کابل انتظامیہ عوام کے قتل عام سے کیا چاہتی ہے؟

 آج کی بات جب امارت اسلامیہ اور فریق مخالف امن مذاکرات کے لئے طریقہ کار وضع کرنے میں مصروف تھے تو کابل انتظامیہ کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں نے مظلوم اور بے گناہ شہریوں پر بموں کی بارش کر دی۔ پچھلے اور رواں ہفتے کے دوران کابل انتظامیہ کی افواج نے قندھار ، قندوز […]

 آج کی بات

جب امارت اسلامیہ اور فریق مخالف امن مذاکرات کے لئے طریقہ کار وضع کرنے میں مصروف تھے تو کابل انتظامیہ کے ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں نے مظلوم اور بے گناہ شہریوں پر بموں کی بارش کر دی۔

پچھلے اور رواں ہفتے کے دوران کابل انتظامیہ کی افواج نے قندھار ، قندوز اور دیگر صوبوں میں فضائی ، بھاری توپ خانوں اور سفاکانہ کارروائیوں میں درجنوں شہریوں کو شہید اور زخمی کردیا۔ 19 ستمبر کو صرف قندوز کے ضلع خان آباد میں فضائی حملے میں 24 شہری شہید اور 5 زخمی ہوگئے۔

کابل انتظامیہ ایسے وقت میں فضائی حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے کہ وہ بظاہر امن کوششوں کی کامیابی کی چیخیں بھی ماررہی ہیں۔ کابل انتظامیہ میں اعلی اور اہم عہدوں پر فائز افراد آج بھی امن کو اپنی فنا کے مترادف سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ کسی نہ کسی بہانے پر اس عمل کی پیشرفت میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور موجودہ جرائم جیسے واقعات کو جان بوجھ کر انجام دیتے ہیں۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ کابل انتظامیہ امن عمل کو روکنے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے دس دن کا عمل چھ ماہ تک بڑھانا ، موجودہ جرائم اور کارروائیوں سے ملک کے اندر اور باہر اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ کابل انتظامیہ امن کی حامی نہیں ہے اور تمام ممکنہ وسائل سے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

کابل انتظامیہ شروع دن سے امارت اسلامیہ اور امریکہ کے مابین تاریخی معاہدے جو ملک اور خطے دونوں کے مفاد میں ہے۔ کی مخالفت کررہی ہے اور ہمیشہ اس معاہدے کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے۔

امن کے حصول کے لئے مظالم اور امن کی راہ میں رکاوٹوں کو ڈالنے سے کابل انتظامیہ کو باز رکھنا ضروری ہے اور یہ کابل انتظامیہ کے سہولت کاروں اور مددگاروں کی ذمہ داری ہے۔

جنگ پسند عناصر کو کھلی چھوٹ نہیں دینی چاہئے کہ وہ چالیس سالہ بحران کے بعد ملک میں امن کے لئے نادر موقع ضائع کریں۔