کابل

مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلی کے اثرات

مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلی کے اثرات

تحریر: عبدالحئی قانت

بین الاقوامی نظام میں بڑی تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کے اعلان کے بعد یمن کے حوثی باغیوں نے یمن کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک چینل کھولنے کا اعلان کیا، جس کے بعد متحدہ عرب امارات کی سلامتی کونسل کے مشیر نے ایران کا دورہ کیا جب کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے ایران کے صدر کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت دی۔ دوسری جانب شام کے صدر بشار الاسد نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا۔ اس سے قبل حماس کے رہنماؤں نے شام کا دورہ کیا اور 10 سال کی لاتعلقی کے بعد شام کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائے۔ حماس کے دورے کے بعد ترک صدر رجب طیب نے شام کی موجودہ حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا پیغام دیا، جس میں اب روس ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے۔

بین الاقوامی سپر پاورز میں روس اور چین مشرق وسطی میں تبدیلی کے حامی اور ثالث ہیں۔

ترکی، ایران اور سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی علاقائی، اقتصادی، سیاسی اور عسکری طاقتیں ہیں۔ امریکہ نے 1991 سے 2018 تک مشرق وسطیٰ میں ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دی تھی جو نہیں چاہتا تھا کہ اس خطے میں کوئی طاقت کے توازن کو بگاڑ سکے، کیونکہ یہ توازن امریکہ کے حق میں تھا۔ امریکہ کی واردات کا طریقہ کار یہ تھا کہ اسرائیل کو ایران سے، ایران کو سعودی عرب اور سعودی عرب کو ایران سے ڈراتا تھا۔ ترکی کو نیٹو اتحاد کی رکنیت اور یورپی یونین میں شمولیت سے چیلنج کرتا تھا۔

چونکہ اب امریکی طاقت کا توازن ٹوٹ رہا ہے، اس خطے میں مختلف ناراض ممالک آپس میں تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے نئی صف بندی کررہے ہیں، چین اور روس اہم کردار ادا کررہے ہیں، امریکیوں نے اسرائیل کو نیچرلائز کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ اس عمل کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل خطے میں ایک نارمل ملک کے طور پر سامنے آئے اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرے کیونکہ امریکی یہودی جانتے ہیں کہ امریکہ کچھ عرصہ بعد اسرائیل کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔

مشرقی یورپ اور بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ کی مصروفیت سے خطے کے ممالک کو اندازہ ہو گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اب امریکی طاقت کا توازن برقرار نہیں رہا ہے اور شاید جلد ہی افغانستان کی طرح مشرق وسطیٰ میں بھی اس کا اثر و رسوخ ختم ہو سکتا ہے۔

چین اور روس مشرق وسطیٰ کے مشترکہ مفادات کے لیے خطے کے ممالک کو ایک نئے بلاک میں منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی عرب، ترکی، ایران، امارات، قطر اور دیگر تمام ممالک جانتے ہیں کہ انہیں مستقبل کے لیے اپنی خارجہ پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔

اس نئی تبدیلی نے اسرائیل کے مستقبل کو بڑے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ شام اور ایران خطے میں معمول پر آ رہے ہیں، حماس نے روس اور چین کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں، سعودی عرب نے ایران اور شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے اقدامات شروع کر دیئے ہیں اور ریاض میں ہونے والے عرب لیگ اجلاس میں شام کے صدر بشارالاسد کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے اور مجموعی طور پر مشرق وسطیٰ میں عوامی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہے۔

جس دن امریکہ اس خطے سے نکل جائے گا اسرائیل کا اثر و رسوخ بھی ختم ہوجائے گا۔

ہم اس عظیم تبدیلی کے بہت قیمتی دور سے گزر رہے ہیں۔ اگر زندگی رہی تو ہم بہت جلد بین الاقوامی سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلی اور اس کے اثرات دیکھ سکتے ہیں۔

یہ اہم تبدیلی افغانستان کے مستقبل کے لیے ایک بڑی مثبت تبدیلی ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔