کابل

افغانستان کے قدرتی ذخائر اور بہترین مواقع

افغانستان کے قدرتی ذخائر اور بہترین مواقع

 

تحریر: سیف العادل احرار

ایک دہائی قبل بین الاقوامی اداروں نے سروے میں واضح کیا کہ افغانستان کے قدرتی وسائل کی مالیت تین ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہے لیکن افغانستان میں طویل جنگوں اور بحرانوں نے ان قدرتی ذخائر کی کان کنی کا راستہ روکا تھا۔ افغانستان میں سونا، چاندی، پلاٹینم، لوہا، یورینیم، ٹائٹینیم، ایلومینیم، کوئلہ، گیس، تیل، زمرد، سیسہ، زنک اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی بہت سی کانیں موجود ہیں جن میں سے کئی ابھی تک دریافت نہیں ہوسکی ہیں۔ افغانستان میں قدرتی ذخائر کا ابھی تک کوئی تفصیلی سروے نہیں ہوا ہے جس سے ان کانوں کی اصل قیمت معلوم ہو سکے، تاہم افغانستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاس بے پناہ قدرتی ذخائر موجود ہیں اور ان کو نکال کر بہت جلد لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔

31 اگست کو امارت اسلامیہ کی وزارت معدنیات نے مختلف ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ 6 ارب 557 ملین ڈالر مالیت کے سات کانوں کے معاہدوں پر دستخط کیے، جس سے نہ صرف ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع ملیں گے بلکہ ہر سال قومی خزانے میں کروڑوں ڈالر کی آمدنی بھی جمع ہوگی۔

عصر حاضر کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومتیں قدرتی وسائل پر زیادہ انحصار نہ کریں بلکہ صنعت، معیشت اور دیگر شعبوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھیں، کیونکہ قدرتی وسائل ختم ہوتے ہیں لیکن اگر صنعت اور معیشت پر زیادہ توجہ دی جائے تو اس سے ممالک ترقی کریں گے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے پاس قدرتی وسائل دستیاب نہیں ہیں لیکن بہترین معاشی حالت اور صنعت کی وجہ سے دنیا پر راج کرتے ہیں۔ دوسری جانب دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جن کے پاس قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن ان کے لوگ سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں جن میں سے ایک افغانستان ہے۔ ان حالات میں امارت اسلامیہ قدرتی ذخائر سے ملک کی ترقی و تعمیر نو، صنعت، بجلی، تعلیم اور دیگر شعبوں میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے، کیونکہ ان قدرتی وسائل کے استعمال سے ایک طرف افغانستان کی یہ وسیع قدرتی دولت زمین سے نکلے گی، اس سے ملک کی معاشی حالت بہتر ہوگی، لوگوں کو روزگار ملے گا اور حکومت کے زر ذخائر میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کچھ معدنی مصنوعات کے استعمال پر پابندیوں کی بات کر رہی ہے جن میں سے ایک کوئلہ ہے اور افغانستان میں کوئلے کی اتنی کانیں موجود ہیں جو دو صدیوں میں بھی ختم نہیں ہوسکتی ہیں۔

پیشہ ورانہ معاہدے:
عام طور پر معاہدوں میں دونوں فریق زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک کمپنی جو اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرتی ہے اس کے سامنے زیادہ منافع حاصل کرنا مدنظر ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر افغانستان میں بھی وزارت معدنیات کے حکام معاہدوں میں ملک کے مفادات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور معاہدوں میں کمپنیوں پر ملکی مفاد کے پیش نظر شرائط لاگو کرتے ہیں۔ مثلا تمام ملازمین افغان شہری ہوں گے، کمپنی کا تمام کام ملک کے اندر ہونا چاہیے، جس کا ذکر ہرات کے لوہے اور اسٹیل کے معاہدے میں بھی ہے کہ لوہے کا تمام کام ملک کے اندر کیا جائے گا۔ سڑکوں کو پختہ کرنا، بجلی کی فراہمی، کان کنی کے عمل کی مسلسل نگرانی، غیر ملکیوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کے لیے پرعزم افغانوں کو بھرتی کرنا اور بہت سے دوسرے مسائل ہیں جن پر اس شعبے میں غور کیا جاتا ہے۔

افغانستان دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے لیکن لوگوں کی زندگی امیر ملک جیسی نہیں ہے۔ افغانستان کو اب بھی کئی شعبوں میں تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ ملک کی زیادہ تر بجلی درآمد کی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس ہمارے ملک میں وافر مقدار میں پانی موجود ہے اور کئی علاقوں میں پاور پلانٹس کی تعمیر کی سہولتیں موجود ہیں۔ قومی شاہراہیں خراب ہیں، ہمارا نظامِ صحت تقریباً مفلوج ہے، ہمارے ملک میں علاقائی سطح پر قابل ذکر یونیورسٹیاں قائم نہیں ہیں، ہمارا تعلیمی نظام بہت پسماندہ ہے اور دیگر سینکڑوں مسائل حل طلب ہیں۔

ان تمام مسائل کے حل کے لیے ہمارے پاس صرف قدرتی ذخائر موجود ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کو اس شعبے میں راغب کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ ہوں، جس سے دونوں کو فائدہ ہوگا۔ اسی ضرورت کے تحت امارت اسلامیہ نے قدرتی ذخائر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی پالیسی اختیار کی ہے۔