قوشتیپہ کینال اور خود کفیل افغانستان

تحریر: ذبیح اللہ نورانی افغانستان پچھلے چار دہائیوں سے اندرونی جھگڑوں، بیرونی سازشوں اور جارح قوتوں کی جارحیت کی وجہ سے ہمہ نوع ترقیاتی منصوبوں سے دور رکھا گیا ہے۔ افغانستان اب بھی بنیادی غذائی اشیا “آٹا، گھی اور پینے کے صاف پانی” کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہے۔ دو دہائیوں کی جارحیت کے […]

تحریر: ذبیح اللہ نورانی

افغانستان پچھلے چار دہائیوں سے اندرونی جھگڑوں، بیرونی سازشوں اور جارح قوتوں کی جارحیت کی وجہ سے ہمہ نوع ترقیاتی منصوبوں سے دور رکھا گیا ہے۔ افغانستان اب بھی بنیادی غذائی اشیا “آٹا، گھی اور پینے کے صاف پانی” کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہے۔ دو دہائیوں کی جارحیت کے دوران سیلاب کی طرح نقد امداد کی آمد نے ہمارے حکمرانوں کو اس قدر بے فکر کر دیا کہ انہوں نے ملک کی خوشحالی اور ملکی بھلائی کا خیال تک نہ کیا اور ڈالر کے شوق میں سب کچھ بھول گئے۔ خود نظام بھی پانی کے اوپر جھاگ کے مترادف تھا جس کی انتظامیہ اس کے اختیار میں نہیں تھی کیوں کہ یہ امریکی قابض اتحاد کی بیساکھی پر قائم ہوئی تھی جو افغان قوم کی نمائندہ انتظامیہ نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ افغان عوام نے بھی ان کی حمایت کی بجائے امارت اسلامیہ کی حمایت کی، جب امارت اسلامیہ نے نام نہاد جمہوری نظام کو چیلنج کیا تو وہ بیت العنکبوت کی طرح بیٹھ گیا۔ مغربی جارحیت پسندوں کے اندازوں کے مطابق ایسا لگ رہا تھا کہ موجودہ اسلامی نظام کی آمد اور غیر ملکی افواج کے انخلا سے سب کچھ تباہ ہو جائے گا اور اسلامی نظام پچھلے جمہوری نظام کے ٹوٹتے ہی تنہائی اور زوال کا شکار ہو جائے گا۔ ایک بار پھر بیرونی ممالک کو مداخلت اور استحصال کا موقع ملے جائے گا اور افغانستان کو ایک اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مقصد کے لیے امریکی جارحیت پسندوں اور ان کے اتحادیوں نے افغانوں کے لیے اپنے ملکوں کے دروازے کھول دیے، پروپگنڈوں کے ذریعے انہیں افغانستان چھوڑنے اور بیرون ممالک ہجرت کرنے پر مجبور کر دیے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے ذریعے بہت سے نوجوان افغانوں کو نظام کے خلاف اکسانے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ اسے رد عمل کا اظہار کرنے پر مجبور کریں اور اسے باہر نکالنے کے لیے بطور آلہ استعمال کریں۔ موجودہ اسلامی حکومت نے بھی ان تمام سازشوں کو چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے مختلف منصوبوں کا آغاز کیا، اپنے شہریوں کے لیے امان و امان کو یقینی بنایا اور ملکی سطح پر قوشتیپہ کینال سمیت ایسے بڑے منصوبے شروع کیے جو افغانستان کی پوری تاریخ میں کم ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ پہلی بار انہوں نے اندرونی آمدنی سے بجٹ کی منظوری دی اور تمام منصوبوں کی لاگت اسی داخلی سے بجٹ سے پوری کر دی جس سے عوام کے بہتر مستقبل کو یقینی بنایا۔ قوشتیپہ کینال کوئی معمولی منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام بجٹ سے مکمل کیا جا سکتا ہے، بلکہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ایسے بنیادی کاموں اور غیر معمولی عزم و ہمت کی ضرورت ہے۔
تبصرہ سمیٹتے ہوئے میں قشتیپہ کینال کی حالیہ پیش رفت اور عوام کے فیصلے کی طرف آتا ہوں!
قوشتیپہ کینال کا رقبہ:
قوشتیپہ کینال کے موجودہ ڈیزائن کے مطابق اس کی لمبائی 285 کلومیٹر، چوڑائی 100 میٹر اور گہرائی 8.5 میٹر ہے جو صوبہ بلخ کے ضلع کلدار سے شروع ہو کر حیرتان کے ریگستان، دولت آباد اور بلخ کے اضلاع، جوزجان، فیض آباد، آقچی اور دیگر کئی علاقوں سے گزرتا ہے اور آخر کار یہ فاریاب اور اندخوئی ​​اضلاع تک تقریباً 30 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو سیراب کر سکتا ہے۔
قوشتیپہ کینال کی ضرورت:
یہ نہر فی سیکنڈ 650 کیوبک میٹر پانی منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہ 6.5 میٹر کی اونچائی کے ساتھ ایک سال میں 10 بلین کیوبک میٹر پانی منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
قوشتیپہ کینال کا سالانہ بجٹ:
امارت اسلامیہ نے ابتدائی طور پر سال 2022/23 کے لیے چھے ارب افغانی کے بجٹ کی تیار کی ہے۔
قوشتیپہ کینال کے اہم اشیا:
چھے سال میں مکمل ہونے والا قوشتیپہ کینال ضمن میں صوبہ بلخ کے علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے دیگر چھوٹی نہریں اور ذیلی منصوبے بھی رکھتا ہے۔ اس بڑے منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف ملک میں زراعت، اناج اور دیگر زرعی مصنوعات کے شعبے میں ایک عظیم انقلاب اور تبدیلی آئے گی بلکہ اس منصوبے کی تکمیل سے ملک اناج اور زرعی مصنوعات میں خود کفیل بھی ہوجائے گا اور ہم اناج بھی برآمد کریں گے۔ زراعت کے علاوہ یہ نہر علاقے کے استحکام اور ماحولیاتی تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا اور یہاں تک کہ موسمیاتی تبدیلی اور شفافیت کا سبب بھی بنے گا۔ افغانستان آبی سہولیات سے مالامال ممالک میں سر فہرست ہے۔ مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک کا پانی کسی استعمال کے بغیر ضائع ہو جاتا ہے۔ ہم ملکی سطح پر پانی کے انتظام میں ٹھوس اقدامات کریں گے ان شاءاللہ، اس حوالے سے تکنیکی ٹیم عملی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔
قوشتیپہ کینال کے مراحل:
قوشتیپہ کینال کے تین مراحل ہیں، پہلا مرحلہ 108 کلومیٹر طویل ہے، یہ دریائے آمو سے شروع ہو کر صوبہ بلخ کے ضلع دولت آباد تک پہنچتا ہے۔ دوسرے مرحلے کی لمبائی 177 کلومیٹر ہے جو بلخ کے دولت آباد سے شروع ہوتا ہے، صوبہ جوزجان کے ضلع آقچی سے ہوتا ہوا صوبہ فاریاب کے ضلع اندخوئی ​​تک پہنچتا ہے۔ تیسرا مرحلہ زرعی زمین پر ذیلی کینالوں کی تقسیم ہے۔ یہ منصوبہ چھ سال میں مکمل کیا جائے گا، پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے ایک سال اور بقیہ دو مراحل کے لیے پانچ سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ اس نہر کی بدولت زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس زرعی فارم بھی ہوں گے جس سے لاکھوں لوگوں کو زمین، رہائش اور روزگار بھی ملے گا۔ ملک خود کفالت کی طرف جائے گا، اسے اب غیر ملکی امداد کی ضرورت نہیں رہے گی، اور افغانستان خطے میں سب سے اہم غلہ برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہوگا ان شاءاللہ۔
کینال کی تازہ صورت حال اور حالیہ پیش رفت:
ضلع کلدار سے دولت آباد تک 104 پوائنٹس پر 108 کلومیٹر طویل قوشتیپہ کینال پروجیکٹ کے پہلے مرحلے پر اس وقت کام جاری ہے۔
فیلڈ میں 2250 مشینوں کے ساتھ 3200 ملازمین مذکورہ پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ اب تک 22 کلو میٹر کینال کا کام مکمل ہو چکا ہے جس سے 33 ملین کیوبک میٹر مٹی منتقل کی جا چکی ہے۔ اس وقت آمو کے کنارے زیرو پوائنٹ پر واٹر ڈیم کے 250 میٹر کے ساتھ دریائے آمو کے پانی کا رخ تبدیل کرنے کا کام جاری ہے۔ حیرتان روڈ کے ساتھ دو پلوں کی تعمیر جن میں سے ایک حیرتان تا مزار شریف ٹرانزٹ روڈ کے لیے ہے۔ یہ دو پوائنٹس میں بہتا ہے اور ہر روز اس سے چار لاکھ مکعب میٹر مٹی نکالی جاتی ہے۔ ہم اپنے یومیہ پلان سے زیادہ ایک لاکھ کیوبک میٹر مٹی نکال رہے ہیں۔ اللہ کی مدد سے ہم اس منصوبے کو مقررہ وقت سے پہلے مکمل کر لیں گے۔ ہم روزانہ سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو اوسطاً 30 ملین افغانی سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر اس منصوبے کی رفتار کا تخمینہ 30 فی صد لگایا گیا ہے جو کہ امارت اسلامیہ کی قیادت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔