اشرف غنی بچوں کے اغوا میں ملوث ہے!

‎⁠⁠⁠⁠⁠‎‏آج کی بات:‏ مجاہدین کے حالیہ شدید حملوں نے دشمن کے وسیع علاقوں پر سے ناجائز قبضے کو ختم کر دیا ہے۔ مجاہدین نے اُس کے کئی ‏اہم مراکز پر قبضہ کر لیا ہے۔ دشمن کے ہزاروں اہل کار مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہیں۔ اس صورتِ حال نے ‏کابل کی غلام اشرف […]

‎⁠⁠⁠⁠⁠‎‏آج کی بات:‏

مجاہدین کے حالیہ شدید حملوں نے دشمن کے وسیع علاقوں پر سے ناجائز قبضے کو ختم کر دیا ہے۔ مجاہدین نے اُس کے کئی ‏اہم مراکز پر قبضہ کر لیا ہے۔ دشمن کے ہزاروں اہل کار مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہیں۔ اس صورتِ حال نے ‏کابل کی غلام اشرف غنی کے ’دارالانتظام‘ (کابل) میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور وہ اپنی کرسی بچانے  کی پریشانی ‏میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

اب کی موجودہ صورتِ حال کے مطابق کٹھ پتلی انتظامیہ کا افغانستان میں ناجائز کنٹرول میں صرف شہروں تک محدود ہو کر ‏رہ گیا ہے۔ دشمن کے بندوق بردار اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے،جو باہمی جھگڑوں کا سبب بن رہا ہے۔ اِس بے ‏یقینی کی حالت میں دشمن اہل کار اپنی جان کو ناگہانی خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ وہ اس پریشان کُن حالت سے بچنے ‏کے لیے مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہو رہے ہیں یا  جنگ کے دوران دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس حالت کو دیکھتے ‏ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امریکی جارحیت پرستوں کے بعد اُس کی کٹھ پتلیوں کی حیثیت برائے نام رہ گئی ہے۔

سیاسی مبصرین اور عسکری تجزیہ کاروں کے مطابق کابل انتظامیہ کے زوال کا اس سے زیادہ کیا ثبوت درکار ہے کہ ایک ‏معمولی افسر سے لے کر نام نہاد گورنرز تک کا تمام عملہ ہر جگہ اپنی ناجائز مرضی چلا رہا ہے۔ حتی کہ اشرف غنی کی ‏اتنی حیثیت بھی باقی نہیں رہی کہ وہ ایک گورنر کو تبدیل یا معطل کر سکے۔ ہر فوجی کمانڈر اور سیاسی رہنما کی اپنی ‏عدالت اور خفیہ جیلیں ہیں۔ وہ جسے چاہیں، اپنے خفیہ ٹھکانوں میں قید کر دیتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ اشرف غنی کے حکم پر ‏کچھ وزراء کو معطل کرتی ہے تو پارلیمنٹ ہی میں موجود پارلیمنٹیرین کے رُوپ میں  مسلح غنڈوں کا گروپ ادارے کو ‏سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اگلے ہی دن اشرف غنی کو پارلیمنٹ کے فیصلے کو ‏غلط کہہ کہ ’معطل وزراء‘ کو بحال کرنا پڑتا ہے۔

جب انتظامیہ خود میں ہی اُلجھی ہوئی ہو تو افغان عوام اُس سے کس خیر کی توقع رکھے؟! اَب تو غیرملکی جارحیت پرست ‏قوتیں بھی اپنی کٹھ پتلیوں پر مزید خرچہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اشرف غنی انتظامیہ پر ایک ڈالر بھی خرچ ‏کرنا امریکی عوام کے ساتھ غداری اور خیانت کے مترادف ہے۔ اَب  کٹھ پتلی انتظامیہ افغان عوام کے ذہن میں یہ بات بٹھانے ‏کی کوشش میں ہے کہ وہ ان کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار اور چوکس ہے۔ اس لیے اب کچھ نمائشی حرکتیں اور ڈرامے ‏رَچا رہی ہے۔ صوبہ فراہ سے ایک معصوم بچے کے اغوا اور پھر مضحکہ خیز بازیابی کی ویڈیو اسی سلسلے کی ایک کڑی ‏ہے۔

گزشتہ دنوں میڈیا پر یہ خبر آئی کہ فراہ سے ایک بچے کو اغوا کیا گیا ہے، جس کا کئی ہفتوں  سے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ ‏بعدازاں  اغواکاروں نے ایک ویڈیو جاری کی، جس میں  اغوا شدہ بچے کو ایک  گڑھے میں روتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ بظاہر ‏اس دل خراش ویڈیو نے ہر شخص کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بالآخر فراہ کے حکومتی ارکان نے اعلان کیا کہ انہوں نے بچے کو ‏بازیاب کرا لیا ہے اور اغواکاروں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اغواکاروں میں فراہ کے نائب گورنر ‏کا ایک سکیورٹی گارڈ بھی شامل ہے۔ دوسری جانب ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں کہ بچے کو فراہ کے سکیورٹی ‏انویسٹی گیشن کے افسر کے گھر میں چُھپایا گیا تھا۔

کچھ عرصہ قبل بھی ایک معصوم بچے  ’اباسین‘ کو اغوا کیا گیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو بھی منظر عام پر ’لائی گئی‘ تھی، ‏لیکن بعد میں اُس بچے کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ جس پر نام نہاد اشرف غنی نے کچھ افراد کو میڈیا کے ‏سامنے بٹھا کر اباسین کے اغوا کار قرار دیا، لیکن آج تک ان مبینہ قاتلوں کے بارے کچھ پتا چل سکا ہے اور نہ ہی اُن کی ‏شناخت ظاہر کی گئی تھی کہ وہ کون تھے؟ وہ بچے کو کابل سے اغوا کر کے لے گئے اور عدالت نے ان کے بارے میں کیا ‏فیصلہ سنایا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جوابات آج تک نہیں دیے گئے۔

جب پولیس خود ہی اغوا کار ہو۔ گورنر، کمانڈرز، قاضی، ادنیٰ و اعلیٰ حکام سب ہی اغواکار ہوں، اشرف غنی کے بندوق ‏بردار اداروں کے اہم عہدوں پر اغواکار مافیا قابض ہو تو افغان عوام اس جیسی جرائم کی آماج گاہ بن جانے والی انتظامیہ سے ‏کس مثبت اقدام کی امید رکھے؟!‏