طےشدہ معاہدہ کی رو سےہمیں جنگ بندی تک  پہنچنا چاہیے

ہفتہ وار تبصرہ درحالیکہ امریکا اور کابل حکام دوحہ میں طےشدہ معاہدے سے مسلسل خلاف ورزیاں کررہی ہیں، فضائی حملوں اور رات کے چھاپوں میں روزانہ عام شہریوں کو  زندگی سے محروم کرہے ہیں۔ دوسری جانب قیدیوں کے تبادلے کا موضوع بھی کابل حکام کی جانب سے رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور جیلوں میں ہزاروں […]

ہفتہ وار تبصرہ

درحالیکہ امریکا اور کابل حکام دوحہ میں طےشدہ معاہدے سے مسلسل خلاف ورزیاں کررہی ہیں، فضائی حملوں اور رات کے چھاپوں میں روزانہ عام شہریوں کو  زندگی سے محروم کرہے ہیں۔ دوسری جانب قیدیوں کے تبادلے کا موضوع بھی کابل حکام کی جانب سے رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور جیلوں میں ہزاروں قیدیوں کو  #کورونا وائرس کا خطرہ ہے اور معاہدے کی رو سے تمام قیدی رہا ہوجاتے،اب تک رہا نہیں ہوئے ہیں۔ کابل حکام اصل اور بنیادی مسائل سے عوام کے توجہ ہٹانے کی خاطر مسلسل طور پر ایسے مطالبات کررہے ہیں، جو معاہدے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

اشرف کئی بار مسلسل امارت اسلامیہ سے جنگ بندی کا مطالبہ کررہا ہے۔ مگر عین حال میں موصوف اس معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ ہے،جس کی رو سے فریقین جارحیت کے خاتمہ، بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور آخرکار جنگ بندی اور مسئلے کی بنیادی حل تک پہنچ جاسکے۔

دوحہ میں ہونے والے معاہدے  میں جنگ بندی کا ذکر نہیں ہے،مگر زمانے کے لحاظ سے معاہدے کے آخری مرحلے میں سمجھوتے کی رو سے پہلے بیرونی افواج کا انخلا اور قیدیوں کا تبادلہ سرانجام ہوجائے، تاکہ بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہوجائے۔ بین الافغان مذاکرات میں جنگ بندی ایک موضوع ہوگا، جسے معاہدے کے بعد عملی ہونا چاہیے۔

جیسا کہ امارت اسلامیہ نے ماضی میں کہا تھا ،ایک بارپھر اس بات پر اصرار کررہی ہے کہ ہم صرف اس  چیز پر عمل کرنے پر پابند ہے،جس پر معاہدے  میں دستخط ہوا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ حل کی واحد راہ یہی ہے کہ معاہدہ مقررہ وقت پر قدم بہ قدم نافذ اور عملی ہوجائے۔ مخالف فریق کو بھی یہی بتلاتے ہیں کہ نامعقول اور قبل از وقت مطالبات کے بجائے معاہدے کو عملی جامہ پہنانے پر فوقیت دے اور اس ضمن میں غیر ضروری تعلل اور تاخیر سے گریز کریں۔

اشرف غنی اور کابل انتظامیہ کے حکام ایسا دکھا رہا ہے کہ جیسا کہ لڑائی ایک فریق کی جانب سے جاری ہے۔ وہ صرف امارت اسلامیہ  کے سامنے مطالبات رکھتے ہیں اور جنگ کو ختم کرنے کو امارت اسلامیہ کی یکطرفہ ذمہ داری سمجھتی ہے، دریں حال کہ کابل انتظامیہ نے مسلسل طور پر فضائی حملوں اور زمینی کاروائیوں کو جاری رکھے ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں چند بےانصاف ابلاغی ذرائع اور سیاسی اشخاص بھی ایک ہی جانب کو متوجہ ہے۔ انہوں نے یہ فراموش کردیا ہےکہ دوحہ میں دستخط ہونے والے معاہدے کی رو سے افغان تنازعہ کے سیاسی حل راہ کے نقشہ کو متعین کیا گیا ہے۔ جس کے افغان سیاسی حلقوں نے استقبال کیا اور خطے و عالمی برادری نے بھی اس کی حمایت کااعلان کیا، حتی کہ اقوام متحدہ نے کی جانب سے تصدیق ہوئی ہے۔

اب چونکہ کابل انتظامیہ کے حکام اس منظورشدہ معاہدہ کو نظر انداز کر رہا ہے، اس پر عمل درآمد کے لیے شش و پنج میں مبتلا ہیں اور اس کے علاوہ ان کے غیرمعمولی مطالبات ہیں،یہ ان کا مسئلہ ہے کہ امارت اسلامیہ کو مورد الزام ٹہرایا جاسکے۔