ضلع سرپل کے جہادی مسؤل ملامحمدنادر حقجو سے گفتگو‎

ملاقات وترتیب: حبیب مجاہد‎ طالب علم محمد نادر حق جو ولد مرزا رحیم ،قوم ازبک ۔ 33برس قبل صوبہ سرپل کے ضلع صیاد کے گاوں الملک میں پیداہوئے ۔ پاکستان وافغانستان کے مختلف مدارس میں پڑھتے رہے مگر ‏جہادی مصروفیات کی وجہ سے صرف درجہ سادسہ تک ہی پڑھ سکے ۔محمد نادر کا شمار ان […]

ملاقات وترتیب: حبیب مجاہد‎

طالب علم محمد نادر حق جو ولد مرزا رحیم ،قوم ازبک ۔ 33برس قبل صوبہ سرپل کے ضلع صیاد کے گاوں الملک میں پیداہوئے ۔ پاکستان وافغانستان کے مختلف مدارس میں پڑھتے رہے مگر ‏جہادی مصروفیات کی وجہ سے صرف درجہ سادسہ تک ہی پڑھ سکے ۔محمد نادر کا شمار ان باہمت اورجری مجاہدین میں ہوتا ہے جنہوں نے ملک کے شمالی صوبوں بلخ ، جوزجان ، فاریاب اور سرپل ‏میں جہادی کارروائیاں شروع کیں اور پھر اپنی بے پناہ استقامت کے ذریعے ان علاقوں کودشمن کے لیے گرم محاذ بنادیا ۔ محمد نادر حق جو جنہوں نے جوزجان، فاریاب اور سرپل کے صوبوں ‏میں مختلف کارروائیوں میں حصہ لیا، گذشتہ چار سال سے امارت اسلامی افغانستان کی جانب سے صوبہ سر پل کے گورنر کی حیثیت سے منتخب کیے گئے ہیں ،جو تاحال جاری ہے ۔ہم نے ان سے ‏علاقے کی جہادی صورتحال کے حوالے سے گفتگو کی ،جو آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔‎

سوال‎: ‎محترم حقجو صاحب !ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ، مہربانی ہوگی اگر آپ ہمیں صوبہ سرپل کے بارے میں عمومی معلومات دیں اور یہ بتائیں کہ علاقے میں جہادی کارروائیاں کیسے ‏شروع ہوئیں ۔ ‏‎

جواب‎: ‎نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد‎:

صوبہ سرپل کا شمار افغانستان کے شمالی صوبوں میں ہوتا ہے، جس کی سرحدیں جوزجان ، بلخ ، فاریاب ، سمنگان ، بامیان اور غور سے لگتی ہیں ۔اس کا رقبہ ‏‎15999‎مربع کلومیٹر ہے۔یہ صوبہ ‏صوبائی دارالحکومت (سرپل بازار ) کے علاوہ صیاد ، سید آباد ، سوزمہ قلعہ ، سنگ چارک، بلخاب، کوہستانات اور گوسفندی کے سات اضلاع پرمشتمل ہے ۔ ‏‎

سرپل میں پانچ سال قبل امریکیوں کے خلاف پہلی مرتبہ جہادی کارروائیوں کا آغاز ہوا ، ابتدا میں ہم 8افراد تھے جنہوں نے ضلع صیاد میں جہاد کاآغاز کیا۔ چونکہ دشمن کا دباؤ زیادہ تھا ‏،میدانی علاقوں اور آبادیوں میں رہنے کے لیے ہمارے پاس گذارے کی کوئی جگہ نہیں تھی ۔ اس لیے تین ماہ تک تو پہاڑوں غاروں اور بڑی چٹانوں کے نیچے رہتے۔ کبھی کبھی کارروائی کے ‏لیے انتہائی خفیہ طریقے سے نشیبی علاقوں کی طرف اتر آتے ۔ ہمارے ساتھ جوزجان ، فاریاب ، اور آس پاس کے دیگر صوبوں کے مجاہدین بھی رابطے میں ہوتے ۔ ان کے کچھ ساتھی بھی تھے ‏جو ہمارے ساتھ کارروائیوں میں حصہ لیتے ۔ ابتداء میں جہادی کارروائیاں صوبوں کے سطح پر نہ تھیں بلکہ ہم سب مل کر کارروائیاں کرتے ۔ ‏‎

کچھ مدت بعد ہم نے شہری اور آبادی والے علاقوں میں دعوتی سرگرمیوں کاآغاز کیا تب ضلع صیاد میں چارگاؤں ایسے تھے جنہوں ہماری مدد کی۔بعدمیں جب سرپل اور آس پاس کے ‏علاقوں سے بہت سے مجاہدین وہاں آئے تو ہماری تعدادبہت بڑھ گئی اور ضلع صیاد کافی حد تک ہمارے قبضے میں آگیا ۔ چار قبل اسلامی امارت کی جانب سے مجھے صوبہ سر پل کی جہادی ذمہ ‏داریاں حوالے کی گئیں ۔اس وقت ہمارے ساتھیوں کی کل تعداد 70مسلح مجاہدین پر مشتمل تھی ۔ پھر ہم نے وہاں تربیتی کیمپ بھی بنائے اور دیگر بہت سے علاقوں کی طرف اپنی کارروائیوں ‏کو وسعت دی ۔ جہاں عام لوگوں کی جانب سے انتہائی گرمجوشی اور استقبال کا سلوک کیاگیا ۔بعد میں ہم نے سرپل کے مرکز سید آباد ، سنگ چارک ، کوہستانات ، سوزمہ قلعہ اورگوسفندی میں ‏بھی اپنی تشکیلات جاری کردیں اور اب الحمد للہ ضلع بلخاب کے علاوہ سارے ہی اضلاع میں ہماری کارروائیاں جاری ہیں اور صوبے کے اکثر علاقے فتح ہوچکے ہیں۔‎

سوال‎: ‎سرپل کے موجودہ حالات کے بارے میں اگر ہمیں معلومات دی جائیں کہ وہاں مجاہدین کس حالت میں ہیں اور دشمن کس صورتحال سے دوچار ہے ؟ ‏‎

جواب‎ : ‎یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سر پل میں جہادی فتوحات کے حوالے سے موجودہ سال انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ پہلے اگر صوبے کے بعض اضلاع میں مجاہدین کو محض علامتی تسلط اور قبضہ ‏حاصل تھا تو اس سال بلخاب کے علاوہ تمام اضلاع میں مجاہدین کوانتہائی قوی تسلط حاصل ہے اوران کا جاسوسی نیٹ ورک وسیع پیمانے پرپھیل گیاہے ۔مثال کے طور پر ضلع سید آباد جو مرکز ‏کے شمال میں انتہائی قریب واقع ہے اور سرپل اور جوزجان جانے والی سڑک اس کے بیچ سے گذرتی ہے ۔ مجاہدین کاانتہائی قوی مورچہ سمجھا جاتا ہے ۔اس سڑک کے مشرق میں واقع بہت سے ‏گاؤں ہیں جوسب کے سب مجاہدین کے حلقے میں ہیں ۔یہاں تک کہ مجاہدین شہر کے دروازے تک جانے کی گنجائش رکھتے ہیں ۔اس سڑک کے مغرب میں بھی مجاہدین کا سکہ چلتاہے ۔ سرپل ‏کے مرکز کے بارے میں اگر ہم بات کریں تو مرکز کے مشرق میں واقع دو بڑے علاقے ’’شیرم‘‘ اور’’ نیمدان‘‘ جو کئی گاؤں پر مشتمل ہیں اعلانیہ طورپرمجاہدین کے حلقے میں شامل ہیں ۔ ‏شیرم اتنا وسیع علاقہ ہے کہ مجاہدین اب اسے الگ ضلع قراردینے لگے ہیں ،مرکز کے جنوب اور مغرب میں بھی بہت سے گاؤں مجاہدین کے حلقے میں ہیں ۔ مثال کے طورپر لغمان،آدرنگ ، ‏لتی اور آس پاس کے علاقوں میں مجاہدین کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ دشمن کوہر رات نئے سرے سے حفاظتی انتظامات کرنے پڑتے ہیں تا کہ مجاہدین کے متوقع حملوں سے خود کو بچاسکیں ۔ چند ماہ ‏قبل مجاہدین نے سرپل کے مرکزی جیل پر حملہ کیا اور جیل توڑکر کئی مجاہدین کو آزاد کرواکے واپس فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس سے قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مجاہدین کے لیے ‏مرکز میں بھی کس حدتک کارروائیاں کرنا ممکن ہیں ۔ ‏‎

ضلع صیاد جو مجاہدین کی انشاء کی اصل سرزمین ہے وہاں مجاہدین نے اب کسی حدتک اپنی موجودگی کو کم کردیا ہے ۔ دشمن نے وہاں اپنا دباؤبڑھادیاہے اور المانیہ کے افواج نے وہاں اپنے ٹھکانے ‏بنادیے ہیں ۔ مجاہدین نے دشمن کے چھاپوں سے بچنے کے لیے اس علاقے میں اپنی تعداد انتہائی کم کردی ہے اور اس کے بدلے دیگر علاقوں میں اپنی کارروائیوں پر سارازور لگادیا ہے،اب ‏بھی صیاد میں مجاہدین کی کافی تعداد موجود ہے جو آئے دن دشمن پر حملے کرتی رہتی ہے۔ ‏‎

کوہستانات کا علاقہ جو رقبے کے لحاظ سے انتہائی وسیع ہے اورچار حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے ۔ پوگان ، چکن اور چراس اس کے وہ تین حصے ہیں جہاں علانیہ مجاہدین کا سکہ رائج ہے ،وہاں دشمن کا ‏کوئی اثر ونفوذ نہیں صرف ’’استراب ‏‎‘‘‎کے نام سے موسوم ایک حصہ ایسا ہے جہاں ضلعے کا مرکز ہے وہاں محض علامتی طور پردشمن کا تسلط ہے۔ یہاں بھی مجاہدین موجود ہیں اور دشمن کواس ‏بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ آزادانہ نقل وحرکت یا حکومت کرسکیں ۔ ‏‎

سوزمہ قلعہ ، گوسفندی اورسنگ چارک کے اضلاع میں الحمد للہ اس سال مجاہدین کو بہت اہم کامیابیاں ملی ہیں ۔ان علاقوں میں کارروائیوں کی قابل توجہ حد تک توسیع اور عوامی تعاون کا ‏حصول مجاہدین کی اس سال کی انتہائی اہم کامیابیاں ہیں ۔ یہ تین اضلاع اس صوبے کے سب سے زیادہ آبادی والے اضلاع ہیں جس کے اکثر علاقے باغوں پر مشتمل ہیں ۔ان اضلاع میں ‏دسیوں گاؤں مجاہدین کے حلق�ۂ اقتدار میں ہیں اور یہاں کے سبھی لوگ مجاہدین کے حامی ہیں ۔ ‏‎

گوسفندی کا ضلع وہ علاقہ ہے جو صوبہ بلخ سے ملتاہے علانیہ طورپرمجاہدین کے قلمرو میں ہے ۔ سوزمہ قلعہ کے گاؤں میں ایک واضح کامیابی دشمن کے ایک کمانڈر…..جس کانام شہزادہ تھا….کی ‏ہلاکت ہے جو کچھ عرصہ پہلے مجاہدین کے حملوں میں قتل ہوگیا۔ صرف بلخاب کا علاقہ ایسا ہے جہاں ہماری تشکیلات نہیں ہیں اس کی وجہ بھی محض عوامی تعاون نہ ہونے کی وجہ سے ہے ‏۔بلخاب کے لوگ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ،پہلے ان کاتعلق حزب وحدت سے رہاہے ۔ جس طرح پورے افغانستان میں صرف بامیان اور دایکندی میں جہادی کارروائیاں کمزور ہیں ‏اسی طرح بلخاب میں بھی ہم نے اب تک کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے ۔‎

سوال‎ : ‎دشمن پروپیگنڈا کررہاہے کہ اس نے سرپل میں ہزاروں لوگوں میں اسلحہ تقسیم کیا ہے اور اربکیوں کے نام سے وہاں لوگوں کو مسلح کردیا ہے ۔اس خبر کی حقیقت کیا ہے؟‎

جواب‎ : ‎سرپل کے چند محدود علاقوں میں واقعتا دشمن نے اسلحہ تقسیم کیا ہے اور اپنے زعم میں انہوں نے واقعتا اربکیوں کی خدمات لی ہیں لیکن ان کے اس اقدام سے ہمارے کاموں پر کوئی ‏اثرنہیں پڑا ہے ۔ آپ جانتے ہیں سرپل کے لوگ عام طور پر انتہائی دیندار اور مذہبی ہیں جنہوں نے گذشتہ چند سالوں سے مجاہدین کے لیے انتہائی اہم قربانیاں دی ہیں ۔ بعد کے حالات میں ‏جب دشمن نے وہاں کے پرانے چوروں ، ڈاکوؤں اوربدمعاشوں کو مسلح کرکے اربکی بنانے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے وہاں کے عوام پر سخت مظالم ڈھائے ۔ ان حالات میں عام لوگوں نے ‏مجاہدین کی طرف رجوع کیاجو ابتداء ہی سے مجاہدین کے انتہائی مخلص چلے آئے ہیں ۔ انہوں نے مجاہدین سے کہا کہ یہ چند لوگ ہیں جن کودشمن نے مسلح کردیا ہے، اگرچہ تعداد میں کم ہیں مگر ‏جب یہ لوگ مسلح ہوگئے ہیں تو علاقے میں عوام پر مظالم ڈھارہے ہیں اورعلاقے میں ان کا اثرورسوخ بڑھ رہاہے ۔ جب یہ لوگ مقامی لوگوں سے مقابلے پر اتر آئے ہیں توہم عوام بھی دشمن ‏سے اسلحہ لے لیتے ہیں۔ اسلیے نہیں کہ خدا نہ خواستہ ہم اس سے دشمن کے لیے رکاوٹیں کھڑی کردیں بلکہ اس لیے تاکہ ان ظالموں کے ظلم سے نجات حاصل کرسکیں ۔ ‏‎

تب سرپل کے کچھ علاقوں میں لوگوں نے دشمن سے اسلحے وصول کیے ،اس لیے دشمن نے بھی اعلان کردیا کہ ہم نے سینکڑوں اربکی بنالیے ہیں ۔ لیکن اس اقدام نے دشمن کو فائدہ کی بجائے ‏نقصان پہنچایا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اب تک مجاہدین کے لیے کہیں پررکاوٹ بن کر کھڑے نہیں ہوئے ۔ بلکہ مجاہدین کے ساتھ پہلے کی طرح بھر پور تعاون کررہے ہیں ۔انہوں نے ‏حکومت کویہ باور کرایاہے کہ ہم اربکی ہیں مگر درحقیقت یہ ان ڈاکوؤں اور بدمعاشوں سے اپنی حفاظت کے لیے مسلح ہوئے ہیں اورمجاہدین کے ساتھ حسب سابق محبت اور تعلق رکھتے ہیں ۔ ‏‎

ضلع صیاد میں اور مرکزکے جنوبی علاقوں میں جو اربکی لوگ ہیں مجاہدین کے پورے ہمراز ہیں جب بھی دشمن اس علاقے میں داخل ہوتاہے تو یہ لوگ اس سے قبل ہی مجاہدین کو خبر دار ‏کردیتے ہیں ،اسی طرح ہمارے دس فیصد مجاہدین ایسے ہیں جو دشمن کے اسلحہ سے دشمن سے لڑ رہے ہیں ۔کچھ مجاہدین نے خود دشمن سے اسلحہ وصول کیا ہے اور بعضوں کے رشتہ داروں نے ‏وصول کرکے انہیں اسلحہ پہنچایا ہے ۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں اسلحہ تقسیم کرنے سے مجاہدین کو کوئی نقصان نہیں ہواہے ۔ بلکہ بہت سے مواقع پر تو اس سے ہمیں تعاون ملا ہے ۔‎

سوال‎ : ‎سرپل میں ایک اوراہم اور قابل توجہ موضوع حال ہی میں سکول کی بچیوں کو بے ہوش کرنے کے واقعات ہیں ۔ جس کا الزام دشمن نے طالبان پر ڈالدیا ہے ۔ اس واقعے کے متعلق ‏اگر کچھ معلومات دی جائیں تو بہتر ہوگا۔ ‏‎

جواب‎ : ‎رواں سال کے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں سرپل کے تین مختلف سکولوں کی بچیوں اور ٹیچرز کو بے ہوش کرنے کے واقعات پے درپے سامنے آئے ۔ یہ واقعات دشمن کی ‏جانب سے سکولوں کی طالبات کو بے ہوش کرنے کے سلسلے کی کڑیاں ہیں ، جو ملک کے مختلف علاقوں میں دشمن کی جانب سے پیش آئے ۔ اس واقعے کے متعلق اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ بے ‏غیرت اور بے حیا دشمن کی چالیں ہیں تاکہ اس طرح کے واقعات اوراس کاالزام مجاہدین پرلگاکر مجاہدین کو بدنام کریں ۔ میں اس سے قبل بتا چکاہوں کہ سر پل کے مرکز میں مجاہدین بہت ‏طاقتور ہیں اور مجاہدین کا نفوذ ان علاقوں میں بڑھ رہاہے ۔ یہاں تک کہ دشمن وہاں محاصرے کی حالت میں ہے ،مرکز کے رہنے والے عوام مجاہدین سے بہت محبت رکھتے ہیں ، دشمن فوجی ‏حوالے سے مجاہدین کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوگیا ہے ۔ اس لیے اب کی بار اس نے کوشش کی کہ بچیوں پرگیس پھینک کر اور پھر اس کاالزام مجاہدین پر لگاکر مجاہدین اور لوگوں کے درمیان ‏فاصلے پیداکرے اور اسی ہدف کے حصول کے لیے دشمن نے اس سے قبل بہت سے علاقوں میں تعلیمی اداروں ، کلینکوں اور دوسرے عوامی رفاہی اداروں کو بموں سے بھی اڑایا تھا ۔دشمن ‏نے تین دن پے درپے شہر میں بچوں کے سکولوں پر گیس پھینکا اور سینکڑوں بچیوں کو بے ہوش کردیا ۔ اس پر بس نہیں بلکہ ان کے سیکیورٹی اہلکاروں نے بچیوں کی ہسپتال منتقلی اور وہاں ‏داخلے کے وقت کئی بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا ۔ اس طرح کے واقعات کے بارے میں خود اس علاقے کے لوگوں نے فون کرکے ہم سے شکایت کی اوران کے مظالم بیان کیے ۔ ‏‎

دشمن کے اس ظالمانہ اقدام کے بعد عوام کے سامنے پوری طرح واضح ہوگیاکہ اس قسم کے جرائم صرف اور صرف فسادی حکومت ،سیکیورٹی اور جاسوسی اداروں کے اہلکار کرسکتے ہیں ۔ اس ‏لیے اس واقعے سے لوگوں میں حکومت کے خلاف جذبہ منافرت اور بڑھ گیا ہے، اس اقدام کو دشمن مجاہدین کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتاتھا مگر وہ خود دشمن کے لیے ‏رسوائی کا باعث بن گیا ، اور اس سے لوگوں میں مزید اشتعال پھیل گیاہے ۔ اس واقعے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتاہوں کہ پورے ملک میں افغان مومن عوام مکار دشمن کی چالوں کی ‏طرف متوجہ رہیں ۔ دشمن اکثر یا تو ملکی لوگوں کے درمیان دھماکے کرتے ہیں یا تعلیمی اوردیگر ملکی اداروں کو تباہ کردیتے ہیں اور یا بچیوں پر گیس پھینک کر انہیں بے ہوش کردیتے ہیں ۔ اور ‏پھر ان سب کانقصان میڈیا کے زور پر مجاہدین کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔ عوام کو چاہیے کہ اس طرح کے واقعات کے اصل محرکین کو پہچانیں اور مجاہدین سے تعاون کرتے ہوئے ان کو ‏ان کے کیے کی سزا دیں ۔ ‏‎

سوال: محترم حق جو صاحب! آپ کی معلومات انتہائی مفید اور دلچسپ ہیں مگر انتہائی افسوس ہے کہ ہمارے مجلے کے صفحات انتہائی محدود ہیں اس لیے چاہتاہوں کہ اپنے سوالات کا سلسلہ مختصر ‏کردوں ۔ آخر میں آپ مذکورہ بالاموضوعات کے بارے میں مزید کچھ اضافی معلومات دیں تو مہربانی ہوگی ۔‎

جواب :شکریہ بھائی ، خلاصہ کلام کے طور پر کہتاہوں کہ الحمد للہ صوبہ سرپل عام لوگوں اور مجاہدین کی قربانیوں کی برکت سے اب یہ علاقہ ایک مضبوط مورچہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں کے ‏عوام مجاہدین سے انتہائی ہمدردی رکھتے ہیں،مجاہدین کوعوام کی حمایت کی بدولت ہر طرف سے رسد وتعاون ملتارہتا ہے ،عمومی طور پر جہادی حالات اب ماضی کے بہ نسبت بہت اچھے ہیں ۔ ‏مجاہدین کے نقصانات بہت کم ہیں ،دشمن کو پے در پے انتہائی سخت نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ ملکی سطح پر جاری ہمارے پروگرام بھی انتہائی کامیابی سے جاری ہیں ۔‎

سرپل کے سارے ہی شہروں اور دیہاتوں میں عصری ودینی تعلیمی ادارے پوری طرح فعال ہیں ۔ ہرضلع کے مدارس کے لیے ہمارے پاس ادارت کا شعبہ ہے ۔ یہاں تک کہ کوہستانات کے ‏وہ دور داراز کے خود مختار علاقے جہاں اکثر حکومت کے اختیارات بھی نہیں چلتے ۔ اسلامی امارت نے وہاں حال ہی میں تعلیمی ادارے فعال کردیے ہیں اور لوگوں کی دینی رہنمائی کا آغاز کردیا ‏ہے ۔ خالص جہاد ، صداقت ، اخلاص ، ایثار اور عام خیر خواہی کی بر کت سے سرپل کے تمام لوگوں کے دل مجاہدین کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے پرانے سارے ہی تعلقات ختم ‏کردیے ہیں اور صرف مجاہدین کے لیے اب انہو ں نے دیدہ ودل وا کیے ہوئے ہیں ۔ عوام کی اس حمایت کے بدلے اسلامی امارت اور سارے مجاہدین بھی عوام کی قدردانی کریں ۔ بڑی سطح ‏پرایسے پروگراموں کا آغاز کیا جائے جوعوام کی خیر خواہی ، سہولت ، آرام اور مزید اعتماد کے بڑھنے کا ذریعہ بنے ۔ اسی طرح بچوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے ۔ ‏‎