مولوی امین اللہ امین شہیدرحمہ اللہ کی یاد میں

نعمت اللہ نعمت ،عطاء اللہ مجاہد حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺخندق کی طرف تشریف لے گئے وہاں مہاجرین اور انصار سخت سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے ان حضرات کے پاس غلام نہیں تھے جوان کا یہ کام کر دیتے حضور ﷺ نے ان کی اس تھکاوٹ اور بھوک کو دیکھ […]

نعمت اللہ نعمت ،عطاء اللہ مجاہد

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺخندق کی طرف تشریف لے گئے وہاں مہاجرین اور انصار سخت سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے ان حضرات کے پاس غلام نہیں تھے جوان کا یہ کام کر دیتے حضور ﷺ نے ان کی اس تھکاوٹ اور بھوک کو دیکھ کر یہ شعر پڑھا

اللهم لا عیش الاعیش الآخره-

فاغفرالانصار و المها جرَ
ترجمہ:اے اللہ اصل زندگی تو آخرت کی ہے ان انصاراور مہاجرین کی مغفرت فرما ۔

نحن الذین بایعوا محمد ا – علی الجهاد مابقینا ابدا

ترجمہ:      ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضورؐسے اس بات پر بیعت کی ہے کہ جب تک ہم زندہ رہیں گے جہادکرتےرہیں گے۔

صحابہ کرامؓ کا اللہ کے راستے میں مرنے اور جا ن دینے کا شوق :

حضرت سلیمان بن بلالؓ فرماتے ہیں کے جب حضورؐبدر کے لئے تشریف لے جانے لگے تو حضرت سعد بن خشیمہؓ اور ان کے والد حضرت خشیمہؓ دونوں نےحضور ﷺ کے ساتھ جانے کا ارادہ کیا چنانچہ حضورﷺکے سامنے اس کا تذکرہ ہوا تو آپؐ نے فرمایا دونوں میں سے ایک جائے دونوں قرعہ اندازی کریں حضرت خشیمہ بن حا رثؓ نے اپنے بیٹے سعد سے کہا کہ اب ہم دونوں میں سے ایک کا رہنا یہاں ضروری ہو گیاہے لہذاتم اپنی عورتوں کے پاس ٹھرجاؤ حضرت سعدؓ نے کہاکہ اگر جنت کے علاوہ کوئی اورچیز ہوتی تو میں آپ کو اپنے سے آگے رکھتا۔میں اپنے اس سفر شہادت کی امید لگا ئے ہوئے ہوں چنانچہ دونوں نے قرعہ اندازی کی جس میں حضرت سعدؓ کا نا م نکل آیا چنانچہ حضرت سعدؓ حضور ﷺ کے ساتھ بدرگئے اورعمروبن عبد کے ہاتھوں شہید ہوگئے ۔

حضرت محمد بن علی بن حسینؓ فرماتے ہیں کہ جنگ بدرکے دن عتبہ نے اپنے مقابلہ کے لئے (مسلمانوں کو )للکارا تو حضرت علی بن ابی طالبؓ ولید بن عتبہ کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے ،یہ دونوں نو جوان جسم اورطاقت میں برابر تھے۔ راوی نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ہتھیلی کو زمین پر گرادیا پھرالٹاکربتایاکہ اس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولید کو قتل کرکے زمین پرگرادیا۔ ان  دونوں  کی جوڑی برابرتھی اوراس دفعہ پہلے سے بھی زیادہ اونچا اشارہ کرکے بتایا کہ حضرت حمزہ نے شیبہ کو قتل کرکے زمین پرگرادیا پھر کافروں کی طرف سے عتبہ بن ربیعہ کھڑا ہوا اس کے مقابلہ کے لئے حضرت عبیدہ بن حا رثؓ اٹھے وہ دونوں ان دو ستونوں کی طرح تھے ،دونوں نےایک دوسرے پر تلوار کے وار کئے چنانچہ حضرت عبیدہؓ نے عتبہ کو اتنے زورسے تلوار ماری کہ اس کا بایاں کندھا لٹک گیا پھرعتبہ نے قریب آکرحضرت عبیدہؓ کی ٹانگ پرتلوارسے حملہ کیاجس سے ان کی پنڈلی کٹ گئی یہ دیکھ کرحضرت حمزہؓ اورحضرت علیؓ دونوں عتبہ کی طرف لپکے اوراس کا کام تمام کردیا اوروہ دونوں حضرت عبیدہؓ کو اٹھاکرحضور ﷺ کی خدمت میں لے آیئ۔حضور ﷺ نے انہیں لٹایا اوران کا سر اپنی ٹانگ پررکھااورانکے چہرے سے گردوغبار صاف کرنے لگے ،حضرت عبیدہ ؓ نے کہایا رسول اللہ ﷺ، اللہ کی قسم اگر ابو طالب مجھے اس حال میں دیکھ لیتے تو وہ یقین کرلیتے کہ میں ان کے شعر کاان سے زیادہ حقدار ہو (جو انہوں نے حضور ﷺ کی حمایت میں کہاتھا)

ونسلمہ حتی نصرع حولہ                   وند ھل عن ابنا ئناوالحلائل

تر جمہ:ہم اپنے بیوی،بچوں سے غافل ان کی حفاظت میں آخردم تک لگے رہیں گے یہاں تک کہ ہم زخمی ہوکران کے اردگردزمین پر پڑے ہو ئے ہوں گے (اورساتھ ہی یہ عرض کیا)کیامیں شہید نہیں ہوں ؟آاپؐ نے فرمایا بے شک تم شہید ہو اورمیں تمہاراگواہ ہوں پھرحضرت عبیدہؓ کاانتقال ہوا۔ حضور ؐ نے وادی صفراء میں ان کی تدفن کی اور اپؐ ان کی قبر میں اترے اور (اس سے پہلے ) آپ ﷺ کسی اورکی قبرمیں نہیں اترےتھے ۔

اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ شہداء کی قربانیوں سے بھری ہوئی ہے تاریخ کا ہرصفحہ ان کے پا کیزہ خون سے معطرہے عالم اسلام کے ان جری سپوتوں نے ہمیشہ شجراسلام کو اپنے خون سے سینچااوراس چمن کی آبیاری اپنے خون سے کی جب بھی عالم اسلام پر ملت کفر کی یلغار ہوئی نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی سر زمین تک تاریخ کے ہرعظیم المرتبہ لو گ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے،حجاز سے لے کرفارس اورشام سے لے کر خراسان اور پھرمغرب ادنی تک شہداء اور غازیوں کے قا فلے ہرجگہ اپنے دین متین کی سربلندی کے لئے پہنچے اورہرسرزمین پرقربانیوں کی وہ لا زوال داستانیں رقم کیں کہ صدیاں گزرنے بعد بھی وہ تاریخ کے لئے قابل فخرسرمایہ ہے ان کا نام لیتے ہوئے آج بھی امت مسلمہ احساس ممنونیت سے سرجھکا تی ہے ان کے تذکرے آج  بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔ان کاتذکرہ کرنےسے روح کو آسودگی اورجذبہ جہادکوتقویت ملتی ہے، انہی شہداء کا احسان ہے کہ آج ہم دنیا میں سراٹھانے کے قابل ہیں، کوئی پوچھے تو کہہ سکتے ہیں  کہ ہماری تاریخ میں عمربن خطاب رضی اللہ عنہ حیدر کرار رضی اللہ عنہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نورالدین زنگی رحمہ اللہ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ محمودغزنوی رحمہ اللہ عمرمختار اور سیداحمدرحمہم اللہ شہیدجیسے ہزاروں بہادرلوگ اس دنیامیں ایساکرداراداکرچکے ہیں جن کے کارنامے پڑھ اور سن کر عقل دنگ اور زبان گنگ ہو جاتی ہے،تاریخ میں ان کے تذکرے ہمیشہ تازہ رہیں گے .

افغانستان بھی ہمیشہ سے شہداء اورغازیوں کا مسکن رہا ہے۔ اس مردم خیزمٹی نے اپنے دین اوروطن کوایسے جری سپوت دیے جنہوں نے دین اوروطن کی پاسبانی کی خاطر اپنا مال ،تن اوراولاد سب داوپر لگادیا۔ اس زرخیز مٹی نے ایسے جوہرپیدا کئے جنہوں نے ہردورکے سامراج کو منہ کے بل گراکر دنیاکوان کےشرسے نجات دلائی، ہرجابرطاغوت نے اس دھرتی کواپنے زیرکنٹرول لانے کی کوششں کی لیکن ہرایک کو منہ کی کھانی پڑی.

آج ایک بارپھرعالم کفرہمارامدمقابل ہے،امریکی قیادت میں ۴۸ممالک سینوں پرصلیب کانشان سجاکرہماری سرزمین پرقابض ہوچکے ہیں،ایک بارپھروہی منظرہے،شہداء اورغازیوں کے قافلے جارہے ہیں،ولولہ آنگیزترانوں،جہادی اشعاراورحدی خوانیوں کادوردورہ ہے،فضاتکبیرکی آوازسے گونج رہی ہے،بارونق چہروں کےباکردارغازی ایک بارپھرکفرکے مدمقابل صف آراء ہیں،میدان کارزارگرم ہے،مقتل گاہ سج چکی ہے اورزمیں سے فلک تک فرشتے قطاردرقطارکھڑے ہیں اورشہداء کی پاکیزہ روحوں کوساتھ لیکرعلیین کی جانب بڑھ رہے ہیں، مسلسل قربانیوں،جدوجہد اورانتھک  محنت کانتیجہ ایک بارپھرسامنے آگیاہے،امریکہ اپنےاتحادیوں سمیت ہرگزرتے دن کے ساتھ شکست کی جانب گامزن ہے،پوری دنیاافغان کوہساروں کے درمیان سپرپاورکو زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔

ذیل میں ہم ایک ایسے شہیدکاتعارف وتذکرہ کریں گے جنہوں نے سامراج کے خلاف جنگ لڑی اورپانچ سال امریکہ کے بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے،بگرام اورقندہارکے عقوبت خانوں میں قیدکاٹی اوربالآخراسی جدوجہدمیں اپنی جان کانذرانہ بھی پیش کردیا۔

تعارف :

شہیدمولوی امین اللہ( امین )عبدالغفورکے برخورداراورشہیدمولوی عبدالحمیدکے بھتیجے تھے،تعلق اچکزی قبیلے سے تھااورقندهارکے ضلع سپین بولدک کےمرکزملک سیدمحمدکے گاؤں میں 1968ء میں ایک دیندارگھرانے میں آنکھ کھولی،بچپن سے ان کے ماتھے پرسعادت مندی کے علامات نمایاں تھے اورساتھیوں میں امین اورنیک انسان کے اوصاف سے مشہورتھے۔

تعلیم وتربیت :

مولوی امین اللہ امین نے ابتدائی تعلیم کاآغازاپنے محلے کی مسجدمیں اپنے چچاشہیدمولوی عبدالحمیدسے کیا،اس وقت مولوي صاحب روس کے ایجنٹ ڈاکٹرنجیب کی کمیونیسٹ حکومت کے خلاف صوبه قندهارکے مرکزی علاقوں،دوردرازاضلاع اوربالخصوص سپین بولدک میں ملاشفیع اخند کے محاذ پرشریک جہادتھےاو اس کے بعدهرج ومرج (باہمی جنگ )کے دورمیں وہ پاکستان چلے گئے جہاں صوبہ بلوچستان کے مختلف مدارس میں زیرتعلیم رہ کرعلم حاصل کیااورآخری سال میران شاہ میں مدرسہ منبع العلوم میں داخلہ لیاجس کی بنیادمجاہداعظم حضرت مولوی جلال الدین حقانی نے سوویت یونین کے خلاف افغان جہادکے دوران رکھی،اس مدرسے سے ہزاروں طالب علم  اپنے سروں پر دستارفضیلت سجاچکے ہیں۔مولوی امین شہیدنے1991میں درس نظامی سے فراغت کے بعداپنےعلاقے میں حافظ عبدالظاهرکے مدرسے میں تقریبادوبرس تک درس وتدریس کی خدمات انجام دیں اور اس کے بعدجب امیرالمؤمنین ملامحمدعمرمجاہدنے فساد اورلاقانونیت کے خلاف تحریک طالبان کے نام سے سپین بولدک سے تحریک کاآغازکیاتوانہوں نے بھی اس معرکے میں بھرپورحصه لیااوراس وقت وه واحدشخص تھے جوپہاڑی توپ چلانا جانتے تھے ،اس لڑائی میں انہوں نےاس سےفائدہ اٹھایااورآخرکارمجاهدین نے بولدک پرکامیابی کے جھنڈے گاڑدیئے،امیرالمؤمنین کی آواز پرجہادی سرگرمیاں شروع کیں جذبہ جہاد اورشوق شہادت کی یہ حالت تھی کہ جب بھی مجاہدین کسی جگہ پرحملہ کرتے تو وہ اس میں ضرورشریک ہوتے بالاآخردرس وتدریس کاسلسلہ ہی چھوڑدیا اورامیرالمؤمنین کی قیادت میں پیش قدمی کرتے ہوئے جہادکاعظیم فریضہ انجام دینے کے لئے کمربستہ ہوگئے ۔ قندهار فتح هواتوانہوں نےشهیدمولوی عبدالمنان اورشهید مولوی عبدالحمیدکی مشاورت سےرمضان المبارک کے بعداپنے علاقے کے مجاهدین کی قیادت سنبھال لی،هرات فتح کرنے تک یہیں رہے اس کے بعدوہ مولوی عبدالمنان شهید کے ساتھ صوبہ بادغیس،صوبہ سرپل اورصوبہ سمنگان میں انتظامی معاون کی حیثیت سے ذمہ داری نبھاتے رہے۔ پھرانہوں نے صوبه بامیان کی پہلی لڑائی میں ایک محاذ کی قیادت سنبھالی اوراس کے بعدمزارشریف میں جنرل مالک کے دورمیں مخالفین نے گرفتارکرکے جیل میں ڈالا۔

مولوی عبدالمنان اوردیگرسینئرساتھیوں نے انہیں جیل سے رہاکرنے کیلئے ایک حیرت انگیزاورکامیاب منصوبہ بنایااوراس پرعمل کرنے سے دشمن کی قیدسے بحمدالله تعالی آزاد هوکر بخیروعافیت کابل پہنچے اورقیدوبند کی صعوبتیں اورجنگ میں  زخمی ہونے کی بھی سعادت حاصل کی بالآخرجب اللہ تعالی نے امیرالمؤمنین کی قیادت میں امارت اسلامیہ کومزیدمقبولیت عطاکرکے اہم کامیابیاں نصیب دلائیں تو امین شهیدکوجنوب مغربی صوبوں کی سطح پرسرحدات کاقلمدان سپردکیا،انہوں نے طالبان کے دور حکومت میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ جن میں بامیان بتوں کوتوڑنا بھی شامل ہے جب امریکہ اوراس کے اتحادیوں نے 2001ء میں دنیا کے واحداسلامی نظام حکومت”امارت اسلامیہ” کو ختم کرنے کیلئے حملہ کیاتومولوی امین اللہ امین ڈٹے رہے اورپھرملامحمدعمرمجاہدکے اس حکم پر پیچھے ہٹے کہ ہم نے حکومت چھوڑدی لیکن جہادسے دستبردارنہیں ہوئے۔ اورپھرجہادی سرگرمیوں میں حصہ لیا بالآخر منافقوں کی منا فقت اور کافروں کی مکارانہ کوششوں کے نتیجے میں گرفتار ہو گئےاور بگرام جیسے خونی کیمپ سے ہوتے ہوئے کیمپ ایکسرے ،ذیلٹاکیمپ ،گوانتاناموبے اور امریکہ کے مختلف عقوبت خانوں میں وقت گزارا مگرجذبہ جہاداورشوق شہادت کایہ عالم تھا کہ یہ جیلیں بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکیں ۔

قلم کے ذریعے خدمات :

موصوف علمی لحاظ سے اعلی استعدادکے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین خوش نویس بھی تھے،نسخ اورنستعلیق لکھنے میں مہارت رکھتے تھے،مضمون نویسی میں بھی وہ دلچسپی رکھتے تھے،جیل سے رہائی کےبعدانہوں نے امریکہ اوراس کے حواریوں کے وحشیانہ مظالم،غیرانسانی سلوک،قیدیوں کے بلندحوصلے،صبراورجہادکی اہمیت پرایک کتاب لکھی جس میں علاوہ ازین افغانستان میں امارت اسلامیہ کے دورحکومت اورظالموں کے خلاف جہادکے دوران ان واقعات کابھی تذکرہ شامل کیاگیاہے جس میں وہ خودشریک تھے کتاب کانام ہے”لشکردجال کی راہ میں رکاوٹ”۔

زندگی کے آخری اوقات:

رہائی کے بعد پھرجہاد کاسلسلہ شروع کردیااوراس باراتنی محنت اورکوششں اور لگن سے سرگرم ہواکہ امریکی جارحیت کے خلاف جب مزاحمت شروع ہوئی تووہ امارت اسلامیہ کی سطح پر واحدشخصیت تھی جوبم بنانے کے ماہرتھے اورمختلف طریقوں سے بم ایجادکرتے رہے،وہ شب وروزاس فکرمیں رہتے تھے کہ کس طرح امریکیوں کے ناپاک قدموں کے نیچے بارودی سرنگیں بچھاکرافغان سرزمین ان پرتنگ کرے،اسی طرح وہ افغانستان کے 33صوبوں کودھماکہ خیزموادکی فراہمی کاکام جرأتمندانہ اندازسے سرانجام دیتے رہے،مختلف صوبوں کے مجاہدین کے لئے جہادکی تربیت،اسلحے کی ٹریننگ اورنت نئے طریقے سیکھانے کے لئے کئی اہم سینٹرزفعال کئے جہاں سے ہرسال سینکڑوں مجاہدین عسکری تربیت حاصل کرتے اورپھرجہادمیں شرکت کے لئے گرم محاذوں پرتشریف لے جاتے،ملک کے مختلف علاقوں میں مجاہدین کی سہولیت کے لئے دھماکہ خیزموادکے ڈپوبنائے جن سے ضرورت کے وقت بہت جلدکام لیاجاتاتھا،جن میں ایک اہم ڈپو قندہارکے ضلع ژڑی اوردوسراننگرہارمیں واقع ہے۔

آخرکاروہ جوانمرد،بہادر،مخلص ، وفادار اورتجربہ کارمجاہد،مولوی امین اللہ (امین) اَللہ کے راستے میں شوق شہادت کاوعدہ ایفاکرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے .اناللہ واناالیہ راجعون۔

اللہ تعالی ان کی شہادت کوشرف قبولیت عطافرمائے اوراپنی جواررحمت میں جگہ دے،آمین

یادرہے کہ انہوں نے پسماندگان میں پانچ بیٹےفضل الله، ذبیح الله ،محمدعمر، اسامه اورخالداورچھ بیٹیاں چھوڑی ہیں ۔