اشرف غنی عوامی فلاح وبہبود میں رکاوٹ

آج کی بات: اشرف غنی عوامی فلاح وبہبود میں رکاوٹ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کابل ادارے کے مسلح جنگجو اسکولوں کو بطور چیک پوسٹ اور جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کابل کی کٹھ پتلیوں نے […]

آج کی بات:
اشرف غنی عوامی فلاح وبہبود میں رکاوٹ
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ کابل ادارے کے مسلح جنگجو اسکولوں کو بطور چیک پوسٹ اور جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کابل کی کٹھ پتلیوں نے صرف صوبہ بغلان میں 12 اسکولوں کو فوجی چوکیاں بنا کر وہاں سے تعلیمی عمل کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔ جس سے بچوں کے اَن پڑھ رہ جانے سے افغان معاشرے میں علمی سرگرمیاں ختم یا سست ہو جانے کا اندیشہ کھڑا ہو گیا ہے۔
کابل میں امریکی پٹھوؤں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اُن کے اسلحہ بردار اہل کاروں نے اسکولوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ جنرل دولت وزیری نے کہا کہ مجاہدین کی جانب سے آپریشن تیز ہونے پر انہوں نے اسکولوں کو بطور محاذ استعمال کیا ہے۔ اس سے قبل بھی کئی آزاد میڈیا گروپس، سماجی تنظیموں اور علاقہ مکینوں کی جانب سے یہ بات سامنے لائی جاتی رہی ہے کہ کابل کی کٹھ پتلیوں کے زیرِانتظام دہشت گردی کرنے والے وردی پوش مسلح جنگجو اسکولوں میں فوجی چوکیاں بنا کر تعلیم دشمنی کے مرتکب ہو رہے ہیں، لیکن بے مہار اور غلام انتظامیہ کا میڈیا اسکولوں کی تباہی کا الزام مسلسل مجاہدین پر لگاتا رہا ہے۔ رواں ہفتے دشمن نے کئی بار یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ مجاہدین نے اسکولوں کو نذرِآتش کرکے اس میں مورچے بنائے ہیں۔
دشمن کے ان الزام کا امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سختی سے رد کیا ہے اور اس بارے ایک اعلامیہ جاری کیاگیا ہے۔ امارت اسلامیہ نے اعلامیے میں دشمن کی طرح بے جا الزامات سے کام نہیں لیا، بلکہ ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ ان علاقوں کی نشان دہی کی ہے، جہاں کٹھ پتلی انتظامیہ نے اسکول اور عوامی فلاحی مراکز نذرِآتش کیے ہیں۔
چند روز قبل صوبہ لغمان میں ایک پل کو بم سے اڑانے کی خبریں منظر عام پر آئیں، جس کا الزام مجاہدین پر لگا دیا گیا۔ جب ہم نے علاقے میں تحقیق کا آغاز کیا تو پتا چلا کہ مذکورہ پُل علاقائی ملیشیا نے چھ ماہ قبل اس لیے دھماکے سے اڑا دیا تھا کہ مجاہدین داخل میں داخل نہ ہو سکیں۔ جب اس پل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے ایک سماجی تنظیم نے ہامی بھری تو امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے اس پل کو تعمیر کرنے میں اس تنظیم کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ جب اگلے دن پل کی تعمیر کے لیے ضروری سامان مذکورہ جگہ پہنچا دیا گیا تو ظالم ملیشیا سارا سامان لوٹ کر لے گئی۔ طُرفہ تماشا یہ کہ پھر سے میڈیا پر خبر چلا دی کہ مجاہدین نے پل کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا ہے۔
اسی طرح صوبہ لوگر کے ضلع محمد آغا میں دشمن کی جانب سے میڈیا پر یہ رپورٹ نشر ہوئی کہ مجاہدین نے اس علاقے میں تمام اسکولوں اور طبی مراکز کو بند کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن حقیقت میں اس علاقے میں وہی ظالم ملیشیا کے اہل کار تھے، جنہوں نے شہریوں کو دھمکی دی کہ اس علاقے کے تمام لوگ مجاہدین کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس لیے اُنہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان اداروں سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ اس لیے علاقے کے اسکولوں اور طبی مراکز کو بند رکھنے کا حکم دیا تھا۔
مجاہد صاحب کا مزید کہنا تھا کہ مجاہدین کو امارت اسلامیہ کے اصولوں کے مطابق یہ اجازت نہیں کہ کسی اسکول یا طبی مرکز کو بند کرنے کا حکم دیں۔ مجاہدین پر اس قسم کے الزام لگانا دشمن کے پروپیگنڈوں کا ایک حصہ ہے، اس لیے عوام ان پر کان نہ دھریں۔ دشمن مختلف طریقوں سے مجاہدین کو بدنام کرنے کے مشن پر ہے۔ بہت سے مواقعوں پر اپنے جرائم کا ذمہ دار مجاہدین کو ٹھہرا دیتے ہیں، مگر افسوس کہ میڈیا تمام تر صحافتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر مجاہدین کے بارے میں چُوری خور طوطے کی طرح وہی راگ الاپتا ہے، جسے ملیشیا یا غلام انتظامیہ کی جانب سے سکھایا گیا ہوتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ کہ جو صحافی بھی علاقے میں جاتا ہے، وہ عینی شاہدین کی بات کو اہمیت دیتا اور نہ جنگ کے دوسرے فریق مجاہدین کی رائے لی جاتی ہے، تاکہ کسی بھی واقعے کے بارے میں اپنا مؤقف ایک ٹھوس دلیل اور مضبوط مشاہدے پر قائم کر سکے۔ اسی طرح اسکولوں کی تباہی، بندش اور نذرِآتش کرنے کا پروپیگنڈا یک طرفہ رپورٹنگ کی وہ مثالیں ہیں، غلام میڈیا گزشتہ پندرہ سال سے جن کی مسلسل جگالی کر رہا ہے۔
جب کہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے دشمن کی سازشیں ناکام بنا کر ان کی اصلیت پوری دنیا کو دکھا دی ہے۔ عوام دشمن کے پروپیگنڈوں پر کان نہ دھریں، کیوں کہ امارت اسلامیہ نے اپنے تمام مجاہدین کو حکم دیا ہے کہ عوامی فلاحی مراکز، خاص طور پر تعلیمی اداروں کی مکمل حفاظت کی جائے۔