افغانستان کسی کے لئے خطرہ نہیں ہے

آج کی بات میڈیا نے مشرق وسطی میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل پرانک مکینزی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے حالات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ ان کے مطابق غیر ملکی افواج کا مکمل انخلاء افغانستان سے امریکا کے لئے خطرہ کے خاتمے […]

آج کی بات
میڈیا نے مشرق وسطی میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل پرانک مکینزی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلا کے حالات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔
ان کے مطابق غیر ملکی افواج کا مکمل انخلاء افغانستان سے امریکا کے لئے خطرہ کے خاتمے سے مشروط ہے۔
امریکی جنرل کا یہ تبصرہ اس وقت سامنے آیا ہے جب صدر ٹرمپ اور دیگر اعلی حکام نے بار بار کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ افغانستان سے چلے جائیں ، حتی کہ ٹرمپ نے معاہدے کے تحت مقررہ سے قبل فوجی انخلا کا امکان مسترد نہیں کیا ہے۔
امریکا کی عسکری اور سیاسی قیادت ایک پیج پر ہے یا نہیں؟ یہ ان کا کام ہے لیکن افغانستان پر ناجائز فوجی قبضے کے خاتمے کے لئے افغان عوام کا حوصلہ جواب دے چکا ہے۔ پڑوسی اور علاقائی ممالک اور عالمی برادری سبھی مظلوم افغان عوام سے متفق ہیں۔ کہ افغانستان پر قبضہ جلد از جلد ختم ہونا چاہئے۔ اسی ناجائز قبضہ نے افغانستان کو تباہ کر دیا ہے۔ جنگ، بدامنی اور تمام بحرانوں کا باعث بنا ہوا ہے اور خطے کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
افغان عوام اب کسی صورت تیار نہیں ہیں کہ غیر ملکی جھوٹے بہانے تلاش کرکے اپنا قبضہ برقرار رکھیں۔ دوحا کا تاریخی معاہدہ ایک بہترین موقع ہے جس کی پاسداری کرنا فریقین کی ذمہ داری ہے۔ افغانستان کا 20 سالہ بلکہ 40 سالہ بحران کا خاتمہ قبضے کے خاتمے کے ساتھ ہی ہونا چاہئے۔
امریکی جنرل کا یہ دعویٰ کہ قابض افواج کے انخلا کے لئے حالات ابھی ٹھیک نہیں ہیں۔ بے جا ہے۔ امارت اسلامیہ نے دوحہ معاہدے میں جن نکات پر دستخط کردیئے ہیں۔ بہرحال اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہے کہ افغانستان کی سرزمین کبھی بھی امریکا سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن اس کے بدلے میں امریکا افغانستان سے اپنی تمام افواج واپس بلائے گا اور ہمارے ملک کو افغانوں کے حوالے کردے گا جو ہمارا بین الاقوامی انسانی حق ہے۔
چونکہ ابھی تک امریکی افواج کا انخلا مکمل نہیں ہوا ہے، حتی کہ معاہدے کے پہلے مرحلے پر امریکا اور اس کے افغان اتحادیوں نے مکمل عمل درآمد نہیں کیا ہے۔ پھر شرائط کو پورا نہ کرنے کے لئے انہیں امارت کو مورد الزام ٹھہرانے کا کیا جواز ہے؟
اگرچہ خود امریکی جنرل اعتراف کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ کبھی بھی امریکہ کے لئے خطرہ نہیں تھا اور نہ ہے لیکن اس کے باوجود امارت اسلامیہ کے موقف پر شک کرنے کا مطلب بہانے تلاش کرنا ہے۔
داعش نامی فتنہ جو افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران پیدا ہوا اور کابل انتظامیہ نے اس کو پروان چڑھایا۔ ابھی بھی کابل میں منظم طریقے سے اس کی پرورش جاری ہے۔
صرف امارت ہے جس نے پورے ملک میں اس کی جڑیں کاٹ دیں اور آئندہ کبھی بھی ہمارے ملک میں اس کی تباہ کن موجودگی کے لئے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔
القاعدہ کے نام سے جو عرب یا دیگر جنگجو جو امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں افغانستان میں تھے۔ اب ان میں سے کوئی بھی یہاں موجود نہیں ہے۔ امارت اسلامیہ پرعزم ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کی جانب سے بھی کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی کسی کو افغانستان سے خطرہ لائق ہوگا۔
ہم امریکی حکام سے بھی گذارش کرتے ہیں کہ وہ افغانستان پر قبضہ جاری رکھنے کے بہانے تلاش کرنا بند کردیں ، افغانستان میں جاری خونی جنگ کا خاتمہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ اور ملک میں دیرپا امن قائم رہے۔