عالمی مستکبرین ثالث عمر کی عدالت میں!

تحریر:عبدالرحیم ثاقب سن 2001، کے اگست کا مہینہ تھا جب دارالحکومت کابل میں طالبان نے شلٹرن این جی او کے 24 اہلکاروں کو عیسائیت کی تبلیغ کے جرم میں گرفتار کیاـ یہ گرفتار شدہ تبشیری اہلکار کابل شہر کے نادار اور غریب لوگوں کی ناداری اور بے روزگاری سے استفادہ کرکے انہیں تحریف شدہ مسیحیت […]

تحریر:عبدالرحیم ثاقب

سن 2001، کے اگست کا مہینہ تھا جب دارالحکومت کابل میں طالبان نے شلٹرن این جی او کے 24 اہلکاروں کو عیسائیت کی تبلیغ کے جرم میں گرفتار کیاـ یہ گرفتار شدہ تبشیری اہلکار کابل شہر کے نادار اور غریب لوگوں کی ناداری اور بے روزگاری سے استفادہ کرکے انہیں تحریف شدہ مسیحیت کی دعوت دیتے تھےـ اور ان ہی میں مسیحیت کی کتابیں تقسیم کرتے تھےـ
گرفتار افراد میں 8 افراد بيرونى اور 16 افغان تھےـ
ان آٹھ بیرونی افراد میں پھر دو امریکی، دو آسٹریلوی اور چار جرمن کے باشندے تھےـ
انہیں گرفتار کرتے وقت بڑی تعداد میں پشتو اور فارسی ترجمہ شدہ اناجیل، سی ڈیز اور منسوخ عیسائی دین کی دیگر مذہبی کتابیں برآمد کی گئیں ـ
گرفتار شدہ تمام افراد گرفتاری کے ساتھ ہی اس خصوصی جگہ پر منتقل کئے گئے جہاں ان کے جرم کی تفتیش وتحقیق کی جارہی تھی ـ
مطلوبہ تفتیش کے بعد ان سب کو عدالتِ عالیہ میں دینِ مسیحی کے نشر واشاعت کے مجرمین کے طور پر پیش کیا گیاـ
ان افراد کی تحقیق اور تفتیش کا مرحلہ بذاتِ خود امیرالمؤمنین ملامحمدعمر مجاہد رحمہ اللہ کی مضبوط نگرانی میں آگے بڑھایا جارہا تھاـ
شاید یہ اپنی نوعیت کا دنیا بھر میں ایک بے مثال حادثہ تھا کہ جس میں امریکا کی طرح مغرور اور سپرپاور طاقت کے باشندے ،افغانستان جیسی لاچار اور کمزور ریاست میں خود سری کے جرم میں عدالت کی میز پر پیش کئے جارہے تھےـ
حالانکہ باقی دنیا میں ان مغرور ممالک کے افراد کی ہر طرح کی حرکات کو کوئی خودسری تک کا نام نہیں دے سکتاـ
اس کیس کی نوعیت میں دو نقطے بہت ہی زیادہ قابلِ غور ہیں: ایک تو یہ کہ گرفتار افراد امریکا سمیت ایسے طاقتور ممالک کے باشندے تھے جن کے ساتھ کمزور افغانستان کا اقتصادی،تکنیکی، فوجی الغرض کسی طرح سے تقابل نہیں کیا جاسکتا ـ
اور دوسرا یہ کہ گرفتار افراد افغانستان کے داخلی قوانین کی خلاف ورزی کے مجرم تو تھے ہی ،مذہبی حوالہ سے بھی ایسے جرم کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا جس کی پاداش میں وہ سخت ترین سزا کے مستحق ٹھرچکے تھےـ
مگر وقت کے بہادر، شیردل اور منصف شرعی امیر (ثالث عمر) ان طاقتور ممالک کی طاقت سے مرعوب ہوئے کہ ان افراد کے جرائم سے صرف نظر کرے اور نہ ہی ان افراد کے غیر مسلم ہونے کی بناء پر کوئی ایسا امتیازی رویہ رکھا جس میں حدود سے تجاوز ہوـ اور حد سے زیادہ سزا ملےـ
بلکہ اس عادل امیر نے ان کا کیس امارتِ اسلامیہ کی عدالتِ عالیہ کو حوالہ کردیا اور ہدایت کردی کہ امریکا کی طاقت،دھونس دھمکی سے مرعوب نہیں ہونا،اسی طرح ان کے غیرمسلم ہونے کی وجہ سے انہیں امتیازی سزا دینے سے بھی باز رہنا،اس کے مقابل میں افغانستان کے شرعی قوانین جس طرح فیصلہ کے مجاز ہیں اسی طرح فیصلہ کرناـ
چنانچہ اس بنیاد پر ان گرفتار افراد کو عدالتی اور قضائی بنیادوں پر اجازت دی گئی کہ وہ اپنے کیس لڑنے کے لئے “عاطف علی” نامی وکیل مقرر کرلے اور ان کا کیس کھلے عام چلایا جائےـ
ان افراد کی گرفتاری کے دوران نائن الیون کا ہولناک حادثہ رونما ہوا جس کی وجہ سے امارتِ اسلامیہ پہلے سے بھی زیادہ امریکا کے حملوں کی زد میں آگئی ـ اور امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی طرف سے گرفتار افراد کی رہائی کا مطالبہ شدت سے لحظہ بہ لحظہ سامنے آرہا تھاـ
مگر ثالث عمر رحمہ اللہ پھر بھی امریکا اور مغرب کی کسی دھمکی کو خاطر میں لائے اور نہ ہی پروا کی ـ بلکہ معمول کے مطابق ان کے کیس کو جاری رکھاـ
ایوان ریڈلی جو مشہور انگریز صحافی خاتون ہے اور اس وقت افغانستان میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے کے الزام میں روکی گئی تھی ـ اس کا کہنا ہے کہ افغانستان پر امریکی حملہ سے قبل میں آٹھ دیگر قیدیوں سمیت طالبان کی زیر حراست تھی ـ ہم یہ فکر کرتے تھے کہ طالبان ہمیں امریکی حملوں سے بچنے کے لئے بطور ڈھال استعمال کریں گےـ اور ہمیں جنگ کے خط اول میں بسائیں گے جو کہ بمباری کا پہلا ہدف ہوا کرتا ہےـ
مگر انہوں نے کبھی بھی اس طرح نہیں کیاـ میں ایک ایسے وقت میں جبکہ افغانستان سخت امریکی حملوں کا سامنا کررہا تھا طالبان کے سربراہ کے حکم پر رہاہوئی اور دیگر قیدیوں کے ساتھ بھی طالبان بھرپور انسانی ہمدردی سے پیش آتے تھےـ
ایوان ریڈلی جو اِس وقت یورپ کی سطح پر سب سے زیادہ مشہور اسلام کی داعی خاتون ہے اسلام سے شرفیابی کی وجہ بھی ثالث عمر رحمہ اللہ کا نیک رویہ اور بہترین انسانی تعامل بتاتی ہےـ اور اس بات پر فخر کرتی ہے کہ اسے چند دن ثالث عمر کے اہلکاروں کی قید میں گزارنے کو ملے جو کہ ایک اعزاز ہے اور متمدن امریکا کی بدنامِ زمانہ جیل کی ذلت کی طرح ہرگز نہیں ہےـ