افغان صدارتی انتخابات کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کار جناب خبیر احمد مجاہد سے گفتگو

جارحیت کی موجود گی میں انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں ۔     سوال : جناب مجاہد صاحب !سب سے پہلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آ پ کو معلوم ہے امریکی اور دوسری جارحیت پسند قوتیں افغانستان سے نکلنے والی ہیں ۔ عام تجربہ یہی ہے کہ جارحیت پسند جہاں سے بھی […]

جارحیت کی موجود گی میں انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں ۔

 

 

سوال : جناب مجاہد صاحب !سب سے پہلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آ پ کو معلوم ہے امریکی اور دوسری جارحیت پسند قوتیں افغانستان سے نکلنے والی ہیں ۔ عام تجربہ یہی ہے کہ جارحیت پسند جہاں سے بھی اور جس خطے سے بھی فرار ہوتے ہیں اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔ اس حوالے سے فرار ہوتے دشمنوں کا معاملہ افغانستان کے ساتھ کیا ہوگا اور کیسے ہوگا ؟

جواب : یہ بات ہرکوئی جانتا ہے کہ گذشتہ تیرہ برسوں کے دوران عسکری اور غیر عسکری سارے محاذوں پر امریکا کا جتنا بس چلا اپنی زور آزمائی کردی ۔ ہزاروں افغانوں کو تہہ تیغ کیا اور لاکھوں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ اس جنگ میں 7 کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے ۔ افغانستان کی شکست وریخت کی سازشیں کیں ۔ ڈالروں اور دیگر امتیازات سے نواز کر افغانوں کو اپنے کلچر اور اپنی تہذیب سے بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی ۔ مگر پھر بھی انہیں ناکامی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ۔ میرے خیال میں جبر اور زبردستی کی کوئی ایسی کوشش نہ ہوگی جسے امریکیوں نے افغانوں پر نہ آزمایا ہومگر اس کے باجود نتیجہ برعکس رہا ۔

آپ دیکھ رہے ہیں امریکا اس نام نہاد نیشنل آرمی پر بھی ایک لمحے کے لیے اعتماد کرنے کو تیار نہیں جسے بنانے کے لیے امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کیے ۔ جس کی تربیت خاص اسی لیے کی گئی تھی کہ امریکی مفادات کے لیے لڑے ، افغانوں کو قتل کرے اور جنگ  کی آگ بھڑکائے رکھے ۔ اب امریکی اس بات پر بھی تیارنہیں کہ اپنا استعمال شدہ فوجی ساز وسامان ان کے حوالے کرکے جائیں ۔ ہمارے خیال میں امریکیوں کے سامنے اب صرف اربکیوں کا ناپاک منصوبہ ہے جو امریکی انخلاء کے بعد ان کے خیال میں مجاہدین سے لڑتے رہیں گے ۔ مگر وہ بھی افغانوں کی جرات اور استقامت کا مقابلہ نہ کرسکااور 2014 کے اختتام سےقبل ہی  شکست سے دوچار ہوگیا ۔ ہر جگہ مجاہدین پوری کامیابی سے عوام اور بزرگوں کے تعاون سے کام کررہے ہیں اور اربکیوں کی جڑیں اکھیڑ رہے ہیں ۔ میرے خیال میں امریکی اس ملک میں مکمل مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں اور حوصلہ ہار گئے ہیں ۔ امریکی اگر نکل جائیں تو ہمارے خیال میں یہاں ان کا کوئی ایسا بنیادی سرمایہ نہیں جو ان کے کام آتا رہے ۔ جسے وہ استعمال کرکے اپنے مفادات سمیٹتے رہیں ۔ کیوں کہ امریکیوں نے اپنے ان مزدورں سے بھی وفاداری نہیں نبھائی جنہوں نے دین ، ایمان ، غیرت اورملک وملت سب کچھ امریکیوں کی خاطر داؤ پر لگادیا تھا ۔

ایک بات جو انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ امریکیوں نے ایسا پروپیگنڈہ کیا تھا کہ افغانستان میں ان کے خلاف صرف جنوبی خطوں میں مزاحمت جاری ہے ۔ مگر امارت اسلامیہ کے وسیع سٹریٹجی نے ان کے اس زہریلے پروپیگنڈے کا جواب اس وقت دیا جب  گذشتہ چند سالوں سے جنوب ہو یا شمال پورے ملک میں جہاد اور قربانی کا سلسلہ پوری ہم آہنگی سے شروع ہوگیا ۔ بایں معنی کہ اب صرف ہلمند ، کنڑ اور پکتیا ہی میں نہیں بدخشان ، مزار ، فاریاب اور دیگر شمالی علاقوں میں بھی بیرونی واندرونی دشمنوں کے خلاف مجاہدین کے حملے جاری ہیں ۔

سوال : ذرائع ابلاغ پر کافی عرصے تک بیرونی قوتوں کی جانب سے کابل انتظامیہ کو اختیارات اور اقتدار کی منتقلی کی بات چل رہی تھی ۔ اس طرح کابل انتظامیہ کےحکام بھی کچھ عرصہ سے ایسی اداکاری کی کوشش کررہے ہیں جیسے وہ وہائٹ ہاؤس کے ہم سر اور حریف ہوں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں افغان صدارتی محل اپنے فیصلوں میں آزاد ہے ؟

 

جواب : گذشتہ 13 سالوں سے امریکی افغانستان میں اپنی تمام تر ناکامیوں پردہ  ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ عوام کے سامنے خود کو بے قصور اور تمام ذمہ داریوں سے مبرا ظاہر کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ۔ اپنی ناکامی اور جرائم کا طوق اپنے کٹھ پتلیوں کے ذمے ڈالنے کےلیے ہی اختیارات اور اقتدار کی منتقلی کا ڈرامہ رچایا گیا ۔ تاکہ  افغان عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی اورا افغانستان کی بنیادی تعمیر نو میں بیرونی امداد سے فائدہ نہ اٹھانے کی ساری ذمہ دار کابل انتظامیہ کی گردن پر ہو ۔

امریکا چاہتا ہے کہ کابل کے صدارتی محل کے حاکموں کو منظر سے ہٹاکر کوئی نیا چہرہ صدارتی محل میں لایا جائے تاکہ دنیا کے سامنے تبدیلی اور انقلاب کا پروپیگنڈا کیا جائے ۔ مگر دوسری جانب صدارتی محل کا موجودہ حاکم بھی جانتا ہے کہ مزید وہ یہاں رہنے والا نہیں ۔ اس لیے وہ بھی صدارتی محل میں اپنے آخری لمحات یاد گار بنانے کے لیے بقول آپ کے “اداکاریاں کررہا ہے “۔ آزادی اور استقلال کے نعرے لگارہا ہے ۔ افغان عوام کی ہمدری حاصل کرنے  کے لیے ہمدردی کے چند الفاظ بول رہا ہے ۔ میرے خیال میں امریکا اور صدارتی محل کے حکمرانوں کے یہ سارے حرکات مصنوعی ہیں۔ افغان عوام سے ان کی دشمنی حسب سابق قائم ودائم ہے ۔ دونوں فریق آپس کی مفاہمت سے افغان عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں ۔ گذشتہ 13 سالوں میں افغانوں سے کیا کیا دغابازیاں نہ کی گئیں ، انہیں کیسے کیسے دھوکے نہ دیے گئے ، ان سب میں امریکا اور صدارتی محل سب برابر کے شریک رہے ۔ افغان عوام کو چاہیے ایسے معاملات کو سطحی نظر سے نہ دیکھیں ۔ صدارتی محل اور امریکا کے تیرہ سالوں میں ہونے والے ہر ہر ظلم اور ہر ہر جبر کو ذہن میں رکھیں ۔ اور آپ دیکھیں اب بھی صدارتی محل کے مکینوں کو تنخواہ اور جیب خرچ امریکیوں کی جانب سے ملتاہے  تو کیسے یہ یقین کیا جائے کہ وہ آزاد اور خودمختار حاکم ہیں ۔ میرا جہاں تک خیال ہے امریکا بھی روس کا تجربہ دہرانا چاہتا ہے ۔ روسی بھی جب فرار ہوکر جارہا تھا تو اقتدار اپنے کٹھ پتلی ڈاکٹر نجیب کے حوالے کرکے گیا تھا ۔

سوال : آپ کے خیال میں افغانستان میں انتخابات کا سلسلہ کس حدتک واقعی اور سچا ہے ۔ انتخابات آزادانہ ہوں گے یا وہائٹ ہاؤس کے مفادات کے لیے کیے جائیں گے ؟

جواب : آپ جانتے ہیں ان جعلی انتخابات میں کس طرح کے چہرے نامزد کیے گئے ہیں ؟  ان کی فنڈنگ کہاں سے کی جاتی ہے ؟ انتخابی مہم چلانے کے اخراجات کون دیتا ہے ؟  اور کون کس کے حق می کس کے اشارے پر دستبردار ہوتا ہے ؟  بہر حال  ۔ ۔ ۔ بات وہی ہے جس کی جانب امارت اسلامیہ کے اعلامیہ میں اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ انتخابات پہلے وہائٹ ہاؤس یا امریکی اور سیکیورٹی فورسز کی بلڈنگ میں ہوں گے ۔ وہیں فیصلہ کیا جائے گا کہ کرزئی کا متبال کون ہوگا ۔ اور کس طرح کی ٹیم ان کے ساتھ کام کرے گی ۔ افغانستان میں اس طرح کے چلائے جانے والے کیمپین سب نمائشی ہیں ۔ سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے حال ہی میں چھپنے والی اپنی کتاب میں اس بات کی جانب بہت واضح اشارہ کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا کہ 2009 کے انتخابات عالمی سطح پر دھاندلیوں سے بھر پور رہے ۔ یہاں تک کہ آدھے بکس جعلی پرچیوں سے بھرے گئے تھے ۔ ان کے بقول یہ سب امریکا کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھا بلکہ امریکا یہ سب کچھ دیکھ کر انجان بن رہا تھا تاکہ انتخابات کا سلسلہ کسی حدتک چلتا رہے اور دنیا کو یہ دکھایا جاسکے کہ ہم نے شفاف نہ ہونے کے باوجود جمہوری عمل کو آگے بڑھایا ۔

جب 2009 کے انتخابات میں 80 فیصد انتخاب جعلی تھا اور امریکیوں نے اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لیے ان نتائج کو تسلیم بھی کرلیا ۔ تو اب تو سال 2014 کا ہے ۔ کابل انتظامیہ کے کرپشن ، جھوٹ اور دھاندلیوں کی کہانیاں دنیا بھر میں زبان زد عام ہیں ۔ مجاہدین کی قوت کا اندازہ بھی سب کے سامنے ظاہر ہے کہ صدارتی محل اور دیگر حساس علاقے تک ان کے حملوں سے محفوظ نہیں ہیں ۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کس طرح کے انتخابات ہوں گے ؟ انتخابات کا حلقہ کون سا ہوگا ؟ سیکیورٹی کی کیا صورتحال ہوگی ؟ اور 2009 کی بہ نسبت اس بار دھاندلی کی سطح کتنی اونچی رہے گی ؟ اور پھر ان انتخابات کے نتیجے میں کیسے حلقہ بگوش شخصیات سامنے آئیں گی ۔ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک جھوٹا ڈرامہ ہے ۔ امریکا جاتے جاتے حکومت اپنے ایسے “پس ماندگان ” کو دینا چاہتا ہے جو ان کے بعد ان کا دیا ہوا فریضہ  بھر پور طریقے سے نبھائیں ۔

سوال : امارت اسلامیہ نے اپنے ایک علامیہ کے ذریعے عوام سے مطالبہ کیا کہ انتخابات میں شرکت نہ کریں ۔الیکشن کمیشن کے کارکنوں کو دھمکیاں دی ہیں کہ انہیں بھی حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا آپ بہ حیثیت ایک مبصر امارت اسلامیہ کے اس موقف کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

جواب : میں نے وہ اعلامیہ پڑھا تھا ، اس میں بہت اہم اور جامع نکات کا ذکر کیا گیا تھا ۔ امارت اسلامیہ نے منطقی طور پر انتخابات کے نقصانات بتائے ہیں ۔ انتخابات کو کفار کی ایک سازش قرار دیا ۔ ان کی اتباع کو ایک ناجائز عمل کہا ۔ دشمن کی سازشوں اور انتخابات کی حقیقت کی جانب واضح طورپر اشارہ کیا ۔ امریکی حلقے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں آئندہ انتخابات گذشتہ انتخابات سے بھی زیادہ دھاندلیوں سے بھر پور ہوں گے ۔ تو جہاں ایک جانب شفافیت کی صورتحال یہ ہو کہ دشمن خود بھی دھاندلی کا اعتراف کرے ، انصاف کی امید بھی نہ کی جاسکتی ہو اور دوسری جانب امریکی فوجی قدم قدم پر انتخابی مراکز کی نگرانی کے لیے کھڑے ہوں اور اوپر سے ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کے گشت چل رہے ہوں ۔ ایسے انتخابات میں شرکت کو امریکا سے براہ راست تعاون اور ایک اسلام دشمن منصوبے کی خدمت کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ۔ اور پھر ہمارے سامنے قرآنی حکم ہے کہ مسلمان کفار سے محبت نہ کریں ۔ ہمارے خیال میں انتخابات میں شرکت بھی کفر کی جانب میلان اور ان سے محبت ہے ۔ انتخابات میں شرکت سے کفر کے ساتھ تعاون اور  دین کا یقینی نقصان ہوگا ۔ اس لیے اس کی روک تھام اور مخالفت ہونی چاہیے ۔

سوال : انتخابات ایسے وقت میں ہورہے ہیں کہ اب موسم اور ہوا کی گرمی کے ساتھ مجاہدین کے حملوں میں بھی شدت آرہی ہے ۔ ملک کے اکثر علاقوں پر مجاہدین کے مستحکم قبضے کے بعد کیا یہ امکان ہے کہ افغانستان کے تمام علاقوں میں انتخابات ہوں گے ۔

جواب : میں اپنے گاؤں کی صورت حال بتاتا ہوں ، ہم صوبائی مرکز سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں ۔ ہمارا گاؤں تقریبا 4 ہزار گھروں پر مشتمل ہے ۔ گذشتہ صدارتی انتخابات میں دو دن قبل انتخابی مہم چلانے والے  گاؤں کے لوگوں کو ڈالر دے کر خفیہ طریقہ سے صوبائی مرکز لے گئے تھے اور خفیہ طریقہ سے کسی سرکاری عمارت میں ان سے ووٹ ڈلوائے تھے ۔ یقین کریں ان  کی کل تعداد 4 سو بھی نہ تھی ۔ کہاں 4 ہزار گھر اور کہاں 4 سوافراد ۔ 4000 گھروں پر مشتمل ہمارا گاؤں ایک باقاعدہ ضلع کی حیثیت رکھتا ہے یہاں نہ کوئی صندوق لایا گیا اور نہ کوئی ووٹ ڈالا گیا ۔ اب آپ خود فیصلہ کریں 2014 کے انتخابات میں صورتحال کیا  ہوچکی ہوگی ۔ اس لیے کہ مجاہدین 2009 کی بہ نسبت آج کئی گنا زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوچکے ہیں ۔ ماضی کی بہ نسبت عوامی حمایت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ملک کے اکثر حصے مجاہدین کے قبضے میں ہیں ۔حکومت کے زیر قبضہ علاقوں پر بھی مجاہدین کے اثرات قائم ہیں ۔

سوال : آخر میں افغان امور کے ایک تجزیہ کارکی حیثیت سے افغانستان کے لوگوں یا عالمی دنیا کے لیے آپ کی امیدیں اور پیغام ہمارے ساتھ شیئر کریں ۔

جواب : عالمی جارحیت پسند افغانستان آئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انتخابی ڈرامے جیسے جبری اور تزویراتی منصوبوں کی تکمیل کریں ۔ عملی جارحیت کے دوران جب ہزاروں فوجیوں کی موجود گی میں انہیں اپنے مقاصد حاصل نہ ہوسکے تو اس طرح کے جعلی منصوبوں اور سازشوں سے ہر گز یہ اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے ۔

افغانستان میں اب مزید ان کی مصروفیت نقصان اور رسوائی کے علاوہ انہیں کچھ بھی نہیں دے گا ۔ جن لوگوں اور شخصیات کی یہ لوگ یہاں تنصیب کرنا چاہتے ہیں ان کی جڑیں عوام میں نہیں ۔ اس لیے عسکری جارحیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ غیر مرئی سیاسی جارحیت اور بے جا مداخلت  کا باب بھی اب بند ہوجانا چاہیے ۔

جیسا کہ افغان عوام صورت حال سے واقف ہیں ۔ انہیں متوجہ رہنا چاہیے کہ انتخابات ایک امریکی ڈرامہ ہے جسے ذرائع ابلاغ کے زور پر عام لوگوں سے منوایا جارہا ہے ۔ جارحیت کی صورت میں انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ، ایسے حالات میں جب کابل انتظامیہ کے تمام تر حکام کی فنڈنگ امریکا کرتا ہے اور یہاں تک کہ اکثر حکام کے پاس مغربی ممالک کی شہریت ہے کس طرح ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ملک کے آزاد اور خود مختار حاکم ہوں گے ۔

ہمارے ہم وطنوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جارحیت پسند اور ان کے ساتھی ظالم ہیں ۔ انہیں لوگوں نے افغانوں کے حقوق غصب کیے ۔ اگر کوئی ان کی سازشوں میں یا ان کے منصوبوں کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیتا ہے تو بلاشبہ ان کی گناہوں میں یہ شخص بھی شریک ہوگا ۔

حل کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہمارے اسلامی ملک سے کفری جارحیت کا اب خاتمہ کیا جائے تاکہ افغان عوام ایک خالص اسلامی نظام ، پرامن شاندار مستقبل اور ترقی یافتہ افغانستان کی بنیاد ڈال سکیں ۔