کابل

ملک بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں

ملک بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں

 

رپورٹ: سیف العادل احرار

کابل سمیت افغانستان کے بڑے شہروں میں 83 ہزار سے زائد منشیات کے عادی افراد کو جمع کرنے کے بعد اب منشیات کی تقسیم و فروخت کا نیٹ ورک امارت اسلامیہ کے نشانہ پر ہے۔

وزارت داخلہ کی انسداد منشیات کے ادارے کے حکام کے مطابق کابل سمیت دیگر شہروں سے جمع کیے گئے عادی افراد سے منشیات کی فروخت کے نیٹ ورکس کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کی گئی ہیں۔

کابل کے علاقے پل سوختہ اور اس کے ارد گرد سرائے شمالی، نادر خان پہاڑی، چیلستون، دیہ دانہ، واصل آباد، قمبر چوک، کمپنی اور کچھ دیگر علاقے منشیات کی فروخت کے اہم علاقوں کے طور پر جانے جاتے تھے۔
متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اب تک دارالحکومت کابل اور کئی دوسرے صوبوں سے منشیات کی اسمگلنگ اور فروخت کے الزام میں 5 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر چکے ہیں اور ان کے مطابق منشیات کا نیٹ ورک ختم ہو رہا ہے۔

نشہ کے ایک عادی شخص محمد داود جو سرکاری ہپستال میں زیر علاج ہے، نے منشیات تک آسان رسائی سے متعلق ماضی کے حکام پر تنقید کی اور کہا کہ ماضی میں حکمرانوں نے منشیات کے خلاف مہم کے نام پر کروڑوں روپے کرپشن کی نذر کئے تاہم انسداد منشیات کے لئے صحیح معنوں میں کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جس کے باعث ملک بھر میں لاکھوں افراد اپنی زندگیاں برباد کر گئے ہیں۔
انہوں نے منشیات کے عادی افراد کے علاج کے حوالے سے حکومت کے اقدامات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منشیات کے عادی افراد کو گرفتار کرنا ایک اچھا اقدام ہے، لیکن اگر منشیات کا خاتمہ نہ کیا گیا تو اس کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ ایک بار جب عادی شخص آزاد ہو جاتا ہے تو وہ واپس نشہ شروع کرتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ منشیات فروشوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

بہت سے لوگوں نے ماضی میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ منشیات کی فروخت کے اڈے معلوم ہیں پھر حکام کی جانب سے ان کے خلاف ضروری اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے ہیں؟
کابل کے علاقے سید نور محمد شاہ مینہ سے ایک شخص، جس کو منشیات کے علاج سینٹر لایا گیا ہے، نے کہا ہے کہ پہلے سفید داڑھی والے منشیات فروخت کرتے تھے، بلکہ بہت سارے علاقوں میں سڑکوں پر کھلم کھلا نوجوان منشیات بیجتے تھے لیکن جب سے حکومت نے ان کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا ہے تو شہر میں اب منشیات کی فروخت کم ہو گئی ہے اور مواد کا ملنا مشکل ہے۔
ہزار بستروں پر مشتمل منشیات کے علاج کے ہسپتال کے نفسیاتی اور سماجی امور کے مشیر میوند ہوشمند جنہوں نے علاج کے دوران سینکڑوں منشیات کے عادی افراد سے بات کی ہے، نے کہا کہ مختلف علاقوں میں منشیات کے فروخت کرنے کے عجیب طریقے ہوتے تھے۔

ان کا کہنا ہے سرائے شمالی میں بزرگ لوگ اور نوجوان مواد تقسیم کرتے تھے، کچھ لوگ کمپنی اور قمبر چوک کے علاقوں میں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں اس کام میں ملوث تھے، کرتہ نو تپہ میں بچوں کو استعمال کیا جاتا تھا، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سب منشیات فروخت کرنے کے جرم میں شریک تھے۔

حکومت کے متعلقہ ادارے نے اب کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں منشیات کی فروخت اور تقسیم کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے ہیں، حکام کے مطابق اب تک منشیات کی فروخت، تقسیم اور اسمگلنگ میں ملوث پانچ ہزار سے زائد افراد گرفتار ہو چکے ہیں۔
انسداد منشیات کی وزارت کا کہنا ہے کہ جن منشیات کے عادی افراد کو ہسپتال لے جایا گیا تھا ان سے ان نیٹ ورکس کی مکمل معلومات حاصل کر لی گئی ہیں۔

ایک اور نشے کے عادی شخص جسے ہزار بیڈیڈ ہسپتال میں زیر علاج ہے، کا کہنا ہے کہ نشے کے عادی افراد کو جمع کرنے اور منشیات فروشوں کے خلاف سخت اقدامات کے بعد منشیات کا ملنا مشکل ہو گیا ہے۔
ان کے مطابق دس دن پہلے جب میں باہر تھا تو میں نے سوچا کہ اگر امارت اسلامیہ نے منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاون اسی طرح جاری رکھا تو ایک یا دو ماہ میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد صفر تک کم ہو سکتی ہے کیونکہ اب منشیات فروش چھپ کر نشے کے عادی افراد کو تلاش کرتے ہیں لیکن انہیں لینے والا کوئی نہیں مل رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب منشیات فروش اور خریدار دونوں ایک دوسرے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں حکومت ان کو گرفتار نہ کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک مجھے علم ہے، کارتہ نو پہاڑی، قمبر چوک، مہاجر کیمپ، دشت برچی اور قلعہ نو پل کے علاقوں میں منشیات کی فروخت کا کام بلکل ختم ہوچکا ہے، اسی طرح اب کوئی بھی واصل آباد نہیں جاتا کیونکہ جو بھی وہاں جاتا ہے اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سابقہ دور میں ان تمام علاقوں میں سرعام منشیات فروخت کرنے کا کاروبار ہورہا تھا لیکن اب ہم کابل کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گاڑی میں مواد تلاش کرنے جاتے ہیں۔

وزارت داخلہ کے حکام کے مطابق بعض علاقوں میں خاندان کے تمام افراد، باپ، بیٹا، بیٹی اور بیوی منشیات کی تقسیم اور فروخت میں ملوث تھے۔ کئی علاقوں میں منشیات کی فروخت خاندانی کاروبار بن چکی تھی۔

ان کے مطابق جمع کیے گئے نشے کے عادی افراد میں سے نصف سے زائد منشیات کی تقسیم اور فروخت میں ملوث تھے اور اب انہیں مجرم تصور کیا جاتا ہے۔ فیصلہ یہ ہے کہ علاج کے بعد ان لوگوں کو ان کے جرم کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے گا اور ان پر ان کے جرم کے مطابق مقدمہ چلایا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ منشیات کے عادی افراد کی گرفتاری کے بعد ان تمام علاقوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے جہاں منشیات فروخت ہوتی ہے اور اب وہاں پر کارروائیاں جاری ہیں۔

سب سے پہلے ہم نے نشے کے عادی افراد کو اکٹھا کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا اور ان سے پوچھا کہ منشیات کون اور کہاں فروخت کرتے ہیں، ان کی معلومات کی بنیاد پر ہم نے آپریشن شروع کیا اور منشیات فروشوں کو گرفتار کیا، اب تک تقریباً 4000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ افغانستان بھر میں منشیات کی اسمگلنگ اور فروخت کے لیے اور منشیات کے عادی افراد کی پکڑ دھکڑ کے بعد صرف کابل میں ایک ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور مجموعی طور پر ملک بھر میں 5 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، ان کے خلاف آپریشن تاحال جاری ہے اور اسمگلروں اور منشیات کے ڈیلرز کو آئے روز گرفتار کیا جاتا ہے۔

عوامی حلقوں نے امارت اسلامیہ کے ان اقدامات پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ وہ کابل سمیت ملک بھر میں نہ صرف منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گی بلکہ منشیات کے عادی افراد کے علاج و معالجہ پر بھی خصوصی توجہ مرکوز رکھے گی جس سے ہزاروں اجڑے گھر دوبارہ آباد ہونے کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں اور ایک حکومت کا نہایت مستحق اقدام ہے جس کو ہر طرف سے سراہا جاتا ہے۔