امارت اسلامیہ اقتصادی کمیشن کے سربراہ ابو احمد سے گفتگو

گفتگو: حبیب مجاهد محترم قارئین! امارت اسلامیہ افغانستان ایک فعال نظام کی حیثیت سے افغانستان کے تقریبا 80 فیصد حصے پر حاکم ہے ۔ اس کے مختلف عسکری اور عوامی شعبوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم ادارہ اقتصادی اور مالی امور کا کمیشن بھی ہے ۔ جو امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں وزارت مالیات یا […]

گفتگو: حبیب مجاهد

محترم قارئین!

امارت اسلامیہ افغانستان ایک فعال نظام کی حیثیت سے افغانستان کے تقریبا 80 فیصد حصے پر حاکم ہے ۔ اس کے مختلف عسکری اور عوامی شعبوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم ادارہ اقتصادی اور مالی امور کا کمیشن بھی ہے ۔ جو امارت اسلامیہ کی تشکیلات میں وزارت مالیات یا مرکزی بینک کے طورپر مالی امور میں متصرف سمجھاجاتا ہے ۔ اس کمیشن کے امور کے متعلق معلومات آپ کے ساتھ شریک کرنے کے لیے اس بار انٹرویوز کے سلسلے میں امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن کے سر براہ محترم ملا ابو احمد سے گفتگو کی ہے جو آپ کے پیش خدمت ہے ۔

سوال : سب سے پہلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ آپ ہمارے قارئین کو اپنا تعارف کرائیں ؟

جواب : نام ملا ابو احمد صوبہ قندہارکا رہائشی ہوں ۔ امارت اسلامیہ کی تاسیس کے وقت سے اب تک امارت اسلامیہ میں مختلف شعبوں میں خدمت کرتا رہا ہوں ۔ فی الحال امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن کے ذمہ دار کی حیثیت سے کام کررہا ہوں ۔

سوال: اقتصادی کمیشن کے حوالے سے اگر کچھ معلومات ہمیں دی جائیں، اسی طرح اس کی فعالیت کی کارکردگی پر اگر کچھ روشنی ڈالیں تومہربانی ہوگی ۔

جواب: اقتصادی کمیشن امارت اسلامیہ کی تمام ترتشکیلات میں تمام مالی امور کا ذمہ دار کمیشن ہے ۔ یہ کمیشن مالی تعاون جمع کرنے اور حسب ضرورت واپس اس کی حوالگی کا ذمہ دار ہے ۔ امارت اسلامیہ کے تمام شعبہ جات کو رقوم کی ادائیگی اور منتقلی اسی کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے ۔ تاکہ ضرورت کے مطابق اصولی طورپر اسے خرچ کیا جائے ۔

اقتصادی کمیشن ماہانہ کے حساب سے تمام کمیشنوں کو مقررہ اہداف کے مطابق حسب ضرورت بجٹ فراہم کرتا ہے ۔ مہینے کے آخر میں گذشتہ ماہ کے بجٹ کی تمام جزئیات کی تحریری رپورٹ طلب کرتا ہے ۔ اس شعبے میں اصول یہ ہے کہ ایک ایک روپے کے خرچ کرنے کی وجہ اور تمام مشخصات واضح ہونے چاہییں ۔ تاکہ رقوم کی گمشدگی کا راستہ روکا جاسکے ۔ گذشتہ ماہ کے اخراجات کی مکمل رپورٹ دینے کے بعد متعلقہ کمیشن کو آئندہ ماہ کے لیے بجٹ مہیا کیا جاتا ہے ۔ اس حوالے سے ایک شفاف میکانزم کا تعین کیا گیا ہے ۔ جس کی برکت سے آج امارت اسلامیہ کے نظام میں سو فیصد شفافیت ہے ۔ الحمد للہ جو شفافیت اپنے دور حکومت میں امارت اسلامیہ کی سب سے بڑی خاصیت رہی اسی طرح اب بھی امارت اسلامیہ اپنے اسی پہچان کو برقرار رکھتے ہوئے بہت شفاف طریقے سے اپنے مالی حسابات مرتب کرتی ہے ۔

سوال: آپ نے امارت اسلامیہ کی تشکیلات اور کمیشنز کے حوالے سے بات کی ، آپ امارت اسلامیہ کے دیگر کمیشنز کے متعلق تھوڑی سی تفصیل بتادیں تاکہ امارت اسلامیہ کے مصارف اور شعبہ جات کے متعلق کچھ معلوم ہوسکے ۔

جواب: امارت اسلامیہ کے کمیشنز کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔ اپنے احاطہء کار میں ہر کمیشن کے کام بہت زیادہ ہیں ۔ محاکم امارت اسلامیہ ، عسکری کمیشن ، ثقافتی و میڈیا کمیشن ، تعلیم وتربیت کمیشن ، کمیشن برائے دعوت وارشاد ، کمیشن برائے امور صحت ، عوامی نقصانات کی روک تھام کا ادارہ ، کمیشن برائے جیل خانہ جات ، شہداء ، زخمیوں ، یتیموں کے امور کا ادارہ ، سیاسی کمیشن ، کمیشن برائے این جی اوز و رفاہی ادارہ جات۔

ان اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے مثال کے طورپر عرض کروں : شعبہ صحت زخمیوں ، مفلوجوں ، معذوروں اور آزاد ہونے والے قیدیوں کے علاج کی ذمہ داری نبھاتی ہے ۔ آپ بہتر جانتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ میں زخمی اور معذور ہونے والے افراد کی تعداد انتہائی زیادہ ہے ۔ اور ہرسال اس میں ہزاروں کا اضافہ ہوتا ہے ۔ کمیشن برائے صحت کے تخمینے کے مطابق ہر زخمی ، معذور یا مفلوج مریض پر آنے والے متوسط اخراجات دولاکھ افغانی تک پہنچ جاتا ہے ۔ جو ڈالروں کے حساب سے چار ہزار ڈالر سے زیادہ کے بنتے ہیں ۔ ان میں بعض ایسے مریض بھی آتے ہیں جن پر آنے والے اخراجات اس سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں ۔ کمیشن برائے جیل خانہ جات افغانستان کی تمام جیلوں میں قیدیوں کا مالی تعاون کرتا ہے ۔ افغانستان کی جیلوں میں ہزاروں قیدی بلاکسی جرم وخطا کے جیلوں میں پڑے ہیں ۔ امارت اسلامیہ ایک ذمہ دار اور پابند عہد تحریک کی حیثیت سے ان قیدیوں کا تعاون اپنا اسلامی فریضہ سمجھتی ہے ۔ اسی لیے کمیشن برائے جیل خانہ جات کے نام سے ایک الگ کمیشن تشکیل دیا گیا ہے ۔ جو مظلوم قیدیوں کے علاج اور ان کے روزمرہ اخراجات کے لیے ان سے تعاون کرتاہے ۔

شہداء ، یتیموں اور معذوروں کے کمیشن نے امریکی جارحیت کے بعد سے اب تک جو بچے یتیم ہوگئے ہیں افغانستان کے 34 صوبوں میں سروے کرکے ان کی لسٹیں جمع کی ہیں ۔ اسی طرح مفلوج مریضوں اور معذور افراد کے ساتھ بھی تعاون کیا جاتا ہے ۔ اس طرح بہت سے افراد ہمارے معاشرے میں ہیں جن کے دونوں ہاتھ ، دونوں پاؤں، دونوں آنکھیں معذور ہوچکی ہیں ۔ ادھر پورے خاندان کی کفالت ان کے ذمے ہے ۔ امارت اسلامیہ کے تعاون کے علاوہ ان کا اور کوئی چارہ بھی نہیں ۔ یتیموں کے ساتھ نقد تعاون کے علاوہ امارت اسلامیہ کے تعلیمی کمیشن کی جانب سے ان کے لیے دارالایتام بھی بنائے گئے ہیں ۔ تاکہ افغانستان کی یہ بے سرپرست نسل دینی و عصری تعلیم سے بے بہرہ نہ رہے ۔ ان کا مستقبل روشن ہو ۔ دعوت وارشاد کمیشن کے ذمے ان لوگوں کی دینی رہنمائی ہے جو دشمن کی صف میں کھڑے ہیں ۔ عوامی نقصانات کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے کمیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ عوامی اور نہتے لوگوں کو دشمن کی اذیت روک سکیں ۔ عوامی نقصانات کے وقوع کے دوران یہ کمیشن متاثرہ خاندانوں سے نقد تعاون کرتا ہے ۔ اسی طرح دیگر سارے کمیشنز اپنے اپنے شعبے بہت بڑی خدمات اور بھاری بھرکم مصارف رکھتے ہیں ۔ چونکہ ان تمام کمیشنز کا مالی واقتصادی رسد اقتصادی کمیشن فراہم کرتا ہے اس لیے ان تمام امور کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقتصادی کمیشن بالواسطہ طور پر افغانستان کے مظلوم عوام ،ہزاروں مجاہدین ، مہاجرین ، بیواؤں ، یتیموں ، معذوروں ، زخمیوں ، قیدیوں اور معذور افراد کا کفیل ہے ۔ اکثر خاندانوں کی معیشت اسی تعاون سے وابستہ ہے ۔

سوال : جیسا کہ آپ نے بھی اس جانب اشارہ کیا کہ امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن کے توسط سے متعلقہ کمیشن کے ذریعے ہزاروں یتیموں ، معذوروں ، قیدیوں اور دیگر مظلوم مسلمانوں سے تعاون کیا جاتا ہے ۔ چونکہ سارے مسلمان آپس میں بھائی ہیں ۔ ایک جسم اور ایک وجود کی مانند ہیں ۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہر کوئی اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے درد میں شریک ہو۔ اپنی بساط کے مطابق اس سے تعاون کرے ۔ بلا شبہ اندرون افغانستان ، پڑوس ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک میں ہمارے مسلمان بھائی خود کو اس درد میں شریک سمجھتے ہیں ۔ اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمارے عوام کے مظلوم اور بے سہارا یتیموں ، بیواؤں ، معذوروں اور زخمیوں سے تعاون کریں ۔ اگر یہ لوگ امارت اسلامیہ کے توسط سے ان مظلوموں سے تعاون کرنا چاہیں تو وہ کس طریقے سے اپنا نقد تعاون آپ کو پہنچائیں گے اور آپ کے ذریعے مظلوم مسلمانوں پر خرچ کریں گے ۔

جواب: مسلمان اہل خیر بھائی اگر اپنے ضعیف اور محتاج بھائیوں سے تعاون کرنا چاہیں تو اپنا تعاون امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن تک پہنچادیں ۔ تاکہ اصولی اور شفاف طریقے سے اپنے مصارف میں انہیں خرچ کیا جاسکے ۔ اس کے لیے افغانستان کے اندر ، پڑوسی ممالک یا ان کے علاوہ دیگرممالک میں اقتصادی کمیشن کے ذمہ داروں سے رابطہ کرکے ان اپنی امداد پہنچادیں ۔ پوری سہولت اور تحقیق کے ساتھ اپنا تعاون ہم تک پہنچانے کے لیے ان نمبروں پر رابطہ کریں ۔ 0093777474287——–0093705790096

ان نمبروں پر رابطے کے ذریعے کمیشن کے حکام تک پہنچ کر اپنا تعاون ان کے حوالے کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح ایمیل کے ذریعے آپ ذیل کے ایمیل ایڈریس پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔ [email protected] ــ [email protected] ۔ ذمہ داروں سے رابطہ کرکے آپ اپنا تعاون پہنچانے کا طریقہ طے کرلیں ۔

اسی طرح وہ مسلمان بھائی جو دور کے ممالک خصوصا یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں ۔ اور عمومی ایمیل ایڈریس کے ذریعے رابطہ کرنے سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔ وہ امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ http://shahamat.info/ پر اقتصادی کمیشن کے خصوصی پیج پر جاکر وہاں پیغامات کے صفحے پر ایمیل کے ذریعے رابطہ کریں ۔ یہ راستہ اس لیے محفوظ ہے کہ امارت اسلامیہ کی ویب سائٹ میں صرف ہمارے ذمہ داران ہی تصرف کرسکتے ہیں ۔ ان کے علاوہ کوئی اور یہ ایمیلز نہیں دیکھ سکتا ۔ اس راستے آپ اقتصادی کمیشن کے حکام سے رابطے کا محفوظ طریقہ اختیار کرسکتے ہیں ۔

ایک بات یاد رہے ۔ دشمن کی جانب سے ایسے بہت سے پروپیگنڈے کیے جاتے ہیں کہ امارت اسلامیہ سے لوگوں کے تعاون پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور رقوم کی منتقلی کے راستے ان پر مکمل طورپر بند کردیے گئے ہیں ۔ اس حوالے سے اتنا کہنا چاہتاہوں کہ یہ صرف ایک پروپیگنڈا ہے اور اس طرح کے پروپیگنڈے کرنے میں ہمارا دشمن بہت ماہر ہے ۔ انہوں نے جارحیت کے آغاز کے موقع پر یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ ہم زمین پر دوانچ کی چیز بھی دیکھ لیتے ہیں مگر بعد میں ثابت ہوا کہ ان کے سب سے زیادہ حساس مراکز میں مجاہدین بھاری اسلحوں کے ساتھ اندر داخل ہوگئے اور وہاں تباہی مچادی ۔ مگر مجاہدین کے حملے سے ایک سیکنڈ پہلے تک بھی دشمن کو کانوں کان کسی چیز کی خبر نہ ہوسکی ۔ اس طرح کے سارے پروپیگنڈے مکمل جھوٹ ہیں ۔ مسلمان بھائی اگر چاہیں کہ مجاہدین سے مالی تعاون کریں تو اللہ تعالی انہیں محفوظ راستہ ضرور فراہم کرے گا ۔ کیوں کہ یہی اللہ تعالی کا وعدہ ہے ۔ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا……

ترجمہ : “وہ لوگ جو ہماری راہ میں جہاد کریں ہم ضرور انہیں راستہ دکھائیں گے” ۔ یہ وعدہ صرف جہاد بالنفس کے لیے نہیں بلکہ جہاد بالمال کو بھی شامل ہے ۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ جس طرح مجاہدین بلاخوف وخطر دشمن کے مقابلے میں بالنفس کھڑے ہیں اور مزاحمت کررہے ہیں ہمارے صاحب حیثیت بھائی جہاد بالمال میں شرکت کرکے بے جا طورپر خوف کا شکار نہ ہوں ۔

سوال : محترم مولوی صاحب! اقتصادی حوالے سے امارت اسلامیہ کا دار ومدر اور تکیہ کن ذرائع پر ہے ؟

جواب : اس سوال کا جواب انتہائی اہم ہے ۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ اس قدر مصارف کس طرح پوری کرتی ہے ۔ میں کہنا چاہوں گا کہ اگرچہ ہمارے کوئی واضح مالی منابع نہیں ہیں مگر پوری امت مسلمہ کا تعاون امارت اسلامیہ کو حاصل ہے ۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمان جو کئی نسلوں سے ایک واقعی اسلامی امارت کے خواہشمند ہیں امارت اسلامیہ سے تعاون کو اپنا ایمانی فرض سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں کے تعاون کی ہمارے پاس بہت واضح مثالیں ہیں ۔ سیکیورٹی خدشات اور یہاں بات لمبی ہوجانے کے خوف سے میں اس کا ذکر مناسب نہیں سمجھتا ۔ مختصرا اتنا بتادوں کہ امارت اسلامیہ کو مالی تعاون عام اہل خیر حضرات سے ملتا ہے ۔چوں کہ امارت اسلامیہ کے اندرونی نظام میں مکمل طور پر اخلاص ، قربانی اور تقوی کا نظا م قائم ہے ، مکمل شفافیت ہے اس لیے یہ تعاون بہت شفاف طریقے سے خرچ کیا جاتا ہے اور بے جا طور پر ضائع نہیں کیا جاتا اس لیے کم پیسوں میں بہت زیادہ کام ہوجاتا ہے ۔

سوال : آخر میں عام مسلمانوں خصوصا صاحب حیثیت حضرات کے نام آپ کا کوئی پیغام ہوتو ہمارے ساتھ شریک کریں۔

جواب : اپنے مسلمان بھائیوں کے نام میرا پیغام ہے کہ اس تعاون کو اپنا اجر وثواب کمانے کا ذریعہ اور اپنی دینی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے موقع غنیمت جانیں ۔ افغانستان میں اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کفری قوت اور راس الشیاطین امریکا سے مقابلہ جاری ہے ۔ افغانستان کے مجاہدین عالمی سطح پر سب سے زیادہ منظم ، پاک اور افراط وتفریط سے دور مجاہدین ہیں ۔ جو صرف اور صرف اسلام کی غیرت پر اٹھے ہیں اور کفر کو شکست سے دوچار کررکھا ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لیے اس بڑے کارنامے اور اسلامی تاریخ کے اس زریں کامیابی میں شریک ہونے کا بہترین موقع ہے ۔ دیکھا جائے تو ایک طرح افغانستان کی جنگ صدر اسلام کے غزوہ بدر سے مشابہت رکھتی ہے ۔ کیوں کہ کفار بہت قوی حالت میں اور مسلمان نہایت کمزور ہیں ۔ ایسی کمزوری کی حالت میں اسلام کا دفاع کرنا اور مجاہدین سے تعاون کرنا یقینا عام حالات کے بنسبت زیادہ اجر رکھتا ہے ۔ جس طرح بدر کے شرکاء صحابہ کرام دیگر صحابہ سے زیادہ افضل ہیں ۔

میں تمام مسلمانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ مالی جہاد کرکے اس بڑے اجر میں حصہ میں لیں ۔ میدان جہاد کے علاوہ دو جہادوں کی بیوائیں ، معذورین اور مہاجرین کی کفالت مجاہدین کے ذمے پڑ گئی ہے ۔ یہ افراد ہمارے معاشرے کی مظلوم ترین نسل ہے جنہوں نے اسلام کی خاطر قربانیاں دی ہیں ۔ کل اگر انہوں نے اپنی قربانیوں سے کمیونسٹ اژدھا سے مسلمانوں کو نجات دلائی ہے تو آج امریکی طاغوت کو شکست دے کر مسلمانوں کو ایک اور دشمن کی شر سے محفوظ سے کررہے ہیں ۔ امت مسلمہ کے ان کمزور مگربہادرسپوتوں سے تعاون ہم میں سے ہر فرد کا دینی فریضہ ہے ۔ ہمیں ان کا تعاون کرنا چاہیے ۔ اور کسی موقع پر بھی انہیں بھولنا نہیں چاہیے ۔

امید ہے صاحب حیثیت مسلمان جو موجودہ حالات میں بہت سے بے جا مصارف میں اپنی دولت خرچ کررہے ہیں اپنی آخرت کا ذخیر بنانے کے لیے رواں جہاد میں شرکت کو اپنے لیے باعث فخر سمجھیں گے ۔