کابل

اطلاعاتی دیانت کی خاطر وزارت اطلاعات نے یوٹیوب چینلز کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کرلیا۔

اطلاعاتی دیانت کی خاطر وزارت اطلاعات نے یوٹیوب چینلز کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کرلیا۔

مستنصر حجازی

گذشتہ چند سالوں میں سوشل میڈیا نے جو تیز رفتار ترقی کی ہے اس نے میڈیا کے شعبے میں انقلاب برپا کیا ہے۔ پھر جب مختلف اکاؤنٹس نے ویوز پر رقم دینا شروع کیا ہے اس نے تو گویا آن لائن دنیا کو تہہ و بالا کیا۔ ویوز پر رقم دینے کی وجہ سے  یوٹیوب کی طرف رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مختلف مقاصد کے لیے لوگ یوٹیوب چینلز بنا رہے ہیں۔ اساتذہ آن لائن تدریس کے لیے، صحافی وی لاگز بنانے اور ماہرین مختلف سکلز سکھانے کے لیے یوٹیوب چینلز بنا رہے ہیں۔ یوٹیوب چینلز کو بامقصد بنایا جائے تو یہ آن لائن دنیا میں ایک تعمیری کام شمار کیا جاسکتا ہے۔  لیکن سنسنی پھیلا کر ویوز بڑھانا، لائکس کی خاطر جھوٹ گھڑنا اخلاقی زبوں حالی کے زمرے میں آتا ہے۔ بے شمار ایسے یوٹیوب چینلز موجود ہیں جو محض ویوز بڑھانے کے خاطر سنسنی خیز عنوان تلے جھوٹی خبر شائع کرتے ہیں۔ لمبی لمبی ویڈیوز بنا کر خود کا اور دیکھنے والوں کا وقت برباد کرتے ہیں۔ یوٹیوب چینلز بلکہ وسیع تر مفہوم میں سوشل میڈیا میں قیاس، مبالغہ، الزام اور دشنام سب چلتا ہے جو کہ تباہ کن ہے۔
تمام ممالک میں اطلاعاتی دیانت کی خاطر سوشل میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ لیکن کوئی مرتب قانون اور ضابطہ اخلاق کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان نے ملک میں دیگر اصلاحات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے لیے بھی جزوی طور پر ضابطہ اخلاق مرتب کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں وزارت اطلاعات و ثقافت کے شعبہ براڈ کاسٹنگ کے ڈائریکٹر مہاجر فراہی نے گذشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا: “گذشتہ چند سالوں میں ملک میں لاتعداد یوٹیوب چینلز بنائے گئے، جن میں سے کئی چینلز تعمیری مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں اور ان سے لوگ واقعی استفادہ کر رہے ہیں۔ مگر بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو خلاف حقیقت واقعات پر ویڈیوز بنا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وزارت اطلاعات نے ضابطہ اخلاق بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضابطہ کے مطابق ابتدائی طور پر ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق یوٹیوب چینل نہیں بنا سکے گا۔ بلکہ وہ وزارت اطلاعات کو یقین دہانی کرائے گا کہ یوٹیوب پر ان کے مقاصد واقعی تعمیری ہیں۔ اسلامی روایات، ملک کے وسیع تر مفاد اور افغانستان کی تہذیب و ثقافت کا خیال رکھے گا۔ یہ کہ وہ واقعی صحافی ہے اور یوٹیوب کو صحافتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے، یا اگر صحافی نہیں ہے تو یوٹیوب پر وی لاگ بنانے یا ویڈیو بنانے کا ماہر ہے۔ مہاجر فراہی کے مطابق صرف درج بالا امور کی یقین دہانی کرانے پر ہی یوٹیوب چینلز بنانے کی اجازت اور لائسنس دی جائے گی۔ اس سوال کے جواب میں کہ حکومت کس نوعیت سے میڈیا کو کنٹرول کر رہی ہے؟ انہوں نے کہا: “پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ہماری گہری نظر ہے۔ ہم اپنے مرتب نظام کے مطابق اسے کنٹرول کر رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے کو بلایا جائے گا اور اس سے باز پرس کی جائے گی۔ انہوں نے رفاہی تنظیموں کی پالیسیوں اور طرز عمل پر بھی زیر لب ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ” رفاہی تنظیمیں لوگوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے ان کی ذاتی حیثیت کو متاثر کرتی ہیں۔ جو کہ نامناسب طرز عمل ہے۔ اس طرز عمل کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس سوال کے جواب میں کہ اس ضابطہ اخلاق کا بنیادی محور اور دائرہ کار کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ تین چیزیں اس ضابطہ اخلاق کا محور ہے جو اسلامی احکامات، ملک کے وسیع تر مفاد اور افغانستان کی تہذیب و ثقافت ہے۔ جو شخص ان امور کا خیال رکھے گا وہی چینل بنانے اور اسے استعمال کرنے کی لائسنس دی جائے گی۔ باقی تمام چیزیں انہی اصولوں کی روشنی میں دیکھی جائیں گی۔ اس ضابطہ اخلاق کے نفاذ کا مقصد صحافت کو اس کے بنیادی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ جو عوام کے مسائل حکومت تک اور حکومت کا پیغام عوام تک پہنچانے اور دونوں طبقوں کے درمیان اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔