ارغنداب کا سانحہ اور مردہ ضمیریں

ہفتہ وار تبصرہ دشمن کی جانب سے مسلسل فضائی حملوں اور مختلف النوع جنگی جرائم کے سلسلے میں صوبہ قندہار ضلع ارغنداب کے ناگہان کے علاقے پر ایک بار پھر عوام کے گھروں پر بےدریغ بمباری کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں 13 نہتے شہری شہید ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچوں کی ہیں۔ […]

ہفتہ وار تبصرہ

دشمن کی جانب سے مسلسل فضائی حملوں اور مختلف النوع جنگی جرائم کے سلسلے میں صوبہ قندہار ضلع ارغنداب کے ناگہان کے علاقے پر ایک بار پھر عوام کے گھروں پر بےدریغ بمباری کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں 13 نہتے شہری شہید ہوئے ہیں، جن میں اکثریت بچوں کی ہیں۔ شہداء کی تصاویر المناک ہے، جس میں ہونے والے جرم و درندگی کے حوالے سے شک و سوال کا کوئی گنجائش باقی نہیں رہتا۔ مگر اتنے واضح اور ناقابل تردید سانحہ کے باوجود پھر بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں  کے کان بہرے اور ضمیریں غافل ہیں، اب تک اس المیہ کے حوالے سے ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔

ارغنداب پر بمباری ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب کابل انتظامیہ اور اس کے بیرونی حامی  بظاہر امن کے لیے پکار رہے ہیں ، لڑائی اور حملوں میں کمی کا مہم چلا رہا ہے۔ اس طرح پروپیگنڈے کے ذریعے عوام میں خود امن پسند متعارف کروانا چاہتا ہے۔ مگر عملی طور پر نہ صرف جنگ کے شعلوں پر تیل چھڑک رہے ہیں،بلکہ  جنگوں میں جنگی جرائم اور فضائی حملوں میں بھی بہت اضافہ کیا  ہواہے۔

وہ جماعتیں جو جنگ اور حملوں  کی سطح کم کرنے کے لیے ہمیشہ  یک طرفہ طور پر امارت اسلامیہ سے سفارش کرتی  رہتی ہے، تاکہ یہ باور کرایا  جاسکے کہ جنگ صرف امارت اسلامیہ نے جاری رکھی  ہوئی ہے، اب انہیں ارغندا ب جنگی جرم اور اس کے علاوہ دیگر  فضائی حملوں اور مظالم کی  مذمت بھی کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ کابل انتظامیہ کو مجبور کرنا چاہیے کہ اس طرح مظالم اور فضائی حملوں سے دستبردار ہوکر نہتے عوام کے قتل عام کو روک دیں۔

ہمیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ چند جعلی پالیسی سے جکڑے اور اسے آگے بڑھانے والے بدبخت گروہ اس طرح کے کھلے عام ظلم و ستم کے خلاف خاموشی کو کس طرح جواز بناسکتے ہیں اور اپنی ضمیر کو کس طرح مطمئن کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہر نہتے فرد کا خون قیمتی اور المناک ہے،کسی کو بھی اسے بہانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے انسانی حقوق کے موجودہ نعرے باز  خون کی معصومیت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کرتے، بلکہ سب سے پہلے مجرموں کا اندازہ لگاتے ہیں، اگر مجرم کابل انتظامیہ کی افواج یا بیرونی غاصب ہے، تو اس طرح واقعات جتنے بھی دلخراش ہونگے،اس کے خلاف خاموشی اپناتی ہے، جیسا کہ ارغندآب جرم و درندگی کے خلاف خاموش ہے۔

امارت اسلامیہ اس طرح ظالمانہ اعمال کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے  اور اسے افغان مظلوم قوم کے خلاف شدید ترین ظلم، جفا اور ناقابل فراموش جرم سمجھتی ہے۔  اس طرح  جرائم کے مرتکب افرادسے ایک دن ضرور ان کے مظالم کے حوالے سے قوم پوچھ گچھ کریگی۔یہ بغیر سرپرست والی قوم نہیں ہے، بلکہ قادر اور منتقم  رب کریم اس کا مالک ہے۔ اس قوم کے بہادر فرزند اور حریت پسند  غازی ہیں۔ کوئی بھی غیر ملکی اجنبی حمایت اور موسمی قوت پر فخر نہ کریں۔ اس قوم نے اس سے شدید آزمائشیں برداشت کی ہیں،  مگر آخرکار اس کا ہر قسم  دشمن شرمندہ اور تاریخ  میں خوار وذلیل ہوچکاہے ۔