اقوام متحدہ محتاط رہے!

آج کی بات: میڈیا رپورٹس کے مطابق “امریکی افغانستان” کے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی نے کابل کے دورے پر آئے ہوئے  اقوام متحدہ کے ایک وفد سے  مطالبہ کیا ہے کہ امارت اسلامیہ کے رہنماؤں، خاص طور پر امیرالمومنین شیخ ہبت اللہ اخونذادہ صاحب کا نام بلیک لسٹ میں شامل  کیا جائے۔ امریکا اور […]

آج کی بات:

میڈیا رپورٹس کے مطابق “امریکی افغانستان” کے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی نے کابل کے دورے پر آئے ہوئے  اقوام متحدہ کے ایک وفد سے  مطالبہ کیا ہے کہ امارت اسلامیہ کے رہنماؤں، خاص طور پر امیرالمومنین شیخ ہبت اللہ اخونذادہ صاحب کا نام بلیک لسٹ میں شامل  کیا جائے۔

امریکا اور اقوام متحدہ کی جانب سے سامنے آنے والی بلیک لسٹ اور پھر اس میں اپنے مخالف افراد و تنظیموں کے نام شامل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

امارت اسلامیہ کے خلاف اس سے قبل  بھی اقوام متحدہ امریکی ایما پر اپنی دشمنی کے اظہار کے لیے ہمارے رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ میں شامل کر چکی ہے، جس سے اقوام متحدہ کی غیرجانب داری پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں۔

اقوام متحدہ دنیا کے پیچیدہ مسائل حل کرنے کے بجائے اس قسم کے اقدامات سے دنیا کو بے سکونی کی دلدل میں گھسیٹ رہی ہے۔ اس سے اقوام متحدہ  کی ساکھ عالمی سطح پر مجروح ہوئی ہے۔

کابل کے کٹھ پتلی اشرف غنی ان حالات میں اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں، جہاں ان کی اپنی انتظامیہ کو مجاہدین کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ عوام کی جانب سے اشرف غنی کو مکمل طور پر مسترد کیا جا چکا ہے۔ وہ کبھی بھی بین الاقوامی سطح پر اپنی آبرومندانہ حیثیت نہیں بنا سکے۔ ان کی انتظامیہ باہمی جھگڑوں، لسانی اور علاقائی تعصب اور بے انتہا کرپشن میں خطے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

اس لیے امارت اسلامیہ کے خلاف اس قسم کی بچگانہ حرکات کو اقوام متحدہ کی جانب سے کوئی حیثیت نہیں دی جانی چاہیے۔ کیوں کہ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے کئی ممالک ایک جانب امارت اسلامیہ کو امن مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری جانب کابل  کا کٹھ پتلی ادارہ امارت اسلامیہ کے رہنماؤں کے نام  بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے مطالبات کر رہا ہے، جو دو متضاد صورتیں ہیں۔

اقوام متحدہ کے لیے اچھا اقدام یہ ہوگا کہ افغانستان بارے ایسی پالیسی اختیار کی جائے کہ وہ واقعی افغان مسئلے کا حل ہو۔ یہ نہیں ہونا چاہیے وہ اقدام کسی پالیسی کے بجائے امریکی سازش ہو!! جو غیرملکی جارحیت پرست ممالک اس مسئلے کی اصل جڑ ہیں، اقوام متحدہ کو چاہیے انہیں افغانستان سے نکالنے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ کابل کے شیطانی ادارے کے مطالبات پر عمل سے افغانستان سمیت وہ ممالک بھی بھاری نقصان سے دوچار ہوں گے، جو اقوام متحدہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

یاد رہنا چاہیے کہ افغانستان میں امارت اسلامیہ ہی وہ واحد طاقت ہے، جو افغانستان پر اچھی طرح حکومت کر سکتی ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر افغان عوام کی مکمل نمائندگی کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے لیے بھاری بھر کم امتحان کی گھڑی ہے اور اشرف غنی کی فسادانگیز بچگانہ فرمائش کو حیثیت دینا بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ یہاں پر کوئی بھی قدم سوچ سمجھ کر ہی اٹھانا ہوگا۔