امارت اسلامیہ کی متحرک سفارت کاری

ہفتہ وار تبصرہ چوں کہ امارت اسلامیہ گذشتہ دو دہائیوں سے بیرونی جارحیت کے خلاف ایک مزاحمت کار، پائیدار اور ناقابل شکست فوجی طاقت کے طور پر ثابت ہوئی،اس کے علاوہ سیاسی تعامل  اور سفارت کاری  کے میدان میں بھی ہمیشہ عملی طور پر سرگرم رہنے سے اپنی موجودگی کو ثابت کی ہے۔ مملکت قطر […]

ہفتہ وار تبصرہ

چوں کہ امارت اسلامیہ گذشتہ دو دہائیوں سے بیرونی جارحیت کے خلاف ایک مزاحمت کار، پائیدار اور ناقابل شکست فوجی طاقت کے طور پر ثابت ہوئی،اس کے علاوہ سیاسی تعامل  اور سفارت کاری  کے میدان میں بھی ہمیشہ عملی طور پر سرگرم رہنے سے اپنی موجودگی کو ثابت کی ہے۔

مملکت قطر میں امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندے تقریبا روزانہ مختلف ممالک، جماعتوں اور سماج کے نمائندوں اور اسی طرح ملک، خطے اور دنیا کے ممتاز اشخاص سے تبادلہ خیال اور ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ اس حال میں کہ بین الافغان مذاکرات کا مفاہمتی عمل جاری ہے، مگر اس عمل نے امارت اسلامیہ کے داخلی اور خارجی سیاسی تعامل اور متحرک سفارت کاری پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے، بلکہ ماضی کی طرح جاری ہے۔

دنیا کے مختلف ممالک کے دوروں کے علاوہ امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے ہمارے پڑوسی ممالک مثلا ازبکستان، چین اور ایران کے بھی مختلف اوقات میں  دورے کیے ۔ اسی سلسلے میں امارت اسلامیہ کے نائب  اور سیاسی دفتر کے سربراہ جناب ملا عبدالغنی برادر اخوند  کی قیادت میں  اعلی وفد نے چند روز قبل پاکستان کا دورہ کیا ۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی اور دوسرے سیاسی حکام سے ملاقاتیں کیں۔

پاکستان، افغانستان کا اہم ہمسائیہ ملک ہے، دونوں ملکوں کے عوام کی ثقافت اور رواج مشترک ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ اسی طرح کثیرتعداد افغانی وہاں روزگار اور تعلیم کے لیے بھی جاتے ہیں۔امارت اسلامیہ ملک کے وسیع رقبے پر حاکم ہے،اس لیے ایسے ملک کے ساتھ سیاسی تعامل مبرم ایک ضرورت ہے،تاکہ اپنی قوم کی نمائندگی سے پاکستان کے حکام سے تبادلہ خیال کریں۔ مہاجرین، مزدوروں، تاجروں اور ديگر طبقات کے مسائل کے حل میں پوری کوشش کریں۔

امارت اسلامیہ کے چند مخالفین نے امریکی جارحیت کے ابتدا میں پروپیگنڈے کے طور پر  افغان مجاہد عوام اور امارت اسلامیہ کوایک چھوٹے ، نام نہاد باغی  اور دہشت گرد گروہ کی حیثیت پیش کررہاتھا اور اجنبی طاقت کے بل بوتے پر سربلند ملک کے حکمرانی کا تصور کررہاتھا،اب چوں کہ امارت اسلامیہ کی حقانیت، فوجی قوت اور سیاسی وقار عالمی سطح پر سورج کی طرح روشن ہوا، تو ان کی نیندیں بھی اڑ گئیں۔ حقانیت اور حقیقت کے اس سورج کو وہ  نہیں دیکھ سکتا، اسی لیے بغض و عناد کے شعلوں میں  جل رہے ہیں۔

مگر انہیں سمجھنا چاہیے کہ حق اور حقیقت کھبی بھی ہمیشہ گردوغبار تلے دب نہیں رہتا۔اب ہر شخص سمجھ رہا ہے کہ امارت اسلامیہ ناقابل انکار حقیقت ہے۔اس سلسلے میں امارت اسلامیہ کی متحرک سفارتکاری نے دنیا اور خطے کے ممالک کو بھی باور کرایا ہے کہ امارت اسلامیہ مستقبل میں ایک ذمہ دارفریق کے طور پر علاقائی ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ مشترکہ زندگی گزار سکتی ہے۔ اس طرح کہ ہماری مؤمن قوم کے مقدس جہادی امنگیں پوری ہوچکی ہو اور ساتھ ہی ہمارا ملک اسلامی نطام، امن، خودمختاری اور ترقی سے مالامال ہوچکا ہو۔