کابل

افغانی کی ریکارڈ پرفارمنس، تیسری بہترین کرنسی قرار

افغانی کی ریکارڈ پرفارمنس، تیسری بہترین کرنسی قرار

 

تحریر: سیف العادل احرار
حال ہی میں افغانستان کی کرنسی افغانی کی قدر اور استحکام میں غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے اور اس نے بین الاقوامی سطح پر تیسرا مقام حاصل کیا ہے، جس پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف حلقوں کی جانب سے تبصرے ہو رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں افغان کرنسی کی قدر میں کس وجہ سے اضافہ ہوا ہے، اس حوالے سے فنانشل معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے ادارے بلوم برگ نے اپنی ایک رپورٹ میں غیر ملکی کرنسیوں بالخصوص ڈالر کے مقابلے افغانی کی قدر میں استحکام اور بہتری کے عوامل کا تجزیہ کیا ہے۔

اس تحقیقی رپورٹ میں کئی اہم وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے، جن کی وجہ سے افغانی کی قدر میں حالیہ مہینوں میں اضافہ ہوا ہے، جن میں افغانستان کا ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرنا، غیر ملکی کرنسیوں کے استعمال پر پابندی لگانا اور عالمی برداری کی جانب سے انسانی امداد کی فراہمی نے افغانی کی قدر پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔

آج کے روز ایک امریکی ڈالر لگ بھگ 77 افغانی کے برابر ہے۔ افغانی کی قدر میں بہتری کے ساتھ ہی بعض اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کچھ کمی آئی ہے اور توقع ہے کہ دس سے پندرہ دنوں میں قیمتوں میں مزید کمی آئے گی۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ کی کامیاب پالیسیوں کے نتیجے میں افغانی کی قدر میں اضافہ ہوا ہے اور افغانی کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت کی جانب سے حال ہی میں کیا جانے والا فیصلہ قابل تحسین ہے جس میں ملکی پیداوار بڑھانے اور افغانی مصنوعات کو فروغ دینے کے لئے غیر ملکی اشیاء پر دس فیصد ٹیکس بڑھا دیا ہے تاکہ تاجر برداری اور عوام اپنی ملکی یا افغانی مصنوعات استعمال کرنے پر مجبور کرسکے۔ اگر ملکی منڈیوں میں ممکنہ طور پر ملکی مصنوعات کو استعمال کیا جائے تو یہ افغانی کی قدر اور استحکام کو بلند رکھنے کے لیے بہترین طریقہ ہوگا جو کہ ہر افغان کی ذمہ داری ہے۔

ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے چیمبر آف کامرس کے حکام اور تاجروں نے امارت اسلامیہ کے حالیہ اقدامات کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور امارت اسلامیہ کے آنے کے بعد ان کے بہت سارے مسائل حل ہوئے ہیں اور مشکلات میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے مارکیٹ کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔

افغان چیمبر آف کامرس کے بورڈ کے رکن اور پاک افغان مشترکہ چیمبر کے رکن خان جان الکوزئی نے اس حوالے سے بتایا کہ امارت اسلامیہ کے آنے کے بعد جو سب سے بڑا کام ہوا ہے وہ امن کا قیام ہے۔ ان کے مطابق پہلے سامان کی ترسیل کے دوران مختلف جرائم پیشہ گروہ ٹیکس کے نام پر تاجروں سے ‘بھتہ’ لیتے تھے جس کا اب خاتمہ ہو چکا ہے اور اب کسی اضافی لاگت کے بغیر سامان آسانی سے منڈی میں پہنچ جاتا ہے جبکہ دیگر ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان سے بھی سامان کی ترسیل آسان ہوئی ہے۔

خان جان کے مطابق اب ایک ہی حکم ہے اور سب کو ایک طرح سے ڈیل کیا جاتا ہے اور مختلف شعبوں میں سخت کنٹرول کے باعث بہت بہتری آئی ہے۔

مقامی ایکسچینج ڈیلرز کے ایک نمائندے کے مطابق حکومت نے ملک میں پاکستانی روپے سمیت دیگر کرنسیوں کے استعمال پر پابندی لگائی ہے اور فی الوقت تجارت کے لیے صرف افغان کرنسی کے استعمال کا حکم دیا گیا ہے جس وجہ سے افغان کرنسی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔

لوگ اس بات پر حیران ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں موجودہ حکومت کو دنیا کا کوئی ملک باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو عالمی پابندیوں کی زد میں ہے، جس کے بیرون ممالک اثاثے منجمد ہیں اس کی کرنسی میں ایسا خاص کیا ہے کہ یہ گذشتہ تین ماہ کے دوران دنیا کی ’بیسٹ پرفارمنگ‘ کرنسی رہی ہے۔

گذشتہ مہینے کے آخر میں یہ خبر سامنے آئی کہ ڈالر کے مقابلے میں افغانی اتنی مضبوط ہوئی ہے کہ ایک ڈالر 72 افغانی کے برابر ہو گیا۔

بلوم برگ کی رپوٹ کے مطابق رواں سال جولائی سے اب تک افغانستان کی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں 9 فیصد بہتر ہوئی ہے جس کے بعد یہ کولمبیا کی ’پیسو‘ اور سری لنکا کے ’روپے‘ کے بعد تیسری بہترین کارکردگی دکھانے والی کرنسی کے طور پر سامنے آئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بہتری کی بڑی وجہ افغان حکومت کا کرنسی پر کنٹرول اور بیرون ممالک مقیم افغان شہریوں کی طرف سے اپنے رشتہ داروں کو بھیجے جانے والی ترسیلات زر میں اضافے کے باعث ہوا ہے۔

بینک آف افغانستان کے نمائندے حسیب اللہ نوری کے مطابق افغان بینک افغانیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے ہر ہفتے تقریباً 16 ملین ڈالر کی نیلامی کرتا ہے۔

بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق اس حقیقت کے باوجود کہ افغانی کی قدر میں بہتری آئی ہے۔ ڈالرز کی بیرون ملک منتقلی کو روکنا بھی حکومتِ افغانستان کی جانب سے اٹھایا گیا ایک قابلِ ذکر اور قابلِ تحسین اقدام ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق افغان حکومت کی کامیاب پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں معاشی صورتحال میں مسلسل بہتری آرہی ہے جو خوش آئند امر ہے اور بڑے بڑے میگا پروجیکٹ کے انعقاد سے عوام میں خوشی کا سماں ہے جو ایک جنگ زدہ ملک کے لئے نیک شگون امر ہے۔