں نے قرآن کریم کی توہین کی تھی تو ہرات کے لوگوں نے غاصب فوجوں کے خلاف سخت احتجاجی مظاہرے کیے اور ہم نے دیکھا کہ ان مظاہروں کے سلسلے میں شینڈنڈ ،ادرسکن اور مرکزی شہر میں درجنوں لوگوں نے اپنی جانیں قرآن کی حرمت پر قربان کردی تھیں۔اب بھی ہرات کے عوام سب کے سب عملاً مجاہدین کے ساتھ ہیں ۔ پورے ہرات میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ ہرات میں عام شہریوں نے مجاہدین کے خلاف کوئی ادنیٰ سا قدم بھی اٹھا یا ہو۔
اور ان لوگوں کے لیے جو عملا جہاد میں مصروف ہیں میرا اس کے علاوہ کوئی پیغام نہیں کہ وہ اپنے منتخب کردہ جہاد ی راستے پر استحکام سے چلیں ، دشمن کے پروپیگنڈے اور فکری یلغار میں نہ آئیں ۔جہاد کا جو راستہ انہوں نے منتخب کیاہے وہی دنیا میں اور آخرت میں عزت اور سربلندی کا واحد راستہ ہے ۔ دشمن کی کوشش ہے کہ ہرات کے مجاہد عوام میں نفاق کا الاو بھڑکائے ان کے اتحاد ، دینداری اور دین ووطن سے محبت کے جذبے کو ختم کردے ، لہٰذاعوام الناس کو بھی چاہیے کہ دشمن کے ان رذیل مقاصد پر نظر رکھیں اور اپنا اتحاد واتفاق برقرار رکھیں۔
اب افغانستان سے غیرملکی افواج گاہے بگاہے نکل رہی ہیں،ہم نے ہرات میں بھی ان کے کیمپوں اور چیک پوسٹوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد دیکھی ہے۔ اسی طرح افغانستا ن کے دیگر علاقوں میں بھی(دشمن کی گرفت کمزور ہونے کے) ایسے شواہد موجود ہیں ۔ افغانستان کے عوام کو بھی اس حساس مرحلے میں پوری ہوشیاری اور بلندہمتی کے ساتھ جہادی اہداف پر نظر رکھنی ہوگی ۔ مجاہدین کو چاہیے کہ اپنا مورال بلند رکھیں، تاکہ اللہ تعالی کی مدد سے اعلانیہ طور پر دشمن کا وجودبھی اس ملک سے سمٹ جائے اور یہ سرزمین ایک روشن اور خالص اسلامی نظام کے لیے ہموار ہوجائے ۔
نمایندہ :محترم مولوی صاحب !آپ نے ہمیں وقت دیا ہے ہم آ پ کے شکر گزار ہیں ۔
مولوی صاحب :آپ کا بھی بہت شکریہ کہ مجاہدین کے حال کی خبر لیتے ہیں اور عوام تک جہادی کارروائیوں سے متعلق تازہ معلومات بہم پہنچاتے ہیں، اللہ تعالی آپ کی جہادی خدمات قبول فرمائے ۔آمین