مولوی عزت اللہ عارف شہید رحمہ اللہ کی حیات جاوداں اور کارناموں پر ایک نظر

جمع وترتیب :خبیر احمد مجاہد کاغذ  کی لوح پر یہ دمکتا نام اس عظیم شخصیت کا ہے جسے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی فکر اور مسلمانوں کا درد قدرت کی جانب سے ودیعت کیا گیا تھا ۔وہ سید جمال الدین افغانی اور مولانا عبید اللہ سندھی کی طرح مسلمانوں کے اتحاد کے لیے فقیرانہ وار […]

جمع وترتیب :خبیر احمد مجاہد

کاغذ  کی لوح پر یہ دمکتا نام اس عظیم شخصیت کا ہے جسے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی فکر اور مسلمانوں کا درد قدرت کی جانب سے ودیعت کیا گیا تھا ۔وہ سید جمال الدین افغانی اور مولانا عبید اللہ سندھی کی طرح مسلمانوں کے اتحاد کے لیے فقیرانہ وار گھومتا رہا ۔ وہ مسلمانوں کی آزادی و خودمختاری کے لیے کوشاں پرعزم قافلوں کا سالار اول اور بیک وقت علمی سیاسی اور جہادی میدانوں کا شہسوار تھا ۔ نبوی اخلاق سے مزین، چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ اور نورانیت ، پیشانی کشادہ  !ہائے وہ کتنا عظیم انسان تھا ۔ سخت تکالیف اورمصائب میں بھی صبر اور تحمل کا دامن اس کے ہاتھ سے نہ چوٹتا تھا۔

علم ، عمل ، سیاست اورجہاد کا جامع یہ شخص افغانستان صوبہ ننگرہار کے ضلع چہار دہی کا رہائشی مولوی عزت اللہ عارف شہید ہی تھا ۔جنہیں ان کے نام سے زیادہ ان کے تخلص {عارف صاحب} سے شہرت حاصل تھی ۔

مرحوم مولوی عزت اللہ عارف نور اللہ مرقدہ صوبہ ننگرہار کے  مشہور جہادی اور علمی شخصیت مولانا عبدالکافی رحمہ اللہ  کے صاحبزادے تھے ۔ ان کی پیدائش1346ھ ش سال میں ہوئی ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوں کی مسجد اور سکول میں حاصل کی ۔ اس کے بعد دورہ متوسطہ کے لیے ضلع بٹی کوٹ کے فارم غازی آباد کے سکول میں داخل ہوگئے ۔

عارف شہید کو اللہ تعالی نے بچپن ہی سے ایسے اوصاف حمیدہ سے نوازا تھاکہ دیکھنے والے آسانی سے اندازہ لگاسکتے تھے کہ یہ بچہ مستقبل میں معاشرے کی خدمت اور رہنمائی کے لیے اہل  ثابت ہوگا ۔ فارم غازی آباد کے سکول میں نہم جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد جلال آباد گئے جہاں انہوں نے  افغانستان کے عظیم تاریخی دینی مدرسہ نجم المدارس میں داخلہ لیا ۔ وہاں ابھی انہوں نے صرف ایک سال ہی پڑھا تھا کہ روس کی کٹھ پتلی انتظامیہ کی جانب سےملک کے حقانی علماء کے خلاف مظالم کا آغاز ہوگیا ۔ جس میں نجم المدارس کے جید استاد اور عارف صاحب کے قریبی رشتہ دارمولوی غلام سبحانی اپنے ساتھیوں اور دیگر مدرسین سمیت گرفتار ہوگئے ۔ دوسری طرف ان کےوالد جو اپنے علاقے کے معروف اور جید علماء میں سے تھے ان پر زندگی کا دائرہ تنگ ہونے لگا ۔ تب انہوں نے 1358 میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پڑوسی ملک پاکستان ہجرت کی  اورپاکستان کے صوبہ  خیبر پختونخوا کے مضافاتی علاقے مٹہ مغل خیل میں اپنی قوم کے ساتھ رہنے لگے ۔

دینی تعلیم :

مولوی عارف شہید کو ان کے والد مولوی عبدالکافی رحمہ اللہ نے اسلامی علوم سیکھنے کے لیے 1359ش مدرسہ دارالعلوم احناف میرزو میں داخل کروایا ۔ انہوں نے پہلے درجے کی کتابیں وہیں پڑھیں ۔ دوسرا درجہ تنگی دارالعلوم اور تیسرا درجہ پھر سے دارالعلوم احناف میں پڑھا ۔ چوتھا درجہ دارالعلوم ہدایت الاسلام تخت آباد میں پڑھا ۔ پانچویں سال کی کتب پشاور شہر کے علاقے باڑہ میں دارالعلوم ہاشمیہ میں وقت  کےمعروف علماء کرام جیسے سید قریش بابااورقاضی محمد امین سے پڑھیں ۔ بعدازاں اپنے جہادی شوق کی وجہ سے اپنے مدرسے کے طلبہ کے ساتھ طلبہ کے کمانڈر کی حیثیت سے ملک کے معروف جہادی کمانڈر مولوی جلال الدین حقانی کے محاذ پر جہاد کے لیے اپنے وقت کے گرم جہادی محاذ پکتیا سٹوکنڈو چلے گئے ۔

تکمیلی درجات دارالعلوم سعادت خان طورو میں انتہائی شوق وذوق سے مولانا غلام محبوب صاحب سے پڑھے ۔ ریاضی اور فلسفہ غزنی کے مشہور عالم دین مولانا محمد مستقیم صاحب سے پڑھیں ۔ علم میراث مردان کے علاقے بخشالی میں میراثی بابا سے پڑھی ۔ موقوف علیہ پڑھنے کے لیے پھر دارالعلوم ہدایت الاسلام تخت آباد آگئے جہاں شیخ الحدیث مولانا عنایت اللہ صاحب فاضل دیوبند اور شیخ الحدیث مولانا مطلع الانوار فاضل دیوبند سے کسب فیض کیا ۔دورہ حدیث 1989ء کو دارالعلوم حقانیہ میں اس طرح پڑھا کہ سینکڑوں طلبہ میں انہیں مسلم شریف اور ترمذی شریف کا قاری چنا گیا ۔ دورہ حدیث کے تینوں امتحانات میں اچھے نمبر اور دوسری پوزیشن حاصل کی جس میں ان کی دستار بندی انتہائی امتیازی شان سے کروائی گئی ۔

قرآن مجید کی تفسیر اور ترجمہ پختونخوا ضلع صوابی میں شاہ منصور باباجی رحمہ اللہ سے پڑھا ۔ اسی طرح حفظ قرآن کریم اپنے علاقے کے جید قاری ، قاری سید غنی صاحب سے کیا ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عارف صاحب کو ان کے قوی حافظے کی برکت سے پورا قرآن کریم تین ماہ میں یاد ہوگیا تھا۔

تدریس :

فراغت کے پہلے سال پشاور فقیر آباد میں مدرسہ رشیدیہ  میں تیسرے چوتھے اور پانچویں درجے کی کتابیں پڑھائیں ۔ اسی سال کے آخر میں سعودی عرب چلے گئے جہاں اللہ نے انہیں عمرے اور حج کی سعادت سے نوازا۔ فراغت کے دوسرے سال معروف مدرسہ امداد العلوم کے استاد کل شیخ الحدیث مولانا حسن جان مدنی رحمہ اللہ کی درخواست اور مہربانی سے انہیں اسی مدرسے میں ممتاز اساتذہ میں شامل کیا گیا جہاں انہوں نے بہت چھے انداز میں تدریس کی خدمت انجام دی ۔ تیسرے سال نمک منڈی میں قاری فیاض صاحب کے مدرسے میں انہیں تدریس کے لئے بلایاگیا ۔

جہادی وسیاسی زندگی:

شہید عارف صاحب اسلامی معاشرے کے ایک بے ریا خادم اور عملی ، جہادی اور سیاسی فکر سے مالامال شخصیت تھے ۔ کبھی سرخ روسیوں کے خلاف جہاد کے لیے گرم محاذوں پر پہنچ جاتے ۔ کبھی مسلمانوں کے درمیان وحدت اور خیر خواہی کی کوششیں کرتے رہتے ۔ ان کی بڑی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد واتفاق قائم ہوجائے اور ان کا نصب العین اور نعرہ ایک ہوجائے ۔ روس کی شکست کے بعد جب ملک میں تنظیمی جھگڑوں کا آغاز ہوا انہیں خاموش کرنے اور صلح صفائی کے لیے انہوں نے دومرتبہ سفر کیا ایک مرتبہ اتحاد علماء افغانستان کے سربراہ مولوی عبداللہ ذاکری اور دوسری مرتبہ مولوی جلال الدین حقانی کے ساتھ  ۔

انقلاب جب طویل ہوگیا اور دارلہجرت میں مہاجر کیمپوں میں فسادات رونما ہونے لگے اپنے اساتذہ کے مشورے اور ساتھیوں کے تعاون سے انہوں نے دعوتی واصلاحی تنظیم بنائی جو علماء طلباء اور مخلص مسلمانوں پر مشتمل تھی ۔ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی خدمت کیمپوں ، مساجد اور جلسوں کے دعوتی مجالس میں انجام دیتے رہے ۔

انہی اصلاحی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ افغانستان کے ہر ضلع میں اہل سنت والجماعت کے نام سے تنظیمیں بنیں  اور ہر صوبے میں علماء وطلباء نے اپنے صوبے سے فسادات کے خاتمے کے لیے دعوتی واصلاحی کوششیں شروع کردیں ۔ بالاخر اللہ تعالی نے انہی صوبائی اصلاحی کمیٹیوں کو ایک مکمل مخلصانہ جہادی تحریک کی فہم عطاکردی ۔

شہید عارف صاحب کے خاص کردار کے نتیجے میں پورے افغانستان کی سطح پر اہل سنت والجماعت اتحاد سامنے آیا ۔ اس اتحاد نے مسلمانوں اور مجاہدین کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کے خاتمے میں بھرپور کردار اداکیا ۔ اسی لیے انہیں اس اتحاد کا سربراہ بنادیا گیا جس کے وہ آخر تک سربراہ رہے ۔

13نومبر 1994ء کو جب قندہار میں عالی قدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی قیادت میں تحریک اسلامی طالبان کا اعلان ہوا اور عملا فساد اور منکرات کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تو عارف صاحب وہ شخص تھے جنہوں نے اپنے اتحاد کا اجلاس پشاور مدرسہ دارالقراء میں بلایا اور انتہائی اخلاص سے فیصلہ کیا کہ ہم طالبان اسلامی تحریک سے مل جائیں گے اور اس کی مدد کریں گے ۔ یہی وہ وقت تھا جب عارف صاحب نے تدریس کو خیرباد کہا اور اہل سنت والجماعت کے اکثر صوبائی قائدین کے تعاون سے اپنا قافلہ قندہار پہنچایا اور وہاں محترم ملا محمد عمر مجاہد سے بیعت کی اور اعلان  جہاد کیا۔

عارف صاحب کے قریبی ساتھی اور امارت اسلامیہ کے دور میں ہلال احمر کے سربراہ جناب مولوی عصمت اللہ عاصم کا کہنا ہے کہ جب ہم نے جناب عالی قدر امیر المومنین کے ہاتھ پر بیعت کی ہمارے گروپ میں مشرقی صوبوں کے طالب رہنما ساتھی جیسے مولانا برہان الدین صاحب ، مولوی نور جلال ، مولوی عزت اللہ ،مولوی نجیب اللہ ،مولوی رستم ، مولوی رحیم اللہ اور مولوی رحیم الدین شامل تھے ۔ اس وقت مولوی عبدالباقی حقانی اور مولوی عبدالقدیر صاحب  ساتھیوں کے مشورے سے پشاور میں ساتھیوں کو منظم کرنے اور تشکیلات کے لیے رہ گئے تھے ۔ عاصم صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم سب بہت خوش تھے اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے مگر عارف صاحب اتنے متاثر تھے کہ بہت عرصے تک کہتے تھے کہ افغانوں اورخاص کر علماء کرام کو جس امیر کی تلاش تھی اب اللہ تعالی کی جانب سے افغانوں کو میسر آیا ہے ۔

زندگی کے آخری ایام :

اللہ تعالی نے عار ف صاحب کو استعداد اور اطاعت کے خصوصی خزینے عطا کیے تھے ۔ امیر المومنین ملاعمر مجاہد ، ملامحمد ربانی مرحوم اور دیگر اکابر ان سے خصوصی محبت اور شفقت فرماتے تھے ۔  دعوت وارشاد کا کام ان سے لیتے ۔ سیاسی اور انتظامی امور کے معاملات میں ان سے مشورے لیے جاتے ۔ مشرقی صوبوں میں عوام سے رابطے اور وہاں تحریک کو عام کرنے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے حوالے سے عارف صاحب کا کردار ہمیشہ قابل تحسین رہا ۔

مگر اللہ تعالی نے تقدیر میں یہی لکھا تھا اور اللہ تعالی کو محبوب یہی تھا کہ اب بصیرت ، تقوی ، عرفان اور کمال کا یہ ستارہ اس فانی دنیا سے ابدی دنیا کی جانب چلاجائے ۔ اس وقت امیر المومنین حفظہ اللہ اور حاجی معاون صاحب رحمہ اللہ کے مشورے سے عارف صاحب اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ صوبہ نیمروز چلے گئے تاکہ وہاں مذکورہ صوبے کے انتظامی اور جہادی امور کو منظم کیاجائے اوروہاں ایک حکومت تشکیل دی جائے ، مگر چوں کہ امارت اسلامیہ کا ہر شہری فوجی اور ہر فوجی شہری ہوتا ہے اور ہر ذمہ دار کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کیسے خدمت واطاعت کی مثال بن سکے اسی لیے عارف صاحب  صوبے کے دیگر امور کو آگے بڑُھانے کے ساتھ جہادی اور عملی شعبے میں بھی بھر پور حصہ لیتے ۔

اس وقت  صوبہ نیمروز پر شر وفساد کے لشکروں نے ایک شدید حملہ کیا ۔ سخت معرکہ آرائی اور آمنے سامنے کی جنگ کے بعد عارف صاحب 15مئی 1995ء عیدالاضحیٰ کے چوتھے دن شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

یاد رہے عارف صاحب ایسے وقت میں شہید ہوئے جب طالبان نے صوبہ نیمروز سے عقب نشینی کرلینی تھی ۔ دوبارہ جب نیمروز فتح ہوا تو عارف صاحب کی جائے تدفین تلاش کی گئی ۔ پہلے ان کا جسد خاکی قندہار لایا گیا پھر ان کے والد کے شدید اصرار پر ان کے آبائی علاقے چہار دہی لایا گیا۔ اللہ اس عظیم ہستی کے جہادی و علمی کارنامے ، سیاسی واجتماعی خدمات اپنے دربار میں قبول فرمائے ۔ اللہ کرے ان کے اوربھی جانشین پیدا ہوں جو ان کے نقش قدم پر چلیں اللہ انہیں جنت الفردوس  میں اعلی مقام عطافرمائے ۔  [آمین ]