وہ جسے دنیا بھول نہیں پائے گی

تحریر: عبدالرزاق آج کے دن ایک شخص اس دنیاکو الوداع کہہ چکا،وہ شخص جو بظاہر تو دنیاچھوڑ چکا،لیکن وہ آج بھی جاوداں ہے،آج بھی ان کاذکر خیر ہرزباں پہ جاری وساری ہے۔ آج بھی ان کانام امتِ مسلمہ کیلیے قابلِ صد افتخار ہے۔ آج بھی دنیاے کفر ان کے نام سے لرزہ بر اندام ہے۔ […]

تحریر: عبدالرزاق

آج کے دن ایک شخص اس دنیاکو الوداع کہہ چکا،وہ شخص جو بظاہر تو دنیاچھوڑ چکا،لیکن وہ آج بھی جاوداں ہے،آج بھی ان کاذکر خیر ہرزباں پہ جاری وساری ہے۔ آج بھی ان کانام امتِ مسلمہ کیلیے قابلِ صد افتخار ہے۔ آج بھی دنیاے کفر ان کے نام سے لرزہ بر اندام ہے۔ آج بھی انہیں ہزاروں،لاکھوں سلامِ عقیدت پیش کیے جاتے ہیں۔ آج بھی ان کے نام لیوا دنیاکے چارسو موجود ہیں ۔ آج بھی ان کامشن اسی نہج پہ روبہ ترقی ہے۔ ان کا دشمن ان کا نام ونشان مٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگانے کے بعد آج بھی ان کے کارناموں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ والفضل ماشہدت بہ الاعداء.
یہ شخص دنیاکے ان کئی افراد میں سے ہے جنہیں آخری نبی کاایک جاوداں معجزہ کہاجاسکتاہے۔ یہ ان ہستیوں میں سے ایک ہے جن کی زندگی اور موت، نماز اور قربانی سب کچھ صرف اللہ کیلیے ہے اور بلاشبہ وہ صفِّ اول کے مسلمانوں میں سے ہیں۔ یہ وہ فرزندِ ملت ہے جس کی بدولت اسلام کی تابانی ایک دفعہ پھر سے لوٹ آئی ۔ یہ وہ نابغہ روزگار جواں مرد ہے جس نے اسلام کے عظیم فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کو نئی روح سے زندہ کردیا۔ جس نے دین کی سر بلندی اور ترقی کاواحد ذریعہ جہاد کو قرار دیا۔ یہ وہ معیارِ حق ہے جس کی زندگی کاایک ایک گوشہ امتِ مسلمہ کی سر بلندی کے لیے بجاطور پر بہترین نمونہ اور تعلیمات کاسر چشمہ ہے۔ ایک طرف فقر وفاقہ سے معمور تو دوسری جانب غیرت وشجاعت سے مخمور ،رعب وجلال کامرقع اور صدق وامانت کا پیکر ہے، اسی جیسی زندگی کے بارےمیں شاید کہاگیاتھا:
مٹایاقیصر وکسری کے استبداد کو جس نے
وہ کیاتھا؟فقرِ بوذر،زورِ حیدر صدقِ سلمانی
آپ کو بتاتاچلوں یہ مردِ جری، یہ حق کامعیار، اسلام کافخر اور امتِ مسلمہ کی شادانی کوبحال کرنے والا اقوامِ عالم سے یکسر مختلف ہے۔ جس وقت اقوامِ عالم کی نظریں دنیوی ساز وسامان سے مرعوب ہو رہی تھیں اور مادی قوات کو خداسمجھ کر مغلوب ہورہی تھیں تو اس کی نظر ان مادیات سے ماورا ان کے خالق اور مالک پر جمی ہوئی تھیں،جس وقت دنیاکو اپنے وسائل پہ بڑا ناز اور بھروسہ تھاتو اسے صرف واحدِ لایزال ذات پہ یقین تھااور بھروسہ کی رسی صرف اور صرف اسی طرف پھیلا رکھی تھی،جس وقت ایمان اور مادیت کی کشمکش جاری تھی اور دنیا ساری مادیت کی بہاو میں بہی جارہی تھی عین اسی وقت یہ مردِ مجاہد ایمان کی ڈوبتی کشتی اپنی ایمانی طاقت سے کھینچ کر لارہا تھا۔ جس وقت عالم کفر اپنے کر وفر سے اسلامی نظام کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلے ہوے تھے اور سب کایہی ایمان تھا کہ اب کے تو ختم ہی رہناہے،تو یہ در یتیم اسلام کی کامرانی کی پیش گویاں فرمارہے تھے۔
پتہ ہے نا یہ کون سر پھیرا تھا؟
مجددِ اسلام، بانیِ جہاد،ماحیِ کفر، ہازمِ طغات ، عمرثالث امیر المؤمنین خلیفۃ المسلمین ملامحمد عمر مجاہد قدس اللہ سرہ تھے،جنہوں نے چند ہی افراد کو اکھٹاکرکے سرزمینِ افغانستان پر جاری فساد کو کچلنے کاعزم کیا۔ ملک میں جاری خون خرابے کی بیخ کنی کے ارادے سے چل نکلے تو الہی نصرت ساتھ ہوتی گئی۔ افراد آتے گئے قافلہ بنتاگیا۔ نہ صرف یہ کہ فساد کاخاتمہ ہوا،بلکہ چشمِ اقوام نے یہ نظارہ دیکھا کہ افغانستان کی سرزمین مدینہ،بغداد اور صلاح الدین ایوبی کے دور والے مصر کانظارہ پیش کرنے لگا۔ چوری،ڈکیتی، ظلم وفساد اور عصمت دری کاتصور تک نہیں کیاجاسکتاتھا۔ اسلامی احکامات اپنی اصل حالت کے ساتھ مکمل طور پر وجود پذیر ہوئے۔ یہی چیز اغیار کو نہ جچی تو ختم کرنے کے درپے ہوئے اور اس مظلوم انسانیت پر پوری آب وتاب کے ساتھ چڑھ دوڑے، ایسے میں اسی مردِ حرنے آزادی واستقلال کاعلم بلند کیا۔ قوم کو للکارا،ملت کے کانوں میں فرزندانِ اسلام کے دلوں میں نغمہ حریت کی صدا دے ڈالی،کون کہہ سکتاتھا کہ یہ صدا کارگر ثابت ہوگی؟
لیکن قدرت نے اس یقین صادق کو منزل تک پہنچایااور اغیار کی ساری کوششیں ناکام بنادیں۔
آج جبکہ انہیں ہم سے جداہوئے سات سال کاطویل عرصہ بیت چکاہے ان کی کاز اسی زور وشور سے جاری ہے،ان کی فوج اسی عزم سے منزل کی قریب ہوچکی ہے اور جلد ہی ظفر یاب ہوگی،ان کی زندگی ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ:
ارادے جن کے پختہ ہو ں نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایانہیں کرتے