اقوام متحدہ کا سالانہ اجلاس  اور امت مسلمہ کا غم

آج کی بات 1945ء میں جنگ اور جنگ کے عوامل کی روک تھام اور انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر اقوام متحدہ  کے نام سے بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اقوام متحدہ نے بھی ظاہری طور پر اپنے منشور میں  لکھا کہ جنگ ، بغض اور ناانصافی کے خلاف پوری دنیا میں […]

آج کی بات

1945ء میں جنگ اور جنگ کے عوامل کی روک تھام اور انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر اقوام متحدہ  کے نام سے بین الاقوامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اقوام متحدہ نے بھی ظاہری طور پر اپنے منشور میں  لکھا کہ جنگ ، بغض اور ناانصافی کے خلاف پوری دنیا میں جدوجہد کی جائے گی تاکہ بنی نوع انسان دنیا میں امن و سکون کی زندگی بسر کرسکیں۔

مغرب نے اقوام متحدہ کے موسسین کی شکل میں آج تک صرف اپنے استعماری مفادات  کی خاطر دنیا کے دیگر اقوام کو تمام تر بنیادی اور انسانی حقوق اور حق ِ خود ارادیت سے محروم رکھا۔

اقوام متحدہ کو قائم ہوئے 71 سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔ہر سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی اسمبلی ہال میں تمام ملکوں کے سربراہان ِ مملکت یا ان کےنمائندوں کا سالانہ اجلاس منعقد ہوتا ہے۔

اگر اقوام متحدہ کے گذشتہ 70 سالہ کارکردگی کو چھوڑ کر صرف گذشتہ ایک سال کی کارکردگی خاص طور  پر امت مسلمہ کے وہ مسائل جو امریکا اور دیگر مغربی ممالک کی وجہ سے انہیں درپیش ہیں کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوں گی کہ اقوام متحدہ مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے مسائل کو حل کرنے آج تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور حالات کو مزید گھمبیر بنانے کی فکر میں ہیں۔

گذشتہ ایک سال کے دوران افغانستان، کشمیر، عراق، فلسطین، شام، لیبیا اور میانمار میں لاکھوں مسلمانوں بے دریغ خون بہایا گیا، جنگ اور قتلِ عام جاری تھا، فضائی حملے اور ہر قسم کے انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ ان ممالک  میں جاری رہاجس لاکھوں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔گذشتہ ایک سال کے دوران لاکھوں مسلمان اپنے ملکوں میں جنگی حالات کے پیش نظر اپنے ملکوں کو چھوڑ کرمغربی ممالک میں پناہ لینے پرمجبور ہو گئے ہیں  جن کے ساتھ ان مغربی ممالک میں جانوروں جیسا سلوک کیاجارہا ہے۔

لیکن مسلمانوں پر ان تمام تر مشکلات کے باوجود اقوام متحدہ کا کردار ماضی کی طرح  اب بھی اس لیے جانب دار تھا کیونکہ ان تمام اسلامی ممالک میں جنگوں کی آگ انہیں  مغربی ممالک کی لگائی ہوئی ہے جس میں امریکا اور نیٹو ممالک پیش پیش ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اقوام متحدہ   وہ ادارہ ہے جو امریکا کےاشاروں پر چلتا ہے اور اس کی باگ ڈور امریکا کے ہاتھ میں ہے۔ اقوام متحدہ کو اجازت نہیں کہ امریکا اور مغربی ممالک کی اجازت اور مفاد کے خلاف ایک اعلامیہ بھی جاری رکھے۔

افغانستان  اور عراق میں لاکھوں انسانوں کو جنگ کا ایندھن بنانے والے یہی امریکااور مغربی ممالک ہیں جو اب بھی ان ممالک میں جنگ کو طول دینے کی جدوجہد میں ہیں۔ کبھی مزید افواج بھیجنے کا اعلان کرتے ہیں ، کبھی بمباریوں ، ڈرون حملوں اور B-52 طیاروں کے دوبارہ استعمال کا حکم دیتے ہیں اور کبھی خود کو یہ حق بھی دے  دیتے ہیں کہ وہ  دنیا کے کسی کونے میں بھی امریکی مفادات کے خلاف ہر شخص کو نشانہ بناسکتے ہیں۔

اسی طرح فلسطین کے طویل بحران اور مسلمانوں کے اہم ملک پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اقوام متحدہ میں آواز اٹھانے کی بجائے امریکا نے اسرائیل کے ساتھ  4 سو ملین ڈالر کے فوجی اور اقتصادی تعاون  کے معاہدوں پر دستخط کیے۔  کشمیر کا مسئلہ جو اب ہر قیمت پر اقوام متحدہ کی جانب سے حل ہونا چاہئے  تھا  اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کے حکم کے مطابق  آزاد اور سکون کی زندگی گذارنے کا حق دے دیا جاتا  یہی امریکا اور مغربی ممالک نے  اب یہ کوششیں تیز کر دی ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ جائے اور یہ حساس اور اہم اسٹریٹیجک خطہ بھی جنگ کی بھٹی میں جل کر خاکستر ہو تا رہے تاکہ  یہ  خطہ بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے۔

شام امریکا ، روس اور ان کے متحدہ ممالک کی باہمی  مفادات کی خاطر میدان جنگ بن گیا ہے  اور یہ خوبصورت ملک کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے، لیبیا خانہ جنگی کا شکارہے ، میانمار میں مسلمان حکومتی بدھسٹ دہشتگردوں کے وحشت اور مظالم       کی چکی میں پس رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے گذشتہ سال مسلمانوں کے مذکورہ  قتلِ عام میں کس ملک جاکر مسئلے کی سنگینی کا جائزہ لیا یا اپنی جنرل اسمبلی میں محض لفظی مذمت کی ؟

اس سال ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں کسی نے بھی امریکا کی طرف انگلی نہیں اٹھائی جو پوری دنیا کے امن کو تاراج کیے ہوئے ہے اور مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے۔ اجلاس میں شریک کسی ملک کے نمائندے نے یہ آواز نہیں اٹھائی کہ اقوام متحدہ نے  مسلمانوں سے متعلق کس مسئلے کو حل کیا ہے تاکہ ہم یہ کہہ سکے کہ  اقوام متحدہ واقعی تمام اقوام کی ایک نمائندہ اور غیر جانب دار تنظیم ہے۔

اقوام متحدہ کےاجلاس میں مسلمانوں کی بے ہمتی اور بے حسی کی وجہ سے امریکا کے صدر جو مسلمانوں کے سب سے بڑے قاتل ہیں نے اپنے گفتگو کے دوران ایک مرتبہ پھر اپنے تمام جرائم پر پردہ ڈالااور کہا کہ وہ دہشت گردی[مسلمانوں ] کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔

اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سال کا اجلاس  امت مسلمہ کے لیے دردناک  اور اندوہناک تھا جس میں یہ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی جائے اور انہیں مزید مایوسیوں کی دلدل میں دھکیل دیا جائے۔