اسلامی نظام کا قیام اور استعمار کا خاتمہ وطن عزیز کے استحکام کا طریقہ ہے

حالیہ دنوں میں وطن عزیز کا دارالحکومت کابل شہر  ایک قسم تحرکات کا شاہد تھا۔ بعض نہاد نام سابق مجاہدین اور اس سے پہلے کٹھ پتلی انتظامیہ کے بعض عہدیداروں نے حراست اور ثبات کے نام ایک کونسل کا اعلان کیا۔ افغانستان کے  استحکام کے لیے چند مطالبات پیش کیے۔ موصوف کونسل انتخاباتی نظام اور […]

حالیہ دنوں میں وطن عزیز کا دارالحکومت کابل شہر  ایک قسم تحرکات کا شاہد تھا۔ بعض نہاد نام سابق مجاہدین اور اس سے پہلے کٹھ پتلی انتظامیہ کے بعض عہدیداروں نے حراست اور ثبات کے نام ایک کونسل کا اعلان کیا۔ افغانستان کے  استحکام کے لیے چند مطالبات پیش کیے۔ موصوف کونسل انتخاباتی نظام اور سیکورٹی کے شعبے میں اصلاحات اور ان کے مطابق دہشت گردی سے فوری طور پر نمٹنے سےملک امن کا گہوارہ بن جائیگا۔لیکن تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے مطابق اس کونسل کا مقصد ذاتی مفادات کا تحفظ اور جارحیت کو جاری رکھنا ہے۔

کونسل کے تشکیل میں ایسے چہرے نظر آرہے ہیں، جنہوں نے عمر کے بیشتر حصے کو اقتدار کی کشمکش میں گزاری ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سرکاری عہدوں اور اقتدار کے لیے جدوجہد کی ہیں اور اسے اپنا تسلیم شدہ حق سمجھتے ہیں۔ اقتدار کے لیے ہر قسم کے جائز اور ناجائز وسیلے کو بروئے کار لاتے ہیں۔ہر طرف ہاتھ اور پیر مارتے ہیں۔ شرعی اصول اور اخلاقی معیارات کے پابند نہیں ہیں۔

کونسل کے پہلے اجلاس میں جس مسئلے کا تذکرہ ہوا ہے،وہ  سابقہ کٹھ پتلی انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر  موجود تھا۔ انتخاباتی، سیکورٹی، معاشی، اخلاقی ، انتظامی اور دیگر نظام کرپٹ تھے، بلکہ موجودہ دوہری کرپٹ انتظامیہ کے مانند ایک فاقدالنظام ادارہ تھا۔ جس کا نہ کوئی جواز تھا اور ہی اس میں   کام کرنے کی صلاحیت تھی۔ حتی کہ عالمی سطح پر فساد میں پہلے مقام کا حامل تھا۔ چونکہ  یہ محترمین اس وقت اقتدار میں تھے ،اسی لیے سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھے، لیکن آج اقتدار نہیں ہے، تو ملک کے عمومی حالت کے متعلق انہیں تحفظات ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ وطن عزیز کا موجودہ صورتحال قابل تشویش ہے۔ ایسے حالت میں کہ ملک کو تعمیرنو کی ضرورت ہے۔ عوام کو کافی مسائل کا سامنا ہے۔ نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرونی ممالک کے سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اکثراشخاص کو اباواجداد کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور کیا جاچکا ہے۔ استعمار لوگوں کے گھروں  میں گھس رہے ہیں۔اپنی مرضی سے رات کے چھاپے مارتے ہیں۔ نہتے عوام پر بمباری کررہا ہے۔ دوسری جانب کابل انتطامیہ کیساتھ ہموطنوں کے جان و مال اور عزت کی حفاظت کی طاقت اور عزم نہیں ہے۔

وطن عزیز کو موجودہ کھٹن حالت سے نجات دلانے کے لیے ہم تمام افغانی پابند ہیں ۔  اپنے مشترکہ گھر کے آبادی کے لیے باہمی تگ و دو کریں۔ افغانستان کے استحکام کے لیے مذکورہ کونسل کا منصوبہ سودمند نہیں ہے، کیونکہ قبضے کی موجودگی میں اصلاحات ناممکن ہے۔ اگر باالفرض اصلاحات قائم ہوجائے، تو ملک میں استحکام نہیں آئیگا۔ کیونکہ افغان عوام اجنبی کی حکمرانی کسی صورت میں قبول نہیں کرتی۔ موجودہ مسائل سے نکلنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے غیرملکیوں کا قلع قمع کیا جائے اور استعمار کو اپنے گھروں سے بھگایا جائے۔ دوسرا یہ کہ ایک اسلامی حکومت کے تلے متحد اور اکھٹے ہوجائے۔ تیسرا یہ کہ ذاتی اور جماعتی مفادات کے بجائے قومی اور عمومی مفادات کو ترجیح دی جائے  اور چوتھا یہ کہ لسانی ، قومی اور علاقائی تعصب کے بنا مشترکہ زندگی کا آغاز کریں۔ واللہ الموفق