افسوس ہے ان کے حال پر!

آج کی بات:‏ مجاہدین نے اپنے زیرقبضہ علاقوں میں جنگ میں گرفتار ہونے والے دشمن کے اہل کاروں کے لیے مختلف جیلیں بنائے ہیں۔ ‏ ہلمند کے ضلع نادعلی کے علاقے ژڑپُل میں بھی مجاہدین کا ایک جیل موجود تھا، جس میں حالیہ جنگوں میں گرفتار ہونے والے اہل کاروں کو ‏رکھا گیا تھا۔ امارت […]

آج کی بات:‏

مجاہدین نے اپنے زیرقبضہ علاقوں میں جنگ میں گرفتار ہونے والے دشمن کے اہل کاروں کے لیے مختلف جیلیں بنائے ہیں۔ ‏

ہلمند کے ضلع نادعلی کے علاقے ژڑپُل میں بھی مجاہدین کا ایک جیل موجود تھا، جس میں حالیہ جنگوں میں گرفتار ہونے والے اہل کاروں کو ‏رکھا گیا تھا۔ امارت اسلامیہ کےمجاہدین کی پالیسی یہ ہے کہ جنگ میں گرفتار ہونے والے دشمن کے افراد چاہے وہ  پولیس، فوجی یا ‏ظالم ملیشیا کے اہل کار ہوں، اگر وہ کسی سنگین جرم میں ملوث نہ ہوں تو انہیں مختصر عرصہ قید میں گزارنے کے بعد انسانی ہمدردی کی بنا پر  رشتہ ‏داروں کی ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے، جو مجاہدین کا عوام کے ساتھ ایک بڑا احسان ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب ہزاروں کی تعداد میں دشمن کے اہل کار مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا بالکل مجاہدین کے شانہ بہ شانہ امریکا ‏اور ان کی کٹھ پتلیوں کے خلاف  لڑتے ہیں۔ ‏

پانچ دن قبل قندوز میں مجاہدین نے درجنوں قیدیوں کو بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا تھا۔ اور یہ سلسلہ افغانستان کے ہر علاقے میں مجاہدین نے ‏جاری رکھا ہے۔

گزشتہ دن ہلمند کے صوبہ نادعلی میں  بھی امارت اسلامیہ قیدیوں کی رہائی کے بارے میں ان کے رشتہ داروں کے ساتھ رابطے میں تھی۔ ‏انہیں جمعے کے دن ہلمند کے ضلع نادعلی پہنچنے کو کہا گیا تھا، تاکہ وہ یہ ضمانت دیں کہ مذکورہ قیدی دوبارہ امریکا کے ہاتھوں بنی اس منحوس ‏انتطامیہ کے ساتھ مل کر مجاہدین کے خلاف اسلحہ نہیں اٹھائیں گے۔ قیدیوں کے رشتہ دار بالکل تیار تھے کہ ہم  ہر قسم کی ضمانت دینے کے لیے تیار ‏ہیں۔ اس لیے مجاہدین نے قیدیوں کے رشتہ داروں کو رہائی کی یقین دہانی کرا دی تھی۔ لیکن اس سے قبل کہ مجاہدین اور قیدیوں کے رشتہ ‏داروں کی ملاقات ہوتی، امریکی طیاروں نے اس جیل پر حملہ کر کے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا، جس میں قید 22 اہل کار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، جب کہ کئی زخمی بھی ‏ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ جیل کی سکیورٹی پر مامور تین مجاہدین بھی جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔

رواں سال 28 جون کو  بھی امریکی جارحیت پسندوں نے قندوز میں مجاہدین کے ایک جیل پر حملہ کر کے  14 قیدی اہل کاروں کو ہلاک کیا ‏تھا۔ زرخرید غلام انتظامیہ نے اپنے آقاوں کے اس ظالمانہ حملے میں کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا۔ امریکا نے یہ کہہ کر ان کا منہ بند کرا دیا کہ “ہم ‏تحقیقات کریں گے۔”‏

اب بات یہ ہے جارحیت پسند کفار اور ان کے معاونین  غلاموں سے تو ویسے بھی کوئی شکایت نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ امریکا آیا ہی افغان ‏عوام کے قتل عام کے لیے ہے۔ اور ایک افغان کی زندگی اس کے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور جس نام سے بھی ہو اگر قتل ‏افغان ہو رہا ہو تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ افغان جو اسلامیت اور حریت پر غلامی کو  ترجیح دیتے ہوں، وہ اپنے ساتھی ‏اہل کاروں کی موت پر کبھی آنسو نہیں بہاتے۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ کابل کی کٹھ پتلی انتطامیہ امریکی جارحیت پسندوں کے قتل کی مذمت   ‏تو کرتی ہے، لیکن  افغان اہل کاروں کی بے وجہ موت پر اسے کوئی گم نہین ہے۔

ان اہل کاروں کے قتل پر نہ اشرف غنی نے تعزیت کی اور نہ میڈیا نے اس کے بارے میں کوئی رپورٹ دی ہے۔ اس لیے یہ افغان اہل کاروں کے ‏لیے عبرت کا مقام ہے۔ ‏

افسوس ان غلام اہل کاروں کی حالت زار پر  ہے، جو نہایت ہی خو ف زدہ حالت میں جی رہے ہیں اور “خسرالدنیا والآخره” کے عذاب میں ‏مبتلا ہیں۔

اپنے وطن اور اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف کفار کی صف میں شامل ہونا اور ان کے لیے جان دینا ایک تباہی اور کفار کی جانب سے ‏ان کے ساتھ یہ عمل دوسری تباہی ہے۔ یہ حالت واقعی افسوس ناک ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام بے راہ اہل کاروں کو راہ حق پر آنے کی توفیق ‏عطا فرمائے۔ آمین