افغان مسئلہ فضائی حملوں سے حل نہیں ہوتا

  ہفتہ وار تبصرہ اس حال میں کہ امریکی فریق سے جارحیت کے خاتمہ کے معاہدے پر دستخط ہوا اور ملکی سطح پر بھی بین الافغان مذاکرات جاری ہیں۔ امن اور صلح کے اس ماحول میں ایک بار پھر امریکی فضائی حملوں میں شدت آنے کی اطلاع دی جارہی ہے۔ دوحہ معاہدے کی رو سے […]

 

ہفتہ وار تبصرہ

اس حال میں کہ امریکی فریق سے جارحیت کے خاتمہ کے معاہدے پر دستخط ہوا اور ملکی سطح پر بھی بین الافغان مذاکرات جاری ہیں۔ امن اور صلح کے اس ماحول میں ایک بار پھر امریکی فضائی حملوں میں شدت آنے کی اطلاع دی جارہی ہے۔

دوحہ معاہدے کی رو سے امریکی پابند ہے کہ غیرمناسب بمباریاں، ڈرون حملے، رات کے چھاپے اور دیگر جنگی سرگرمیوں کو ختم کردیں۔ مگر امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب قاری محمد یوسف احمدی نے چند روز قبل اطلاع دی کہ  امریکا نے ملک کے چند علاقوں میں جنگی حالت کے بغیر ڈرون حملے کیے ہیں، جو کہ  دوحہ معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

امریکی افواج نے گذشتہ 19 برسوں سے افغانستان میں بمباری کے سلسلے کو جاری رکھا اور اس سلسلے میں بی 52 بمبار طیاروں سے لیکر سے مختلف النوع جنگی طیارے، ہیلی کاپٹرزاور ڈرون طیاروں سمیت اپنی فضائیہ کی تمام تر قوت کی آزمائش کی ۔  کیمیکل  اور دیگر ممنوعہ اسلحہ سمیت  مختلف ہلاکت خیز وسائل ہمارے ملک اور قوم پر برسائے ، مگر ان تمام تکالیف کے باوجود امریکا نے کوئی قابل توجہ نتیجہ اخذ نہیں کیا۔ ان طویل اور ناکام تجربات کے بعد امریکا کو اس نتیجے پر پہنچا چاہیےتھا ،کہ بمباریاں راہ حل نہیں ہے  اور افغان مسئلہ بمبار اور طیاروں کی قوت پر حل نہیں ہوتا۔

وہ فضائی حملے جو دوحہ معاہدے سے متصادم ہوتے ہیں،علاوہ ازیں کہ افغان مسئلہ میں امریکی فریق کو قصوروار ٹہرا دے،اس کے بغیر کوئی نتیجہ نہیں سامنے نہیں لاتا۔ اس طرح خلاف ورزیاں دنیا پر یہ ثابت کردے گا کہ امریکی فریق اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہتا اور اس طرح تاثر امریکی حکام کے لیے افغانستان میں فوجی اور سیاسی ناکامی کے بعد ایک اور اخلاقی شکست ہوگا،جس سے امریکا دنیا کے سامنے وعدہ خلاف فریق کے طور پر ٹابت ہوجائےگا۔

امارت اسلامیہ دوحہ معاہدے کو فریقین کے لیے ایک کامیابی اور حل کا موقع سمجھتی ہے۔یہ موقع  ضائع نہیں ہونا چاہیے اور اس کے تحفظ اور تقویت کے لیے تمام فریقوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں  ادا کرنا چاہیے۔امریکی فریق کو ایک بار پھر امارت اسلامیہ بتلاتی ہے کہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کسی کے مفاد میں نہیں ہے،اسی لیے بار بار دہرانے والی خلاف ورزیوں کو ختم کرنا چاہیے۔

ہمیں یقین ہے، جیسا کہ گذشتہ 19 برسوں میں استعمار کی مختلف جنگی پالیسیاں ہماری مؤمن قوم کے جائز جدوجہد اور حریت پسند مطالبے کے مقابلے میں رکاوٹ نہ بن سکیں، اب بھی جارحیت کے خاتمہ اور صلح کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرنے والے فریق کے طلب جنگ اقدامات سے ہماری قوم کے عزائم کے خلاف مانع نہیں بن سکتے۔

افغانستان میں امن کے خواہاں تمام فریقوں کو امارت اسلامیہ بتلاتی ہے کہ دوحہ معاہدے سے امریکی خلاف ورزیوں کے موضوع کو سنگین لے اور معاہدے کے نفاذ کی نگرانی کریں۔ امارت اسلامیہ اس حصے میں اپنے اخلاق اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور ذمہ دارانہ برتاؤ کرتی ہےاور  مخالف فریق کو بھی ذمہ داری کی دعوت دیتی ہے۔