فکری جنگ کے اصول، اہمیت اور ضرورت

فکری جنگ کے اصول، اہمیت اور ضرورت تحریر: مولوی شمس الرحمان منصور اگر موجودہ زمانے میں فکری جنگ کے اسالیب اور طریقہ کار پر غور کیا جائےتو وہ بالکل ماضی میں لڑی گئی جنگوں کی طرح ہے۔ وہی لہجہ اور وہی اصطلاحات اس میں استعمال ہورہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل کی […]

فکری جنگ کے اصول، اہمیت اور ضرورت

تحریر: مولوی شمس الرحمان منصور

اگر موجودہ زمانے میں فکری جنگ کے اسالیب اور طریقہ کار پر غور کیا جائےتو وہ بالکل ماضی میں لڑی گئی جنگوں کی طرح ہے۔ وہی لہجہ اور وہی اصطلاحات اس میں استعمال ہورہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل کی بعثت کے بعد باطل قوتوں نے اسلام کے خلاف لڑی تھی۔ آج بھی باطل اور اسلام دشمن قوتوں کی یہی کوشش رہتی ہے کہ اسلام کے چراغ کو گل کیا جائے، جس طرح ابتدائے اسلام میں کفار مکہ نے یہی کوشش کی تھی اور اپنی پوری توانائی صرف کرکے اسلام کے چراغ کو گل کرنے کی کوشش کی تھی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بالعموم اور امریکا و یورپ میں بالخصوص فکری جنگ کی وسعت اور اسے قوی تر بنانے پر کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد ہورہی ہیں۔ ان کانفرنسوں میں ایک طرف اپنی سازشوں کو عملی بنانے جب کہ دوسری جانب مسلمانوں میں اسلام کے خلاف تشکیک کی مہم تیز کرنے کے حوالے سے وسیع تر مشاورت ہوتی ہے۔ آج کی کفری دنیا بھی کفار مکہ کی طرح اسلام کے خلاف فاسد تاویلات کرتی رہتی ہے، اسلام کے خلاف جھوٹی کہانیاں گھڑ کر پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جاہل اور پس ماندہ ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ دینی اقداراور قومی روایات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کے حقیقی علم برداران، ترجمان، مخلص قائدین اور جہادی و سیاسی زعما کو توہین آمیز القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مخلص قیادت کے کردار اور کارناموں کو دھول تلے دبا لینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں تنگ نظری اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔ میڈیا میں ان کا استہزا کیا جاتا ہے، جب کہ اس عمل کو آزادی اظہار رائے کا نام دیتے ہیں۔ اسلامی معاشرے اور اسلامی ممالک میں دین اسلام کے سچے پیروکاروں کے کردار کو مجروح کرنے کے لیے مختلف عنوانوں سے مختلف حربے استعمال کیا جارہا ہے۔ نوجوانوں میں فحاشی و عریانی کو فروغ دے کر اسے ہنر و کمال کا نام دیاجارہا ہے۔ اس خود ساختہ ہنر و کمال کے معیار کو اپنانے کے لیے مختلف گم راہ کن سازشیں بناتی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کے نوجوان بچے بچیوں کو مختلف لالچوں کے ذریعے گم راہ کیا جاتا ہے۔ وہ مسلمان جو ان کے دام میں نہیں آتے بلکہ ان کے خوش نما نعروں کے خلاف شعور بیدار کرتے ہیں، انھیں بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ قرار دے کر اسے جان سےمار دیتے ہیں، یا پھر کم از کم قید کرلیتے ہیں۔ انھیں گرفتار کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر انعام رکھ لیتے ہیں تاکہ دنیا میں ان کے لیے رہنے کی جگہ ہی نہ ہو۔ جس طرح مدنی دور میں کفار نے چار طریقوں سے مسلمانوں کے خلاف فکری جنگ شروع کی تھی۔ شعروں میں مسلمانوں کی ہجوکرلیتے۔ تمام عیوب اور نقائص کو مسلمانوں کی طرف منسوب کرکے ان کے ساتھ مناظرے اور مباحث کرتے ، ان کا مسلمانوں کے ساتھ معاملہ منافقت کا ہوتا تھا، سامنے خیر خواہی کا اور پیٹھ پیچھے سے سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔ آج بھی دنیا فکری جنگ میں یہی سب کچھ کررہی ہے۔ دنیا کے سامنے مسلمانوں کو دہشت گرد کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ میڈیا کے بل بوتے پر مسلمانوں کو مختلف القابات دے کر ان کی غلط تصویر کشی کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب 1923 میں جنگ عظیم اول کے بعد خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور 1945 میں جنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے ایک بین الاقوامی ادارہ سامنے آیا، تو اسلامی دنیا کے ساتھ ایک بہت بڑی نا انصافی کی گئی۔ انھیں دھوکہ دے کر پس منظر میں دھکیلا گیا۔ بین الاقوامی معاملات میں حصہ لینے سے انھیں محروم کیا گیا۔ دوسری طرف اسلامی دنیا کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کیا گیا۔ اقوام متحدہ کا منشور لکھ دیا گیا، انسانی حقوق کے نام پر تنظیمیں بنائی گئیں، ان کے لیے اصول وضع کیے گئے۔ اس تمام صورت حال میں مسلمان دھوکہ کے شکار ہوئے۔ اس طور پر کہ بظاہر تو اقوام متحدہ جنگوں کے روک تھام اور امن کے قیام کے لیے قائم کیا گیا، مگر در حقیقت اس سے طاقت ور قوتوں کے مفادات کے تحفظ کا کام لیا گیا۔ دنیا میں جاری جنگوں کے روک تھام کی بجائے ترقی پذیر ممالک پر بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے کیے گئے حملوں کے لیے باقاعدہ جواز فراہم کی گئی۔ سلامتی کونسل کے نام سےپانچ ممالک کی جھولی میں پوری دنیا کی تقدیر کے فیصلوں کا اختیار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ان پانچ ممالک نے اس قدر اختیارات حاصل کرلیے کہ دنیا کے دیگر ممالک ان پانچوں کی ملکیت بن کر رہ گئے۔ وہ اپنے آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو جینے کا حق ہی نہیں دیتے۔ صرف انہی کو جینے کا حق حاصل ہوگا جو ان پانچوں کے استحصالی فیصلوں اور مفادات کو چیلنج نہ کرے اور ہمیشہ کے لیے ان کی غلامی کے سامنے سر تسلیم خم کرے، ہر وہ ملک جو ان کی غلامی سے انکار کرے ان کے لیے یہ مختلف مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ انہی کی مرضی سے حکومتیں چنی اور گرائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی ہی مرضی سے دیگر ممالک کی قوت کو قانونی جواز دینے اور نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ گویا دنیا میں جو جماعتیں ان پانچوں کے معیار پر پوری اترتی ہیں انھیں حکومت کا حق حاصل ہے اور جو نہیں اترتی انھیں حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ خلاف ورزی کرنے پر سلامتی کونسل فوری طور پر اٹھ کھڑی ہوتی ہےاور ایک نام نہاد حکم کے ذریعے ان پر حملہ کرواتا ہے۔ اس حوالے سے کئی ساری مثالیں موجود ہیں جن پر بحث کی جاسکتی ہےالبتہ بطور نمونہ ایک مثال کافی ہوگی۔ ہمارے ملک افغانستان میں نوے کے عشرے میں ایک خالص اسلامی حکومت بن گئی تھی جس نے ملک میں امن و امان کا قیام ممکن بنایا۔ ملک کو طوائف الملوکی سے بچا لیا، افغانستان کی تحلیل وتقسیم کا راستہ روک لیا، ملک کے پچانوے فی صد حصے کو بدعنوانیوں سے بچا لیا، لیکن یہ سب مغربی دنیا کے لیے ناقابل قبول تھا۔ آخر تک اقوام متحدہ نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ کیا کسی حکومت کے جواز کے لیے اقوام متحدہ سے اجازت لینے کی شرط صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ لگتا یہی ہے کہ یہ شرط صرف مسلمانوں کے لیے ہی ہے تاکہ دنیا میں ایک آزاد و خود مختار اسلامی مملکت نہ بن سکے۔اس کی ایک زندہ مثال فلسطین ہے۔ وہ نصف صدی سے باقاعدہ حکومت ہےلیکن اقوام متحدہ نے آج تک اسے تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح کشمیر اور چیچنیا کو بھی حکومت کا حق صرف اس لیے نہیں دے رہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل انھیں تسلیم نہیں کرتے۔
یہ سبھی کسی نہ کسی حوالے سے فکری جنگ کے مختلف محاذ ہیں۔ جس کے ذریعے دنیا کی بڑی طاقتیں مسلمانوں کو زیر کرنے اور ان کے خلاف طاقت آزمانے کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کو اقتصادی لحاظ سے کمزور کرنا عالمی کفری طاقتوں کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔ ان کا مقصد مسلمانوں کو بھوک اور فقر میں مبتلا کرنا ہے۔ ان کی کوشش رہتی ہے کہ مسلمانوں کے انفراسٹرکچر پر خود ہی قبضہ کریں یا کم از کم مکمل طور پر تباہ کردیں ، تاکہ مسلمان تمام ضرورتوں کے حصول کے لیے ان کی طرف دیکھنے لگیں جس کے نتیجے میں وہ الحاد و ارتداد کو آسانی کے ساتھ ان پر مسلط کرسکیں۔ دیگر ممالک کی معیشتوں کو کمزور کرنا اور پھر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے من پسند شرائط کے ساتھ انھیں قرضے فراہم کرنا، نتیجے میں انھیں اپنے سیاسی و عسکری مفادات کے تحفظ کے لیے آمادہ کرنا مغرب کی شیطانی حکمت عملی ہے۔ یہی عمل یورپ اور امریکا اپنی تجارتی کمپنیوں کے ذریعے کروارہے ہیں۔ دنیا میں بالعموم اور اسلامی دنیا میں بالخصوص اہم اقتصادی پروجیکٹس، کارخانے، بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو نجکاری یعنی پرائیوٹ سیکٹر کے بہانے خرید رہے ہیں۔ حکومتوں کو لالچ دے کر مختلف حیلوں اور بہانوں کے ذریعے کم قیمت پر خرید رہے ہیں جب کہ صارفین کو مہنگی قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔ اس صورت حال کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ ملک رفتہ رفتہ اپنے ہی قومی اثاثوں اور اقتصادی منافع سے محروم کردیا جاتا ہے، بالآخر وہ یورپ ہی کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں۔جن ممالک نے اپنے قومی اثاثے فروخت کیے اور اپنے اقتصادی منافع ورلڈ بینک کی جھولی میں پھینک دیے، وہ بالآخردیوالیہ پن کے شکار ہوئے ہیں اور جب دیوالیہ ہوجا تے ہیں تو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ان کے نہایت مشکل شرائط پر قرضے وصول کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کی فکری آزادی سلب ہوجاتی ہے اور وہ سیاسی طور پر محکوم اور عسکری لحاظ سے مفلوج ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات اگلے مضمون میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیں گے ،یہاں اتنی بات سمجھانے کے لیے کافی ہے۔
ان حقائق کا علم مسلم نوجوانوں اور اسلامی دنیا کی مذہبی قیادت کے لیے از حد ضروری ہے۔ تاکہ وہ اس بات سے باخبر رہیں کہ مغرب اور یورپ کی ہر فکری اور سیاسی و عسکری معاہدے کے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اپنے دین اور تہذیب کو وسعت دی جائے اور دوسرا یہ کہ کمزور اقتصادی حالت کو بہتر کریں۔
صلیبی جنگیں: اگر ہم پانچویں صدی میں شروع ہونے والی صلیبی جنگوں کے اسباب و عوامل پر غور کریں تو درج بالا دونوں مقاصد مزید کھل کر واضح ہوجائیں گے۔ صلیبی زائرین کے قافلے در قافلے مسلم ممالک میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کی نیت سے آتے تھے۔ جب وہ مسلم ممالک میں بہترین طرز زندگی ، اعلی بود و باش دیکھتے تو یہ صورت حال ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی۔ کیوں کہ وہ اپنے ہی حکام کی جانب سے فقر، جہالت اور تاریکی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ وہ سالوں ظلم و ستم کی چکی پستے رہے۔ جب وہ اپنے ممالک واپس جاتے تو مسلمانوں کی پرسکون معاشرت اور ترقی یافتہ تہذیب و تمدن سے نہایت مرعوب ہوتے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے بھی اپنے بادشاہوں پر پرسکون طرز معاشرت فراہم کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا۔ لیکن بادشاہوں کے مفادات ان کی جہالت کے ساتھ وابستہ تھے۔ وہ کسی طرح ان کو تعلیم اور پرسکون زندگی فراہم کرنے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ وہ اپنے اہل و اولاد کو نسلی تفوق کی بنا پر بر تر سمجھتے تھے اور یہ ساری سہولیات صرف اپنے بچوں کے لیے مہیا کرتے۔ یہ بادشاہ جب اپنے عوام کی دباؤ کے سامنے بے بس ہوتے تو عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے انھیں مسلمانوں کے گھروں اور جائدادوں کو مال غنیمت کی نیت سے غصب کرنے کی ترغیب دیتے۔ یہ سب وہ اپنے حق کے طور پر کرتے تھے۔ ان کے خون گرمانے کے لیے بادشاہوں نے صلیبی جنگوں کا نعرہ بلند کیا۔
یہ زائرین جب مسلم ممالک سے واپس جاتے تو ان کے لیے دوسرا رویہ جو ناقابل برداشت تھا وہ یہ کہ مسلمان باشندے اپنے دین پر سختی سے کاربند اور شریعت پر عمل کرنے والے ہیں۔ یہ صورت حال بھی ان کے لیے ناقابل برداشت تھی کہ ہم عیسائی کیوں مسلمانوں کی طرح اپنے دین پر عمل نہیں کررہے ہیں۔ لہذا صلیبی جنگ شروع کرکے ایک تو اپنے دین کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کریں گے دوسرا یہ کہ مسلمانوں کے مال و دولت پر قبضہ کرکے خوشحال زندگی بسر کرنے لگ جائیں گے۔ وہ شہر جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمہم اللہ نے ان سے قبضہ کیے تھے انھیں دوبارہ قبضہ کرکے وہاں عیسائیت کی تبلیغ شروع کریں۔ یورپ کے کئی صلیبی طاقتوں نے صلیب کے جھنڈے تلے مسلم ممالک پر حملوں کا اعلان کیا۔
صلیبی جنگوں کی تعریف: الحروب الصلیبیة التي دعا الیها رجال دین النصاری والقساوسة ضد المسلمین باسم الصلیب وتحت راأیته
عیسائی مذہبی پیشواؤں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف صلیب تلے لڑی جانے والی جنگیں صلیبی جنگیں کہلاتی ہیں۔
صلیبی جنگوں کا دور: تاریخی لحاظ سے صلیبی جنگیں 489 ہجری میں شروع ہوئیں اور 690 ہجری میں اختتام کو پہنچیں۔ اس لحاظ سے صلیبی جنگیں دو صدیوں پر مشتمل ہیں۔
صلیبی جنگوں کے اہداف و مقاصد: من جملہ صلیبی جنگوں کے مقاصد میں سے بڑے مقاصد وہ ہیں جن کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا۔ عام عوام کی توجہ بادشاہوں کی عیاشانہ طرز زندگی سے ہٹایا جائے، یورپ میں فقر اور محتاجی کے خاتمےکےلیے مسلمانوں کے شہروں اور ان کے قومی اثاثوں کو لوٹا جائے۔ عیسائیت کی توسیع کے لیے مسلمانوں سے ان کے شہر قبضہ کیے جائیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہداف ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔
اسلامی ممالک کو قبضہ کرنا، بیت المقدس کو مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کرکے اپنے قبضے میں لینا اور مسلمانوں سے کھائے گئے شکستوں کا بدلہ لینا وغیرہ۔
عیسائی مذہبی راہ نماؤں نے یہ پروپگنڈا شد و مد کے ساتھ کیا کہ مسلمان بیت المقدس میں عیسائیوں کے مذہبی مقدسات کی توہین کرکے زائرین پر ظلم ستم کرتے ہیں۔ پیٹر نامی ایک راہب جو بیت المقدس سے نکالاگیا تھا۔ اس نے اشتعال انگیز تقریریں کیں جس نے پورے یورپ میں آگ لگا دی۔ یہی وجہ ہے کہ 1085عیسوی میں ایک عیسائی راہب اربن نے وینس میں پہلی صلیبی جنگ کا علان کیا۔
پہلی صلیبی جنگ: 496 ہجری (جولائی 1099ء) میں دس لاکھ عیسائیوں نے فرانس کے بادشاہ گاڈ فری کی قیادت میں القدس پر صلیبی جھنڈا لہراکر مسجد اقصی میں ستر ہزار مسلمانوں کو شہید کیا۔ تاریخی حوالے سے ظاہر ہے کہ اس وقت اتنا زیادہ خون بہایا کہ عیسائی فاتحین کے گھوڑے گھٹنوں تک اس میں ڈوب گئے۔
عمادالدین زنگی: بیت المقدس پر قبضے کے چھبیس سال بعد 518ہجری مطابق 1124 ء میں بصرہ اور واسط میں عماد الدین زنگی کے نام سےایک غیر معروف مجاہد نے مقامی طور پر اقتدار حاصل کیا۔ جلد ہی انھوں نے موصل میں ایک آزاد و خود مختار حکومت کی داغ بیل ڈالی جنھوں نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ 26 سالوں کے بعد صلیبی افواج پر وہ قہر الٰہی بن کر گرااور صلیبی ان کی فتوحات سے خوف زدہ ہوگئے۔
نور الدین زنگی اور دوسری صلیبی جنگ: عمادالدین زنگی کے بیٹے نور الدین زنگی نے اپنے والد کے شروع کردہ جہاد کو جاری رکھ کر صلیبیوں پر پے در پے حملے کیے۔ زنگی خاندان کی قوت توڑنے کے لیے ایک بار پھر صلیبی جنگ شروع ہوگئی۔ 542 ہجری 1148ء میں کئی لاکھ جرمن اور فرانسیسوں نے سینٹ برنارڈ لائیڈ ہفتم کی قیادت میں شام پر حملہ کیا، مگر 544 ہجری 1149 میں ناکام ہوکر واپس ہوگئے۔
صلاح الدین ایوبی اور تیسری صلیبی جنگ: سلطان صلاح الدین ایوبی نے مصر اور شام کو زیر نگیں لانے کے بعد ربیع الثانی 583 ہجری میں حطین کی جنگ کا اعلان کرکے شام سے عیسائیوں کا صفایا کیا۔رجب المرجب 583 ہجری 1187 ء کو بیت المقدس فتح کیا جس سے عیسائی مشتعل ہوگئے۔585 ہجری میں فلسطین پر حملہ کیا۔ یہ تیسری صلیبی جنگ تھی جو چار سال تک جاری رہی جو شعبان المعظم 588 ہجری میں عیسائیوں کی شکست پر منتج ہوئی۔
چوتھی صلیبی جنگ:جرمن بادشاہ ہنری ششم نے 591 ہجری 1195 ء میں شام پر حملہ کرکے چوتھی صلیبی جنگ کا آغاز کیا۔ لیکن عکاپور تک پہنچ کر مر گیا۔ یہ گویا چوتھی صلیبی جنگ تھی عکاپور کی موت پر جا کر ختم ہوگئی۔
پانچویں صلیبی جنگ:618 ہجری مطابق 1221ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھتیجے الملک اور ان کے بھائیوں نے عیسائیوں کو عبرت ناک شکست دے دی۔
چھٹی صلیبی جنگ: 626 ہجری مطابق 1228 ء میں جرمن بادشاہ فریڈرک دوئم کی سربراہی میں ایک بار پھر صلیبی لشکروں نے حملہ کیا، مگر اس دفعہ مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ایک معاہدے کے تحت کچھ عرصے کے لیے القدس جرمنیوں کے حوالے کیا گیا۔ اٹھارہ سال بعد جب اس معاہدے کی مدت ختم ہوئی تو 542 ہجری مطابق 1244 ء میں الملک الصالح نے خوارزمی مجاہدین کی معیت میں صلیبی لشکر کے ساتھ لڑائی کرکے انھیں شکست فاش دے دی اور القدس کو ایک بار پھر آزد کرالیا۔
ساتویں صلیبی جنگ: فرانس کے بادشاہ سینٹ لوئس سوئم نے پوپ کی تحریک پر 1248 میں ساتویں صلیبی جنگ شروع کی، لیکن انھوں نےمحرم الحرام 648 ہجری مطابق 1250 ء میں منصور نامی علاقے میں شکست کھائی ، یہاں تک کہ وہ زندہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا جسے چار سال بعد رہا کرکے واپس اپنے علاقے پہنچا دیا۔
آٹھویں صلیبی جنگ: 668 ہجری مطابق 1270ء کو اٹھارہ سال بعد سینٹ لوئس نے ایک بار حملہ کیا لیکن محاصرے کے دوران بیمار ہوکر دم توڑ گیا۔ یوں آٹھویں صلیبی جنگ میں شکست کھاکر صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ 690 ہجری مطابق 1291ء میں مصر کے شاہ الملک الخلیل نے شام سے عیسائی حکومتوں کا خاتمہ کرکے پانچویں صدی کی یادگاریں ڈھادیں۔
یورپ میں فکری جنگوں کے مؤسس: سینٹ لوئس کی موت کے بعد عیسائیوں کی پے در پے شکستوں نے اس بات پر مجبور کیا کہ مسلمانوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے فکری طور پر خود کو لیس کرنا ہوگا، فکری و علمی میدان میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے انھوں نے چار راہ نما باتیں بتائیں۔
1- مسلم حکمرانوں کے درمیان اختلافات کھڑے کیے جائیں۔
2- پختہ عقیدے اور نظریے کے حاملین کو مسلسل دباتے رہا کریں تاکہ وہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہ ہوں۔
3- غزہ سے انطاکیہ تک وسیع یورپی حکومت قائم کرلینا۔ ( یہ علاقہ حال میں فلسطین اور اسرائیل سے عبارت ہے۔)
4- مسلمانوں میں فحاشی وعریانی کو فروغ دیا جائے، ان میں مالی بدعنوانیاں پیدا کرکے ان کی حکومتوں کو کمزور کیاجائے۔
صلیبی جنگوں کے بعد ہی یورپ کے افکار میں تبدیلی آئی اورانہوں نے عسکری جنگوں کے ساتھ ساتھ فکری محاذ پر بھی خود کو لیس کیا اور دنیا میں جاری فکری جنگ کی بنیاد رکھ دی۔