ملا عبدالمنان احمد شہید

تاریخِ اسلام اُن قائدین کی عظیم داستانوں سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے کم عمری میں اسلام کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کارناموں پر رہتی دنیا تک فخر کیا جاتا رہے گا۔ ہماری زرین تاریخ میں معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما اور محمد بن قاسم رحمہ اللہ جیسے جانثار قائدین […]

تاریخِ اسلام اُن قائدین کی عظیم داستانوں سے بھری پڑی ہے، جنہوں نے کم عمری میں اسلام کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کارناموں پر رہتی دنیا تک فخر کیا جاتا رہے گا۔ ہماری زرین تاریخ میں معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما اور محمد بن قاسم رحمہ اللہ جیسے جانثار قائدین کی مثالیں موجود ہیں۔ موجودہ زمانے میں بھی ایسے قابل فخر نوجوان قائدین موجود ہیں، جنہوں نے اپنی قربانیوں سے تاریخ رقم کی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ افغانستان پر امریکی یلغار کے بعد اس کے خلاف مزاحمتی تحریک کا بوجھ ہمارے نوجوانوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہے۔ یہ وہی نوجوان تھے، جو امریکی ٹیکنالوجی اور لاکھوں افواج کے خلاف مقابلے کے لیے سینہ تان کر میدان میں کود پڑے۔  انہوں نے بڑی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔ استعماری قوتوں پر فدائی اور گوریلا حملوں کے ذریعے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ آج ایسے ہی ایک نوجوان کا تذکرہ کرتے ہیں۔

ملا عبدالمنان احمد شہید :

ملا عبدالمنان احمد کے والد کا نام محمد واصل ہے، جب کہ اُن کے دادا کا نام حاجی دین محمد ہے حسین خیل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1403 ھ میں کابل کے ضلع موسہی میں پیدا ہوئے۔ آبائی علاقہ حاجی خیل گاؤں ہے ۔ ملا عبدالمنان کی پیدائش کے وقت افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کا دور دورہ تھا۔ وہ اس وقت پیدا ہوئے، جب کمیونزم کے خلاف جہاد زور و شور سے جاری تھا۔ افغانستان کے ہر گاؤں اور ہر علاقے میں شدید جھڑپیں جاری تھیں۔ موصوف اسی انقلابی ماحول میں پلے بڑھے۔ اس لیے بچپن سے ان کے دل و دماغ میں جہاد کا جذبہ اور ولولہ موجود تھا۔

 

دینی تعلیم

انہوں نے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا اور تیسری جماعت پاس کرنے کے بعد چھ سال کی عمر میں دینی علوم کا آغاز کیا۔ فقہ  اور دیگر علوم اپنے دادا اور علاقے کے مختلف علمائے کرام سے حاصل کیے۔ امارت اسلامیہ کے دورِ حکومت میں کابل میں شہید ملا معاذ اللہ اور شہید ملا بورجان رحمہما اللہ کے مدرسوں میں دینی علوم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعدازاں انہوں نے صوبہ ننگرہار میں معروف جہادی مدرسہ دارالعلوم صدیقیہ میں بقیہ تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے افغانستان اورپاکستان کے مختلف مدارس میں حصول کا سلسلہ جاری رکھا۔ قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقےشاہ منصور صوابی  میں شیخ القرآن مولانا نور الہادی صاحب سے پڑھی۔

جہادی زندگی

ملا عبدالمنان احمد نے پہلی بار تب جہاد میں حصہ لیا، جب وہ ننگرہار کے جہادی مدرسے میں زیرِتعلیم تھے۔ امارت کے دورِحکومت میں افغانستان کے مختلف علاقوں اور صوبوں میں جہادی مدارس قائم کیے گئے تھے، جن میں ایسے طالب علم زیر تعلیم تھے، جو جہاد میں بھی حصہ لیتے تھے۔ جن کی قیادت قندھار کے جہادی مدرسے کے نگران قاری فیض محمد سجاد شہید کرتے تھے۔ ملا عبدالمنان شہید نے پہلی بار امارت اسلامیہ کے دورِحکومت کے دوران 19 سال کی عمر میں سجاد شہید کی قیادت میں صوبہ تخار جا کر جہاد میں حصہ لیا۔ جب امریکا نے افغانستان پر یلغار کی تو دیگر ہزاروں مجاہدین کی طرح ملا عبدالمنان احمد بھی ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ وہ قبائلی علاقے میں جا کر دینی علوم کے حصول اور جہاد میں مصروف عمل ہو گئے۔ انہوں نے اس بار صوبہ خوست میں جہاد شروع کیا اور دیگر مجاہدین کے ساتھ مل کر خوست کے شہر توپچی پاٹک اور ضلع باک میں امریکا کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لیا۔ چوں کہ انہوں نے زمانہ طالب علمی کے دوران خوست کے انہی علاقوں میں تعلیم حاصل کی تھی، اس لیے وہ یہاں سے واقف تھے۔ انہوں نے پہلے گوریلا اور بعد ازاں بڑے حملوں میں حصہ لیا۔ ملا عبدالمنان احمد نے اپنی صلاحیت کے پیش نظر جہادی گروپ تشکیل دیا، جس میں ان کی قیادت میں گیارہ مجاہدین نے حصہ لیا، جو ان کے اپنے علاقے کے دوست تھے۔ بعد ازاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیااوریہ تعداد سیکڑوں تک پہنچ گئی۔ انہوں نے ملک کے ممتاز جہادی رہنما مولوی جلال الدین حقانی صاحب کی قیادت میں امارت اسلامیہ کے پلیٹ فارم سے جہادی خدمات انجام دینا شروع کیں۔

امریکی حملے کے بعد ابتدائی سالوں میں جنوبی افغانستان کے قریب وزیرستان کے قبائلی سرحدی علاقوں میں مجاہدین نے خفیہ جہادی مراکز قائم کیے اور یہاں سے سرحدی علاقوں میں غیرملکی حملہ آوروں کے ٹھکانوں اور گشت کرنے والے اہل کاروں پر جارحانہ حملوں کا آغاز کیا۔ ملا عبدالمنان احمد جہادی حملوں کے اُن ابتدائی شرکاء میں تھے، جنہوں نے بٹی، مٹی کنڈو، لواڑہ، منگڑیتی، مبنی کنڈو، ترخوبی اور دیگر سرحدی پہاڑی علاقوں میں امریکیوں اور ان کی کٹھ پتلیوں پر شدید حملے کیے تھے۔

ملا عبدالمنان احمد صوبہ خوست کی بیشتر جہادی کارروائیوں میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شریک ہوتے تھے۔ انہوں نے خوست کے ضلع قلندر اور پکتیا کے ضلع جانی خیل کو فتح کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ صوبہ خوست کے ضلع علی شیر کو فتح کرنے کی کارروائی میں بہت سے مجاہدین شریک تھے۔ یہ ملا عبدالمنان کا ایک عظیم کارنامہ تھا، لیکن انہوں نے اس عظیم فتح پر اس لیے خوشی کا اظہار نہیں کیا کہ فتح کے بعد امریکی فوجیوں نے خوست میں شدید بمباری کی، جس میں دیگر دس مجاہدین کے علاوہ ان کے دست راست اور دلیر مجاہد ساتھی ملا مصطفی بھی شہید ہوگئے تھے۔ 2007 میں امریکی فوجیوں نے انہیں صوبہ خوست میں ایک اچانک حملے کے دوران حراست میں لے کر بگرام جیل منتقل کر دیا۔ وہ 8 دن اس جیل میں قید رہے۔ امریکی فوجیوں نے ان سے تفتیش کی،  لیکن تمام تر مصائب اور تشدد کے باوجود انہوں نے اعتراف نہیں کیا کہ وہ ’ملا عبدالمنان‘ ہیں۔ 8 دن کے بعد  اللہ کے فضل سے رہا ہو کر دوبارہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل گئے۔

انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد صوبہ پکتیا کے شواک اور سٹوکنڈو کے پہاڑی علاقوں میں جہادی محاذ کو فعال کرنے پر کام شروع کیا۔ یہ علاقہ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران ملک کی معروف جہادی شخصیت مولوی جلال الدین حقانی کا مضبوط جہادی مرکز تھا۔ اس بار ان کی قیادت میں ملا عبدالمنان احمد اور دیگر سیکڑوں مجاہدین نے یہاں سے غیرملکی حملہ آوروں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا  تھا۔ 1386

ھ میں موسم بہار اور موسم گرما میں ملا عبدالمنان احمد اور ان کے 400 ساتھیوں نے پکتیا کے سٹوکنڈو اور گرد و نواح کے علاقوں میں امریکی حملہ آوروں کے خلاف سیکڑوں حملے کیے، جن میں بم دھماکے، گھات لگا کر کیے گئے حملے، گولہ باری اور فدائی حملے شامل ہیں۔ ان کارروائیوں سے دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچا تھا۔ انہوں نے ان فاتحانہ حملوں کی ویڈیو بنا کر عوام کے سامنے ثابت کیا کہ امریکی ٹینکوں کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ انہیں راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور اور ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ ان کی مستند ویڈیوز نے نہ صرف مجاہدین کے حوصلے بلند اور دشمن کے پروپیگنڈے کا سدباب کیا، بلکہ عام میڈیا پر بھی بڑا ہنگامہ برپا کر دیا۔ یہاں تک کہ الجزیرہ ٹی وی چینل اور دیگر بین الاقوامی ٹی وی چیلنز نے ان ویڈیوز پر تبصرہ کیا۔ ان ویڈیوز نے جاری جہاد میں اہم کامیابی کے علاوہ نفسیاتی جنگ میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

 

کچھ یادگاریں

ملا عبدالمنان کے مدرسے کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک مخلص اور سنجیدہ انسان تھے۔ مدرسے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نیک سلوک، اساتذہ کا احترام کرتے اور وقت کے ضیاع سے خود کو بچانے جیسی صفات کے حامل تھے۔ ان کے جہادی دوست کہتے ہیں کہ وہ صبر، استقامت اور برداشت کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس لیے وہ تکالیف برداشت کر سکتے تھے۔ وہ ایک بار مجاہدین کے ساتھ لواڑہ سرحدی پہاڑ کے خطرناک راستوں پر کارروائی کے لیے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک ساتھی کو دیکھا، جس کے جوتے پھٹنے کی وجہ سے وہ مشکل سے چل پا رہا تھا۔ انہوں نے فورا اپنے جوتے اس کو دے دیے اور خود اس کے پھٹے ہوئے جوتوں میں سفر شروع جاری رکھا۔ امریکیوں کے خلاف جہاد کے ابتدائی برس تکالیف اور مشکلات کےلحاظ سے سخت ترین دور تھا۔ مجاہدین مالی لحاظ سے بہت کمزور تھے۔ غربت اور افلاس کی وجہ سے مجاہدین آزمائشی دور سے گزر رہے تھے، لیکن ملا عبدالمنان نے ان مشکل حالات میں بھی جرأت اور جواں مردی سے مقابلہ جاری رکھا۔ ایک بار قبائلی علاقوں میں حالات خراب ہوگئے تو انہوں نے اپنے مرکز کے مجاہدین کو قرآن پاک کا ترجمہ حاصل کرنے کے لیے ایک مدرسے میں بھیجا اور خود چھ ساتھیوں کے ہمراہ لواڑہ جہادی علاقہ کی طرف چلے گئے۔ ان کی جیب میں اس وقت صرف چار ہزار روپے تھے۔ انہوں نے اس رقم سے وہاں کافی عرصہ گزارااور اس رقم سے مجاہدین کے اخراجات اور دیگر جہادی ضرورتیں پوری  کیں۔

ملا عبدالمنان ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ مجاہدین اسباب و وسائل کے بجائے اللہ پر بھروسا رکھیں۔ کیوں کہ امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد نے محض اللہ تعالی پر توکل اور بھروسے پر جہاد شروع کیا تھا۔ اس لیے اللہ نے انہیں عظیم کامیابی عطا کی۔ جب اس تحریک کو توکل پر شروع کیا گیا تھا تو اسے بھولنا نہیں چاہیے۔

ملا صاحب علمائے کرام اور دینی مفکرین کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ہر جہادی معاملے میں ان کے ساتھ مشاورت کرتے تھے۔ انہوں نے کئی بار مدرس علمائے کرام کو اپنے مرکز پر بلایا، تاکہ وہ مجاہدین کو تبلیغ اور نصحیت کریں۔ جہاد کے احکام اور مسائل سکھائیں۔ جن علمائے کرام نے ان کے مرکز کا معائنہ کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ ان کے مرکز کے مجاہدین الگ خصوصیات رکھتے تھے۔اصلاح، اخلاص اور دیانت کے لحاظ سے ان کی خصوصیات قابل ذکر ہیں۔

شہادت

ملا عبدالمنان احمد نے 27 اکتوبر 2007 کو عصر کے وقت پکتیکا کے سرحدی علاقہ لواڑہ میں امریکی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کیا۔ انہوں نے آخری دن بھی امریکی فوجیوں کے ساتھ بہت بہادری سے مقابلہ کیا۔ چند امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد خود بھی جام شہادت نوش کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملا عبدالمنان شہید ایک جہادی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے دو بھائی شہید امیر گل اور شہید نور محمد نے بھی اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ قبائلی علاقے میران شاہ میں ادا کی گئی، جس میں ہزاروں مجاہدین اور مہاجرین نے شرکت کی۔ چند روز قبل جیل سے رہا ہونے والے معروف مجاہد اور ممتاز مبلغ استاد محمد یاسر نے جنازہ کے موقع پر دل نشین خطاب کیا۔

مجاہد رہنما ملا عبدالمنان احمد کے جسد خاکی کو ہجرت اور جہاد کی اسی سرزمین میں دیگر شہداء کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین