فوجی انخلا اور خدشات

تحریر: سیف العادل احرار اللہ کی شان دیکھئے، بیس برس قبل بش افغانستان پر جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے دلائل ڈھونڈ رہے تھے اور اب بیس برس بعد جوبائیڈن فوجی انخلا اور باعزت واپسی کے لئے دلائل تراشنے کی کوشش کررہے ہیں، 2001 میں بش، رمز فیلڈ اور کولن پاول نے اپنی […]

تحریر: سیف العادل احرار

اللہ کی شان دیکھئے، بیس برس قبل بش افغانستان پر جارحیت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے دلائل ڈھونڈ رہے تھے اور اب بیس برس بعد جوبائیڈن فوجی انخلا اور باعزت واپسی کے لئے دلائل تراشنے کی کوشش کررہے ہیں، 2001 میں بش، رمز فیلڈ اور کولن پاول نے اپنی قوم اور دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گائیں موجود ہیں انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے فوجی مداخلت ناگزیر ہے لیکن اب 2021 میں جوبائیڈن، بلینکن اور آسٹین فوجی انخلا کے لئے اپنی قوم اور دنیا کو اعتماد میں لینے کی کوشش کررہے ہیں اور برملا اعتراف کررہے ہیں کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔
کابل حکام کی ایک لابی امریکی صدارتی الیکشن سے قبل سرگرم عمل تھی اور جوبائیڈن کے قریبی حلقوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی تھی کہ دوحہ معاہدہ امریکہ اور افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے، ٹرمپ نے جس بنیاد پر امارت اسلامیہ کے ساتھ دوحہ معاہدہ کیا تھا وہ امریکہ کی ساکھ کے لئے نقصان دہ ہے، انہوں نے امارت اسلامیہ کو ان کی حیثیت سے بڑھ کر مراعات دیئے ہیں جس پر نہ صرف نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس کو منسوخ کرنا ہی بہتر ہے۔
جب جوبائیڈن نے امریکی صدارتی الیکشن کا معرکہ سر کیا تو کابل حکام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اب نئی انتظامیہ دوحہ معاہدے پر نظرثانی کرے گی، جب بائیڈن نے اس پر نظرثانی کرنے کا اعلان کیا تو ان کی خوشی دوبالا ہوگئی اور یہ خواب دیکھنے لگے کہ وہ دوحہ معاہدہ منسوخ کرنے کا اعلان کریں گے لیکن تین ماہ گزرنے کے بعد جب 14 اپریل کو جوبائیڈن نے غیر ملکی افواج کے انخلا کا اعلان کیا تو ان کو ہلا کر رکھ دیا، یہ اعلان نہیں تھا بلکہ بم بن کر ان پر آ گرا، اس اعلان سے ان کے اوسطان خطا ہوگئے اور اتنے حواس باختہ ہوگئے کہ ایک بار اشرف غنی نے مضحکہ خیز دعوی کیا کہ جوبائیڈن نے ہماری اپیل پر فوجی انخلا کا اعلان کیا، اس میں طالبان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
یکم مئی سے فوجی انخلا کا عمل شروع ہوا جو گیارہ ستمبر تک مکمل ہوجائے گا، اب ہر طرف سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ اگر کابل حکومت اور امارت اسلامیہ کے درمیان سیاسی تصفیہ نہیں ہوا تو اس ملک کا مستقبل کیا بنے گا، کیا افغان فورسز غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد ممکنہ پریشان کن صورتحال پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ کابل حکام اور عالمی برادری کو یہ تشویش تو بہت ہے کہ غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد صورتحال کیا ہوسکتی ہے، کابل انتظامیہ کے حامی لوگ اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ فوجی انخلا کے بعد طالبان بزور طاقت ملک پر قبضہ کریں گے، افغان فورسز اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، ظاہر ہے کہ جب افغان فورسز اہم شہروں سے پسپائی اختیار کرے گی تو ان کا شیرازہ بکھر جائے گا، اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے کابل حکومت نے شمالی صوبوں میں مختلف جنگجو کمانڈروں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے، انہیں چند ممالک کی حمایت حاصل ہے، افغان فورسز کی شکست کے بعد سابقہ جنگجو کمانڈروں کو امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے مقابلے کے لئے میدان کارزار میں اتارے جائیں گے، اس حوالے سے حزب اسلامی کے سربراہ گل بدین حکمت یار نے بھی کہا تھا کہ کابل حکومت نے 70 ہزار سے زائد جنگجووں کو مسلح کیا ہے، یہ کابل حکام کی غلط حکمت عملی ہے، ان بدنام زمانہ عناصر کو حکومتی سرپرستی میں مسلح کرنے سے ماضی کی طرح بدامنی، خانہ جنگی اور گروہ بندیوں کی کشمکش کا راج ہو جائے گا جو کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
مغرب نواز لوگ کو یہ خدشہ بھی ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کی واپسی کے بعد طاقت کا توازن امارت اسلامیہ کے پلڑے میں آجائے گا اور گزشتہ بیس برس کے دوران خواتین کے حقوق، انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی، جمہوری نظام کے قیام اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے جو پیشرفت ہوئی تھی، وہ ختم ہوجائے گی اور ہم واپس نوے کی دہائی کی طرف لوٹ جائیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں فوجی بھیجنے کا فیصلہ خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر نہیں کیا تھا اور نہ ہی امریکہ کو اس سے سروکار ہے، کیونکہ عرب ممالک میں جمہوریت ہے اور نہ ہی خواتین کے حقوق اور میڈیا کی آزادی ہے لیکن سعودی عرب سمیت اکثر ممالک امریکی دوستی کی کیمپ میں کھڑے ہیں اور ان کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات قائم ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد کے لئے خواتین کے حقوق اور جمہوریت کا واویلا کرتا ہے، ورنہ حقیقت بلکل برعکس ہے۔
ادھر امریکی جوائنٹ چیفس کے چئیرمین جنرل مارک ملی نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد طالبان کی جانب سے افغانستان میں پھر سے پہلے جیسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں یا ممکنہ نتائج کسی بھی نوعیت کے ہوسکتے ہیں جن میں افغان حکومت کا خاتمہ، خانہ جنگی اور انسانیت سوز تباہی شامل ہیں۔
امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینتھ میک کینزی نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان فورسز ملک پر کنٹرول برقرار رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، انہوں نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران کہا کہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس وقت زمین پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی افغان فوج کی قابلیت کس حد تک ہے، انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔
نیویارک ٹائمز نے بھی ایک تفصیلی رپورٹ جاری ہے کہ غیر ملکی افواج کے بغیر افغان فورسز کتنے عرصے تک اپنا ڈھانچہ برقرار رکھ سکیں گی؟ اس رپورٹ میں کچھ مستند حوالے دیئے گئے ہیں کہ افغان فورسز میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کے بغیر طالبان کا مقابلہ کرسکیں گی، افغان فورسز کو جنگی وسائل کی قلت اور مورال بگڑنے جیسے مسائل درپیش ہیں، طالبان نے مختلف صوبوں میں افغان فورسز کے اہم فوجی اڈوں کا گھیراو کر رکھا ہے، ان کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے، محتاط اندازے کے مطابق ہر ماہ 287 اہل کار ہلاک اور 185 زخمی ہوجاتے ہیں، فوج میں بھرتی کا عمل مایوس کن ہے، پہلے ہر ماہ کے دوران تین ہزار نوجوان فوج میں بھرتی ہوتے تھے اب پانچ سو نوجوان بھی بھرتی نہیں ہوتے ہیں۔
امریکی افواج کے انخلا کے اعلان سے کابل حکام کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوا اور افغان فورسز میں خوف و ہراس پھیل گیا، اس لئے وہ جوق در جوق مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں، ملک کے مختلف صوبوں میں گزشتہ چند روز کے دوران سینکڑوں اہل کار سرنڈر ہوئے اور یہ سلسلہ شدت سے جاری ہے۔
کیا امریکی فوجی انخلا کے بعد افغان فورسز طالبان کا مقابلہ کرنے کی صاحیت رکھتی ہیں؟ اس سوال پر دفاعی تجزیہ کار نفی میں جواب دیتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ فوجی انخلا کے اعلان کے بعد صورتحال افغان فورسز کے لئے انتہائی گھمبیر ہوچکی ہے، کابل میں کھلبلی مچ گئی ہے، بڑی تعداد میں افغان اہل کار امارت اسلامیہ میں شامل ہورہے ہیں۔
امریکہ سمیت دنیا کو بیس سال جنگ کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے، اس کا مطلب ہے کہ طالبان کو عسکری طاقت سے کچلنے کی پالیسی غلط تھی، مجاہدین نے اللہ تعالی کی مدد، افغان عوام کی حمایت اور باہمی اتحاد کے ذریعے امریکہ سمیت نیٹو افواج کو شکست دے دی اور انہیں اس حقیقت پر مجبور کیا کہ افغان تنازع کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں، یہ اپنی شکست کا اعتراف ہے۔
چار فریقی اجلاس میں اعلان کیا گیا کہ ہم افغانستان میں امارت اسلامیہ کی حکومت دوبارہ قبول نہیں کریں گے، ہم افغانستان میں بزور طاقت کسی بھی حکومت کی حمایت نہیں کریں گے، اس کا مطلب ہے کہ انہیں بھی یقین ہے کہ طالبان ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نام نہاد افغان آرمی کا شیرازہ امریکی فضائیہ کی مدد کے بغیر بکھر جائے گا، یہ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ان کی بیس سالہ محنت اور قربانیاں ضائع ہوگئیں، اس مدت میں جتنے ملکی اور غیر ملکی فوجی ہلاک ہوئے یا کھربوں ڈالر خرچ کئے گئے تھے، ان کے نتائج اور اثرات دیرپا ثابت نہیں ہوئے۔