ملا امین اللہ المعروف ملا بورجان شہید رحمہ اللہ کی یاد میں

آپ کا مختصر تعار ف:آپ کا اصل نام امین اللہ جبکہ ملا بورجان کے نام سے مشہو ر تھے ،بہت سے لکھاریوں  کے مطابق آپ حاجی محمد صادق کے بیٹے اور ملا مو سی جان کے پوتے تھے ۔ ولادت باسعادت : آپ کے پیدائش   ۱۹۵۴ ء کو صوبہ قندھا ر کے ضلع پنجوائی میں […]

آپ کا مختصر تعار ف:آپ کا اصل نام امین اللہ جبکہ ملا بورجان کے نام سے مشہو ر تھے ،بہت سے لکھاریوں  کے مطابق آپ حاجی محمد صادق کے بیٹے اور ملا مو سی جان کے پوتے تھے ۔

ولادت باسعادت :

آپ کے پیدائش   ۱۹۵۴ ء کو صوبہ قندھا ر کے ضلع پنجوائی میں  تلکا ن نامی گاوں  میں  ایک دیندار گھرانے میں  ہو ئی

ابتدائی تعلیم: چونکہ آپ کا تعلق ایک مشہور دیندار اور علمی گھرانے سے تھا ، اسی وجہ سے بچپن میں  والد محترم نے قدیم زمانے کے علماء کے طرزپر اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کی ،تاکہ وہ اپنے دین عقیدے اوروطن کی خدمت کیلئے ایک روشن نامور ستارہ بن سکیں  ،بچپن ہی میں  والد محترم کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا اس کے بعد آپ کی تر بیت آپ کی مشفق والدہ نے کی ،والد محترم کے وفات کے بعد اگرچہ آپ کو گوناگوں  اقتصادی مشکلات اور مصائب کا سامناکرنا پڑا ،لیکن پھربھی آپ نے تعلیم نہیں  چھوڑی،بلکہ سادسہ تک آپ نے بڑے شوق سے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا ،اور امتیا زی نمبرات کیساتھ ان میں  کامیابی حاصل کی ۔

جہادی میدان میں  آپ کی سیاسی اور انتظامی جدوجہد:

۱۹۷۹ء کوجس وقت کمیونسٹوں  نے حکو مت پر قبضہ کرکے اپنا کنٹرول قائم کیا تو اس وقت ملا برجان ابتدائی درجا ت سے نئے نئے فارغ ہوئے تھے ،کیمو نسٹوں  نے اس وقت کے علماء اور تعلیمی اداروں  کے سربراہوں  اور ان کے اساتذہ کو اور دیگر اسلامی طرز فکر رکھنے والوں  کو شھید کرنا شروع کیا ،اور انہیں  طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنا کر قید کرنا شروع کیا جیسا کہ آج کل صلیبی اور ان کے زرخرید مسلمان غلام بغیر کسی عدالتی کاروائی اور بغیر کسی دلائل کے اسلام سے محبت کرنے والوں  کو پھا نسی پر چھڑارہے ہیں  ،چنانچہ اسی وجہ سے ملا بورجان رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے تعلیمی سلسلے کو چھوڑا ،اور جہاد کے روشن میدان کا رخ کیا ،اگرچہ اس وقت آپ کم عمر تھے ،لیکن آپ میں  اسلامی غیر ت اورجذبہ اس قدر بڑھا ہواتھا کہ اس میدان میں آپ نے بڑو ں  بڑو ں  کو پیچھے چھو ڑدیا ،آپ نے پچیس سال کے عمر میں  ملا محمد اخوند کی قیادت میں  صو بہ قند ھار کے ضلع پنجوائی سے اپنی جہادی زندگی اکا آغاز کیا ،آپ نے اپنے بہادری اور جرئت سے بہت ہی کم عرصے میں  کمانڈر کا لقب پا یا ،ضلع بپنجوائی کا جنو بی مغربی حصہ ان علاقوں  میں  سے تھا جہاں  روسی حملہ ٓاوروں  اور خلقیانوں  اور پر چمیا نوں  کی صور ت میں  موجو د ان کے زرخرید علاموں  پرآئے روز حملے ہوتے رہتے تھے ،

۱۹۸۰ ء سے لیکر ۱۹۸۹ء تک ایک دن بھی ایسانہیں  گزرا جس میں  اس ضلع میں  روسیوں  اور ان کے علاموں  پر حملہ کرکے ان کو مردار نہ کیا گیا ہوں  ۔

قندھار کی جغرافیا ئی حیثیت روسیوں  کیلئے بڑی اہمیت کی حامل تھی اسی وجہ سے ان کے زیادہ تر توجہ قندھا ر پرمرکوز تھی ،تاکہ وہ مجاہدین کے کاروائیوں  کو روک سکے اسی وجہ سے روسیوں  نے جدید اسلحے سے لیس اپنی فوج کے ذریعے اس شہر کا محاصرہ کر رکھا تھا،لیکن مجاہدین کے طرف سے نئے نئے پلانگ اور طریقوں  کی مددسے مالجات اور پشمول کے علاقوں  میں  روسیوں  پر وقتا فوقتا حملے ہوتے رہے، جن میں  انہیں  بہت سے جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑتاتھا ،اسی طرح سیکڑوں  مجاہدین اپنے تنظیموں  کے جنڈے تلے جہادی کاروائی کر رہے تھے ،لیکن محاذ پر وہ دشمن کے مقا بلے میں  سب کے سب ملا بو جا ن کی زیر قیا دت لڑتے تھے ،آپ کا تعق اگرچہ تنظیمی لحاظ سے حزب اسلامی سے تھا لیکن آپ کا احترام اور محبت تما م تنظیموں  میں  پایاجاتاتھا ،
بہت سارے نامور کمانڈر آپ کی بہادری اور جنگی مہارت اور تجربے کے معترف تھے ،چنانچہ اسی وجہ سے قندھا ر شہر کے اول خط پر آپ کو کمانڈر مقر رکیا گیا ،روسی حملہ آوروں  کے مقابلے میں  گو ریلے حملے کرنے میں آپ کو ایک امتیا زی مقام حاصل تھا ،آپ کے قریبی ساتھی مولادادآکا آپ کے بارے میں  کہتے ہے کہ آپ غیر ت جانثاری اور بہادری کا ایک نمونہ تھے ،گو ریلے حملوں  میں  آپ کو ایک خا ص مہارت حاصل تھی جس کی وجہ سے دشمن آپ سے ہروقت مر غو ب رہتے تھے ،جس لڑائی میں  آپ بذا ت خو د موجو د ہوتے تومجاہدین کو یہ کامل یقین ہوتاتھا کہ انشاء اللہ کامیا بی ہماری مقدر رہے گی ،

مو لاداد آکا آپ کے بارے میں  مزید کہتے ہے کہ ایک دفعہ مجا ہدین نے روسیوں  کے مرکز پر حملہ کا منصو بہ بنایا اس کار وائی کی کمانڈ آپ کی ذمے تھی ،آپ نے چند بہادر مجاہدین الگ کردئے جن میں  ایک امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجا ہد حفظہ اللہ بھی تھے اس وقت ملا محمد عمر صاحب ملا بو رجان شھید رحمہ اللہ کیساتھ ایک عا م مجا ہد کی حیثیت سے لڑرہے تھے ،چنا نچہ جس وقت ملا بورجان روسیوں  کے مرکز کے قریب پہنچے ،تو ایک اونچی جگہ پر چڑھ کر ان کی کمین گاہ کا معائنہ کرنے لگے آپ نے دیکھا کہ روسی اپنے مقامی علاموں  کیساتھ قطو نامی کھیل کھیل رہے ہیں  ،چنا نچہ آپ نے حکم دیا کہ بڑے اسلحے کو اوپر چھڑا دو اوریہی سے ان پرحملہ کردیا سخت لڑائی کے بعد دشمن کو بہت جانی اور مالی نقصانا ت کا سامنا کرنا پڑا ،جب کہ مجا ہدین اللہ کے فضل و کرم سے بخیر وعافیت اپنے مو رچوں  تک واپس پہنچنے میں  کامیا ب رہیں  ،صو بہ قندھا رکا ضلع ارغنداب روسیوں  کیلئے ایک اہم اسٹراٹجک حثیت رکھتا تھا ،کیونکہ یہ صوبہ قندھا ر سے پا نچ کلو میٹر کے فاصلے پرواقع تھا اور اس ضلع کا سقوط پوری صو بہ کا سقوط جب کہ اسکا کنٹرول پورے صوبے کا کنٹرول شمار ہوتاتھا روسیوں  نے ۱۹۸۸ ءکو مختلف قسم کے جدید اسلحے سے لیس فوج ،ٹینکوں  اور طیا روں  کے مدد سے معروف روسی جنر ل ( بو ریس گور موف )کے زیر قیادت اس خطے پرحملہ کیا ،

مذکورہ جرنیل نے اپنی کتاب (سرخ لشکر یں  افغانستان )میں  اس لڑائی کے پوری تفصیل لکھی ہے ،

جس وقت روسیوں  نے ملا نقیب اللہ اور ان کے ساتھیوں  کو ایک سخت محاصرے میں  لے لیا جو(۳۳) تنتیس دن تک جاری رہا،تو اس وقت ملا بو رجان رحمہ اللہ کا مر کز (پشمول )بھی ایک سخت محا صرے میں  تھا،لیکن اس کے باوجو د ملا بو رجان شھید رحمہ اللہ سے اپنے مجاہدین بھا ئیوں  کا محاصرہ اور ان پر وحشیا نہ بمباری بر داشت نہ ہوسکی ،
چنانچہ اسی وقت آپ بہت سارے مجا ہدین کو اپنے ساتھ لے کر ان محصور مجاہدین کے طرف روانہ ہوئے اور اچانک پیچھے کے طرف سے روسیوں  پرحملہ کردیا اس حملے نے روسیوں  کو حیر ت میں  ڈال دیا چنا نچہ وہ مجا ہدین کے حملوں  کا دفاع نہ کرسکے ،اور باگنے پر مجبو رہوئے ،اس طرح ملابورجان اللہ تعالی کی مدد سے اس محاصرے کو توڑنے میں  کامیا ب رہے اور مجا ہدین کو اس تکلیف سے باہر نکا ل لائے ،

جس وقت ملا بو رجان نے روسیوں  کو بھا گنے پرمجو ر کیا تو اس کے بعدسے پور ے افغانستا ن میں  روسیوں  کو پے درپے شکست کا سامنا کرنا پڑا ،اور پھر وہ کبھی بھی ضلع ارغنداب میں  مجا ہدین کی مرکزوں  کا محا صر ہ نہیں  کرسکے ،ملا بو رجان شہید رحمہ اللہ جہادی مید ان میں  ایک منفر د تجربے کے مالک تھے ،اور جنگی ٹکنیک کے ایک زیرک کما نڈر تھے چنا نچہ کبھی بھی دشمن کو یہ موقع نہیں  دیتے تھے کہ وہ مجاہدین پر حملہ کرنے میں  پہل کرے بلکہ وہ دشمن پر حملے میں  خود پہل کرکے انہیں  جانی اور مالی ہر قسم کے نقصانات پہنچاتے تھے ،
آپ نے زندگی کا زیادہ تر حصہ روسیوں  کے خلا ف جہاد میں  گزار ا ،اور افغانستا ن کے جنوبی مغربی حصومیں  شدید لڑائیوں  میں آپ نے شرکت کی جس میں  دو مرتبہ آپ زخمی بھی ہوئے پہلی دفعہ آ پ ۱۹۸۴ء کوزخمی ہوئے جس وقت باغ پل کے مقام پر روسیوں  نے آپ کا محا صرہ کر رکھا تھا ،چنانچہ اس محا صرہ کے دوران آپ مجاہدین کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک دھما کے کے شکا ر ہوکر سخت زخمی ہوئے ،

دوسری دفعہ ۱۹۸۷ ء   کو محلہ جا ت کے مقام پر روسیوں  اور مجا ہدین کے درمیان سخت لڑائی کے دوران آپ اپنے بہت سے مجا ہدین ساتھیوں  سمیت زخمی ہوئے اس لڑائی میں  بہت سے مجا ہدین شہید بھی ہوئے۔

یہ اور اسطرح کے اور واقعات ملا بورجان کی جہادی زندگی میں  پیش آئے لیکن یہ آپ کے عزم میں  اور ایمانی قوت میں  ذرہ برابر کمی نہ کرسکے اور آپ نے ان سب کچھ کے باوجو د جہا د کے محا ذکو گرم رکھا ،اور دین اور وطن کے دشمنوں  کے خلاف اس مقدس جہاد کودوام بخشا ،

طالبان کی اسلامی تحریک کی بنیاد رکھنے میں  ملابورجان شہید رحمۃ اللہ علیہ کا بنیادی کردار:

طالبان کی تحریک قندھا ر میں  اس وقت شروع ہوئی جس وقت ملک بھرمیں  خانہ جنگی ،عریانی بے انصافی ،او ر بے امنیتی اپنی عروج پر تھی ،اور ہر شخص کے بر داشت سے باہر تھی،جبکہ دسری طر ف ایک نام نہاد حکومت تھی ،جو ڈیڑھ ملین سے زائد شہیدوں  کے توقعات کے برعکس ہروہ کام کرتی تھی ،جو شرعی، قومی اور بین الاقوامی اصولوں  کے سراسر خلا ف تھی ،تو اس وقت ان مجاہدین نے جنہون نے اپنے جانوں  اور مالوں  کے قربانیاں  دیکر سالہاں  سال تک روسیوں  کے خلاف جہاد کیا ،اور اس راستے میں  کئی ملین شہید وں  کے خون کے قربانی سمیت ،ہرقسم کی قربانی دی ،

تو ان کا مقصد صر ف اسلامی نظام کا قیام تھا ،چنانچہ اس فاسد اور بدکا ر حکومت کا نظام انہیں  برداشت نہیں  ہوسکتاتھا ،کیونکہ اس نظام کو قبول کرنا انہیں  کئی ملین شہیدون کے خون کیساتھ خیانت اورغداری کے مترادف لگتاتھا ،چنانچہ اسی وجہ سے طالبان کے اسلامی تحریک کے ابتداء چند مخلص لوگوں  نے کی ،اور اس طر ح اس فاسد نظام کو ختم کرکے ایک اسلامی نظام قائم کرنے کیلئے جدجہد شروع کی ،ان لوگوں  میں  سے ایک پختہ عزم کے مالک اور مخلص کمانڈر ملا بورجان بھی تھے،جو ملا محمد عمر مجاہد کے دست وبازوبن کر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور مذکو رہ تحریک کو فعال بنا نے میں  اپنا بھر پو رکردار اداکیا ،اور مذکورہ بالا قربانی دی ،

جو لائی ۱۹۹۴ ءسے لیکر ستمبر ۱۹۹۶ء تک کابل کے فتح ہونے تک سارے کا میابیاں  جو طالبان کے اسلامی تحریک نے حاصل کی وہ اللہ تعالی کے فضل وکر م اورملا بورجان شہیدرحمہ اللہ کی قر بانیوں  اورقوی تدبیروں  کا ثمرہ ونتیجہ تھی ،

اکتوبر ۱۹۹۴ء  کو جس وقت طالبان نے قندھا ر پرکنٹرول حاصل کر کے وہاں  ایک اعلیٰ شورٰی قائم کیا ،ملا بو جان شہید رحمہ اللہ اس شورٰی کے ایک فعال رکن تھے ،جبکہ ساتھ ہی وہ دیگر انتطامی امور بھی سرانجام دیتے رہیں  ،

شروع میں  ملا بو رجان قندرھار کے امن وامان کیلئے کمانڈر مقر رہوئے ،لیکن بعد میں  جب طالبان کی طرف سے نئے پروگراموں  اور پلانگ کے تحت دیگر صوبوں  پر کنٹروکا منصوبہ بنا ،تواس وقت ملا بو رجان رحمۃ اللہ علیہ کو خط اول پر جہادی محاذ کا کمانڈ ر مقر کیا گیا ،اورانہیں  دیگر صوبوں  کے طرف مجاہدین کومنظم کرنے اورکاروائیوں  کو فعال بنا نے کی ذمہ داری سونپی گئی ،آپ نے اس ذمہ داری کو بڑے احسن انداز سے نبھایا ،اور یہ سب کچھ آپ نے طالبان کے مرکزی کمانڈر ملا محمد اخوند اور ملا محمد ربانی کے مدد سے کیا ،طالبان نے اپنے طاقتور انتطامی تکنیک اور پلانینگ کے ذریعے بہت کم عرصے میں  قندھا رسے کابل اور اسی طرح چہارآسیاب اور میدان شار تک اپنی کا روائیاں  پھیلا کر بہت سے حصو ں  پر کنٹرول حاصل کرلیا ،

۱۹۹۵ ءکو کا بل کے جنوب میں  چہا ر آسیا ب کے مقام پر آپ شدید زخمی ہوئے چنانچہ آپ کو علا ج کیلئے قندھا ر لایا گیا اور چند دنوں  کے علاج کے بعد آپ نے دوبارہ چہارآسیا ب کا رخ کیا اورخط اول کو قوت بخشا ،اگست ۱۹۹۵ ءتک طالبان نے ہرطرح کی کوششیں  کی ،کہ وہ کابل کوفتح کرلیں ،لیکن وہ اس میں  کامیاب نہ ہوسکیں  ،طالبان کے اسلامی تحریک کے مرکزی قائدین کے جانب سے کابل کو فتح کرنے کے نئے منصوبون پر کام شروع ہو ا چنانچہ ۱۹۹۶ ءکو کابل کے مشرق میں  سپینہ شگہ ،حصارک اورازرہ اوراسی طرح ننگرہار ،کنڑ،لغمان صوبیں  یہان تک کہ کابل کے دروازے ماھیپر تک کے حصے کوفتح کیاگیا ،

انتظامی خصوصیات :

ملابورجان رحمہ اللہ نے انتظامی امور کسی مدرسے وغیرہ سے نہیں  سیکھے ،اور نہ ہی آپ نے کوئی جنگی ٹرینگ کسی سے حاصل کی لیکن پھر بھی آپ کے انتظامی مہارت کسی اعلی تجربہ کارجرنیل سے کم نہیں  تھی،

آپ کی جنگی مہارتون کے وجہ سے ہی قندھار سے روسیوں  کا صفایا ہوا

کیونکہ و ہ اچھے طرح جانتے تھے کہ ملابورجان شہید رحمۃ اللہ علیہ کسی وقت بھی ان کے مورچوں  پر داوابول کر انہیں  تہس نہس کرسکتاہے ،وہ اس بات کو بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ مو لا بورجان جو منصوبہ بناتا ہے ،تو پھر اس پر ہرحال میں  عمل درآمدبھی کر گزر تا ہے ،اسی وجہ سے وہ اپنے مرکزوں  اور اڈوں  سے بہت کم نکلا کرتے تھے ،اسی طرح طالبان کے دور میں  جن کاروائیوں  میں آپ بذات خود شریک ہوتے تو ان میں  مجاہدین کانقصان نہ ہونے کے بر ابر ہوتا ،آپ کاروائی سے پہلے اس کی تمام پہلوں  کااچھی طرح جائزہ لیتے اور اس کی عواقب اور نتائج کے بارے میں  خوب غور اورخو ض کرتے اوردلائل کے ذریعے مجاہدین کو اس پر آمادہ کرتے ،

آپ کے ایک قریبی ساتھی (ملابازمحمد اخوند)آپ کے بارے میں  کہتے ہے ،کہ ایک مرتبہ ہم چارآسیاب کے مقام پر اولین محاذ پربیٹھے ہوئے تھے ،کہ آپ نے مجھ سے کہا کہ یہاں  اس محاذ پر ہمیں  ایک سال اورآٹھ مہینے گزر گئے ہیں  اور بہت سارے مجاہدین بھی شہید ہوگئے ہیں  ہم نے بہت کوشش کی لیکن پھر بھی کابل کو فتح نہ کرسکیں  ،میرے تجربے کے مطابق ہم کابل کو چہارآسیا ب اور میدان شارکی جانب سے فتح نہیں  کرسکتیں  ،بلکہ اگر ہم اس کے مقابلے میں  کابل کی مشرق کی جانب سے کاروائیوں  کاآغاز کریں  تواللہ تعالی کی فضل وکرم سے بہت جلد ہم کابل فتح کرلیں  گے ،

ملا بازمحمد اخون کہتے ہے کہ اس کے بعدآپ نے مجھ سے کہا کہ اللہ تعالی کی فضل و کرم سے آپ کایہ بھا ئی بہت کم عرصے میں  کابل کو مشرق کی جانب سے فتح کرسکتا ہے اور پھراس کے بعد ہم شریعت کی سائے تلے ان میں  گھو میں  گے پھیریں  گے ،

ملا باز محمد اخوند کہتے ہے کہ انہی دنو ں  طالبان نے اپنی کاروائیوں  کو روک دیا ،اور باہمی اتفاق سے کابل کی مشرقی جانب سے کاروائیوں  کا آغازکردیا ،ملابورجان نے کابل کو فتح کرنے کیلئے جتنے دنون کا اندازہ لگایا تھا اتنی ہی دنوں  میں  طالبان نے پورے کابل پر فتح حاصل کی ،اورپھر میں  خوشی خوشی اس میں  گھو متارہتاتھا ،

حسن اخلاق:

ساری زندگی آپ نے جنگی محاذپر گزار ی تھی ،لیکن اس کے باوجودآپ بہت بردبار اورحلیم طبیعت کی مالک تھے ،آپ حسن اخلاق کے پیکرتھے ،اورہرکسی پررحم کرنے والے ایک دردمند انسان تھے ،جنگ کے محاذپر آپ کااپنے ساتھیوں  کے ساتھ رویہ بالکل قرآن کریم کی اس آیت (اشداء علی الکفار رحماء بینھم )(مؤمنین کفارکے مقابلے میں  بہت سخت جبکہ آپس میں  مہربانی کامعاملہ کرتے ہیں )کے موا فق تھا ۔

جنگ کی محاذ پر آپ کی بھر پور کوشش ہوتی تھی کہ بے گناہ لوگوں  کو کسی قسم کی تکلیف اورنقصان نہ پہنچے ،نیز کاروائی کی دوران بھی آپ کی یہ کوشش رہتی تھی کہ مخالفین نہ مارے جائے بلکہ انہیں  موقع دیا جائے کہ یا تووہ اپنے آپ کو تسلیم کر لیں  ،اوریا لڑائی سے ہاتھ اٹھالیں ،

۱۰/۲/۱۹۹۶ءکو جس وقت طالبان نے میدان شار اور لوگڑفتح کرلیا تو بی بی سی کے ایک رپوٹر نے آپ کا انٹرویوں  لیا

اورمستقبل کے بارے میں  آپ سے پوچھا ،اس نے مولا بورجان سے سوال کیا کہ اس میں  کیا راز پوشیدہ ہے کہ دن کے بجائے آپ رات کوکاروائی کرتے ہوآپ نے جواب میں  کہا کہ ہم نہیں  چاہتے کہ مخالفین پردن کی روشنی میں  حملہ کریں  کیونکہ دن کی روشنی میں  وہ مارے جائیں  گے ،اوربھاگ بھی نہیں  سکے گیں  ،چنانچہ اسی وجہ سے ہم دن کی بجائے رات کوکاروائی کرتے ہیں  کیونکہ ہم نہیں  چاہتے کہ اپنے مخالفین کومارے بلکہ ہم توصر ف ان علاقو ں  کی آزادی چاہتے ہیں  تاکہ وہاں  شریعت کا نطام قائم کرسکیں  نہ یہ کہ ہم وہاں  قتل وغارت گری اورخون کا بازار گرم کریں  ،

ساتھیوں  کیساتھ معاملے کے بارے میں  ایک مجاہد عقیق الرحمن آپ کے بارے میں  کہتے ہیکہ ایک مرتبہ آپ کسی بات پر بدخشاں  سے تعلق رکھنے والے مجاہدین پر سخت عصہ ہوئے اورانہیں  سخت باتیں  سنائی ،لیکن واپسی کی وقت آپ کو اپنے اس فعل پر بہت سخت پشیما نی ہوئی،چنانچہ نے آپ نے دوبارہ لوٹ کر ہر ایک سے انفراداًمعافی مانگ کر سب کوراضی کرلیا اور پھر خوشی خوشی اپنے جگہ کے طرف روانہ ہوئے

زہد وتقوی:

ایک طرف آپ اپنے ساتھیوں  کے درمیان بہادری ،غیرت اورجنگی تجربے کے بنیا د پر مشہور تھے ،تو دوسری طرف آپ کی طرح زہد وتقوی اورعاجزی بھی بہت کم لوگوں  میں  پائی جاتی تھی، الغرض آپ تقوی اور پرہیز گاری کا ایک نمونہ تھے ،آپ نے کبھی بھی بیت المال سے اپنے ذاتی خرچے کیلئے کچھ نہیں  لیا اوراپنے ساتھیوں  کوبھی اس بات کی وصیت کرتے رہتے کہ خیانت سے اپنے آپ کو بچائے رکھیں  ۔حالانکہ آپ ایک بڑے انتظامی عہدے پرفائز کمانڈر تھے اور تما عسکری اور مالی امور آپ کے ذیرنگرانی تھے لیکن اس کے باوجودآپ کے گھریلوں  اقتصادی حالات بڑی معتدل اور نیچے سطح کے تھے ،

آپ کے ایک قریبی ساتھی ملاداد آکا آپ کی اقتصادی حالات کے بارے میں  کہتے ہے کہ جس وقت افغانستان سے کمیونسٹ نظام کا خاتمہ ہو اتو مختلف تنظیموں  کے باہمی جھگڑوں  اور اختلافات کی وجہ سے آپ اپنے گھرپر کچھ کمانے کیلئے بیٹھ گئے ،

آپ نے اپنی پوری زندگی جہاد کے محا ذپر گزاری ،اوراپنی ذاتی فائدے کیلئے کچھ نہیں  کیا ،اور نہ ہی بیت الما ل سے آپ نے کوئی ناجائز فائدہ اٹھا یا ،حالانکہ آپکو ایسے سخت معاشی حالات کا سامنا تھا کہ اکثر اوقات روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مجھ سے قرض لیتے تھے ۔

شہادت:
آخر کا ر یہ جوان مرد ،بہادر ،اخلاص کا پیکر اوروفادار ،تجربہ کارمجاہد ملا امین اللہ بورجان بدھ کے روز عصر کی چار بجے کے

وقت بمطابق (۲۷/۹/۱۹۹۶ء  کوریشمین تنگی کی مقام پر مخالفین کے ایک راکٹ کا نشانہ بنے اوراس طرح اللہ کے راستے میں  آپنے وعدے کوپورا کرتے ہوئے شہادت کی اعلی مقام سے سرفراز ہوکراس فانی دنیا سے کوچ کرکے اللہ کے دربار میں  چلے گئے ۔(انا للہ وانا الیہ راجعون)

اللہ تعالی آپ کی روح کو خوشی سے سرشار رکھیں  ،اورجنت الفردوس کو آپ کا ٹھکا نہ بنائیں  ۔