ٹرمپ کا سبق آموز جواب

تحریر: سیف العادل احرار یہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ عیاں ہوتا ہے، خفیہ راز لوگوں پر اشکارا ہوتا ہے، دشمن کے ہتھکنڈوں اور چالوں سے باخبر، تجربہ کار اور دور اندیش سیاستدانوں کے حقیقت پسندانہ موقف سے منکر اور تعصب یا جہالت کی بنیاد پر اس کی موقف کی مخالفت […]

تحریر: سیف العادل احرار

یہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ عیاں ہوتا ہے، خفیہ راز لوگوں پر اشکارا ہوتا ہے، دشمن کے ہتھکنڈوں اور چالوں سے باخبر، تجربہ کار اور دور اندیش سیاستدانوں کے حقیقت پسندانہ موقف سے منکر اور تعصب یا جہالت کی بنیاد پر اس کی موقف کی مخالفت کرنے والے لوگ بھی بالاخر اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ حقیقت اور حق پر مبنی موقف تسلیم کریں، امریکہ نے بلا جواز افغانستان پر حملہ کرنے کی حماقت کی اور پھر ایک اور اسلامی ملک عراق کو جارحیت کا نشانہ بنایا اس وقت امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکہ کے دباو سے اب اگرچہ پوری دنیا مرعوب ہے لیکن ہم افغانستان میں اس کو اللہ کی مدد سے ایسا سبق سکھائیں گے کہ تمام جابر اور قابض حکمرانوں کے ہوش اڑ جائیں گے، ہم مادی وسائل کے لحاظ سے کمزور ضرور ہیں لیکن ہم مسلمان اور اللہ کے وعدے پر یقین کامل رکھتے ہیں، ہم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہر طاغوت کو شکست دیکر تاریخ رقم کی ہے، ہم امریکہ کے سامنے سر جھکانے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے کا اعلان  کرتے ہیں، امریکہ افغانستان پر حملہ کرے اور اپنا شوق ضرور پورا ہے لیکن وہ یاد رکھے حملہ کرنا آسان ہے لیکن جنگ جاری رکھنا مشکل کام ہے، اس کو پھر انخلا کے لئے امن مذاکرات کی بھیک مانگنے کے سواء اور کوئی راستہ نہیں ہے ۔

کچھ لوگ کہتے تھے کہ امریکہ سپر پاور ہے، اس کی مخالفت کرنا یا اس کے خلاف ہتھیار اٹھانا طالبان کی بہت بڑی غلطی ہوگی، طالبان سیاسی جدوجہد کریں لیکن 18 برس کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ناکام اور مسلح جہاد کا تجربہ کامیاب ہوا ۔

حال ہی میں امریکہ نےعراق میں ایران کے اہم کمانڈر سلیمانی کو نشانہ بنایا جس کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی، جبکہ عراق کی پارلیمنٹ نے متفقہ قرار پاس کی جس میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عراق سے اپنی فوج نکالے، عراقی پارلیمنٹ میں شامل حکومت اور اپوزیشن کے تمام ممبران نے متفقہ طور پر یہ قرار پاس کی اور یہ بھی واضح کیا کہ عراق اور امریکہ کے درمیان امریکی فوج کی موجودگی کے حوالے سے کوئی معاہدہ بھی نہیں ہے لہذا اب عراق میں امریکی فوج کی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے، عراق کی پارلیمنٹ نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے ردعمل میں یہ فیصلہ کیا یا کوئی اور وجہ ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ نے فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عراق کی پارلیمنٹ کی قرار جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے اس کو مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ ہم نے عراق میں جتنے اخرجات کئے ہیں ہمیں دیئے جائیں پھر انخلا کی بات کی جائے، ٹرمپ کے اس بیان میں حقیقت سے منکر تمام لوگوں کے لئے ایک اہم پیغام ہے اور کابل انتظامیہ کے لئے نوشتہ دیوار ہے ۔

اس پیغام میں چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ ٹرمپ نے صبر کا مظاہرہ نہیں کیا اور حملہ آوروں کا راز افشا کیا، وہ لوگ جو عراق پر قبضہ کرنے میں مخلصانہ کردار ادا کرتے تھے اور محض چند ڈالر اور اقتدار کے حصول کے لئے امریکی جارحیت کے حامی اور اپنے ملک اور قوم کے خلاف جنگ میں دشمن کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، حملہ آور ان کے ملک کے وسائل لوٹ رہے تھے اور وہ مصلحت کے تحت خاموش تھے، حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے آج ٹرمپ کے بیان سے حقیقت ان کے سامنے آشکار ہوگئی ہے ۔

4 جنوری کو فاکس نیوز کے نامہ نگار نے امریکی صدر سے عراقی پارلیمنٹ کی قرار کے بارے میں سوال کیا تو صدر ٹرمپ نے واضح طور پر جواب دیا کہ یہ فیصلہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے، عراق کو پہلے وہاں ہونے والے اخراجات ہمیں ادا کرنے چاہیں ، پھر انخلا کا مطالبہ کرے ۔

اگرچہ عراقی صدر کے ترجمان نے ایک بار پھر امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اور امریکہ کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہے جس کے تحت امریکی افواج مستقل طور پر یہاں رہیں لیکن فوری طور پر امریکی محکمہ خارجہ نے عراق کو جواب دیا اور اس کا مطالبہ مسترد کر دیا اور اعلان کیا کہ ہم کسی صورت بھی عراق سے فوجی انخلا نہیں کریں گے ۔

عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کے مطالبہ کا سبب جنرل سلیمانی کی ہلاکت ہے یا عراق کی موجودہ گمبھیر صورتحال اور بحرانی کیفیت ہے جس کے تحت امریکی حمایت یافتہ عراق کی کٹھ پتلی پارلیمنٹ نے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا لیکن امریکہ کے انکار سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والا امریکہ نے عراق کی جمہوری حکومت کے متفقہ مطالبہ کی کتنی پاسداری کی، ایک جمہوری ملک کی جمہوری حکومت نے متفقہ فیصلہ کیا لیکن جمہوریت کے چمپیئن امریکہ نے اس جمہوری حکومت کا متفقہ فیصلہ جوتے کی نوک پر رکھ کر مسترد کر دیا، اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ امریکہ دنیا میں جمہوری نظام کے استحکام اور جمہوریت کو فروغ دینے میں مخلص ہے اور نہ ہی اس کے نزدیک جمہوری حکومتوں کے فیصلوں کی کوئی اہمیت ہے بلکہ امریکہ بہادر طاقت کی زبان سے جواب دینا خوف سمجھتا ہے، افغانستان میں جہاد کی بدولت اس کو مجاہدین نے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور آج وہ امن مذاکرات کے ذریعے باعزت واپسی کے لئے پرامن راستہ تلاش کر رہا ہے جو جہاد اور جمہوری حکومت اور سیاسی جدوجہد کے درمیان واضح فرق اور نتیجہ ہے ۔

ہمارے امریکن نواز افغان کٹھ پتلی حکمران کیا سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ کے نزدیک ان کی حیثیت کیا ہے؟ اور وہ کن وجوہات کی بناء پر عراق کے غلاموں سے زیادہ حیثیت رکھتے ہیں اور امریکہ کے سامنے وہ معزز ہیں؟ کیا افغان کٹھ پتلی حکمران اور پارلیمنٹ کے ارکان امریکی فوج کے انخلا کی جرات کر سکتے ہیں؟ کیا ان کے فیصلے کی پھر کوئی اہمیت ہوگی، ظاہر ہے کہ افغان کٹھ پتلی حکمرانوں کی حیثیت امریکہ اور طالبان دونوں کے سامنے محض غلاموں کی ہے، طالبان ان کو اہیمت دیتے ہیں اور نہ ہی امریکہ بلکہ دونوں نے امن مذاکرات میں انہیں سائیڈ لائن کر کے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے ۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کابل انتظامیہ کے غلاموں کے لئے بھی ایک اہم اور طلائی چانس ہے وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں کیونکہ ایک دن وہ بھی امریکہ سے تنگ آکر امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کریں گے تو انہیں بھی عراق کی طرح جواب ملے گا اور امریکہ بہادر کو یہاں سے بگانے والے پھر کون ہوں گے، مجاہدین نے اب امریکہ کو فوجی انخلا پر مجبور کر دیا ہے کابل انتظامیہ اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو چاہیے کہ وہ طالبان کے موقف کی حمایت کر کے امریکہ کو فوجی انخلا دینے پر مجبور کریں اگر سب ایک پیج پر ہوں گے تو امریکہ کو یہ جرات ہی نہیں ہوگی کہ وہ افغانستان سے فوجی انخلا کی صورت میں لگائے گئے اخراجات کی واپسی کا مطالبہ بھی کرے بلکہ افغان حلقے اس سے تمام ہتھیار اور فوجی ساز و سامان یہاں چھوڑنے کا مطالبہ کریں گے جس کو ماننا پڑے گا لیکن یہ تب ممکن ہے کہ تمام افغان حلقے اور کٹھ پتلی حکمران طالبان کے موقف کی حمایت کریں اور امریکہ سے فوجی انخلا کا مطالبہ کریں ۔