امارت اسلامیہ کے ترجمان قاری یوسف احمدی سے گفتگو

ملک کا 65 فیصد حصہ دشمن کے وجود سے پاک ہوچکا ہے ۔ کابل انتظامیہ کی بنسبت طالبان کی عدالتوں کی جانب عوامی رجحان بڑھ رہا ہے ۔   محترم قارئین امارت اسلامیہ کے ذمہ داران اور صاحب نظر افراد سے گفتگو کے سلسلے میں اس بار امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب قاری یوسف احمدی […]

ملک کا 65 فیصد حصہ دشمن کے وجود سے پاک ہوچکا ہے ۔ کابل انتظامیہ کی بنسبت طالبان کی عدالتوں کی جانب عوامی رجحان بڑھ رہا ہے ۔

 

محترم قارئین

امارت اسلامیہ کے ذمہ داران اور صاحب نظر افراد سے گفتگو کے سلسلے میں اس بار امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب قاری یوسف احمدی سے افغانستان کے رواں واقعات ، عزم آپریشن ، سیاسی حالات اور دیگر مربوط موضوعات کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے جو آپ کی توجہات کے نذر کی جارہی ہے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــ

سوال :

امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب قاری یوسف احمد صاحب!

سب سے  پہلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ پہلے ملک کی عمومی صورت حال کے حوالے سے قارئین کو معلومات فراہم کریں مہربانی ہوگی۔

جواب :

الحمدلله رب العلمین  والصلوة والسلام علی رسوله محمد و علی آله و اصحابه اجمعین . و بعد

سب سے پہلے اپنا سلام اور نیک تمنائیں آپ  اور قارئین کی نذر کرتاہوں ۔ گفتگو کے لیے دعوت دینے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ آپ کے سوال کے حوالے سے یہی کہوں گاکہ الحمد للہ ملک کے موجودہ حالات خصوصا جہادی صفیں پوری کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں ۔

آپ جانتے ہیں ہمارا ملک جارحیت کا شکار ہے ۔ عالمی کفر اور جابر قوتوں نے انتہائی وحشیانہ طریقےسے یہاں قبضہ کیا ہے اور یہ قبضہ یکطرفہ طریقے سے کیا گیا ہے  مگر للہ الحمد ہماری مومن اور مجاہد عوام نے امارت اسلامیہ کے فریم ورک میں عالیقدر امیرالمومنین کی قیادت میں جارح کفار کے خلاف جس طرح ہونا چاہیے تھا ویسا ہی جواب دیا ہے ۔ رواں حالات میں ان کی ظالمانہ جارحیت کے خلاف دینی ، سیاسی اور عقلی اعتبار سے بہت بجا اور مناسب مؤ قف اختیار کیا ہے ۔ ہماری عوام نے جارحیت پسندوں کے خلاف اور اسلامی نظام کی حاکمیت کی خاطر پوری سنجیدگی اور ایمانی قوت سے جہادی مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے ۔ تقریبا 14 سال ہوئے ہیں ابھی تک انہیں اس راہ میں تھکن یا پریشانی کا احساس نہیں ہوا ۔ اب بھی امارت اسلامیہ کی قیادت میں جہادی مزاحمت سب سے زیادہ اچھی حالت میں جاری ہے ۔ ملک کے دوتہائی حصے پر امارت اسلامیہ کی حاکمیت اور شرعی نظام قائم ہے ۔ ملک کا 65 فیصد حصہ کفر کی خباثت سے پاک ہوچکا ہے ۔ جارحیت پسند عسکری میدان میں واضح شکست سے دوچار ہیں ۔ درجنوں جارحیت پسند ممالک اپنی فوجیوں کو مکمل طور پر افغانستان سے نکال چکی ہیں ۔ جو جارحیت پسند پیچھے باقی ہیں وہ جنگ کا مورال اور مجاہدین سے آمنے سامنے لڑائی کا حوصلہ ہار چکے ہیں ۔ اس لیے اپنے اڈوں میں محصور زندگی بسر کررہے ہیں ۔ جارحیت پسندوں کے عسکری ، سیاسی اور ذہنی شکست کے بعد ان کی کٹھ پتلی اور ماتحت انتظامیہ بھی تمام شعبوں میں ناکامیوں کا شکار ہے ۔ کٹھ پتلی انتظامیہ ایسے سیاسی ہنگاموں میں گرگئی ہے جس کی وجہ سے اسے ہر وقت گرنے کا خطرہ رہتا ہے اور ممکن ہے بہت جلد یہ گرجائے ۔ کٹھ پتلیوں کی فوجی طاقت بھی اب ماضی کی طرح نہیں رہی ۔ متحد قیادت اور جنگی حوصلہ ان میں نہیں ہے ۔ انتظامیہ عوام اور عالمی دنیا کے درمیان اپنی ساکھ اس قدر خراب کرچکی ہے کہ شاید اس سے پہلے افغانستان نے اس قدر بے اعتماد اور قابل تمسخر حکومت کبھی دیکھی ہو ۔ عوام امریکی جارحیت پسندوں سے بیزار ہوچکے ہیں اور وہ ان کی یہاں موجودگی  کو اپنے دینی اور قومی مفادات کا نقصان سمجھتے ہیں  ۔

اس  کے مقابلے میں الحمد للہ امارت اسلامیہ کی قیادت میں مجاہدین ماضی کی بنسبت اچھی حالت میں ہیں ۔ امارت اسلامیہ جارحیت پسندوں کو شکست دے کر ایک فاتح اور مضبوط قوت بن کر ابھری ہے اوراپنی حیثیت کو ثابت کردکھایا ہے ۔ اب ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی اس مضبوط قوت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ امارت اسلامیہ کا داخلی نظم وضبط ، مجاہدین کے درمیان اطاعت کا جذبہ ، مجاہدین کی اصلاح اور تربیت ، عوام سے حسن سلوک اور عدالتوں میں عوام کا رجوع اور شرعی حوالے سے اس کا حل اور فصل ، اسی طرح دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہر جگہ جہادی صف ترقی کی حالت میں ہے ۔ یہ ان امتحانی حالات میں اللہ تعالی کی مدد اور جہادی صف پر اللہ تعالی کے خصوصی نظر کرم اور رحمت ہے ۔ والحمدلله علی ذالک

سوال:

آپ نے امارت اسلامیہ کی ہمہ پہلو کامیابیوں کے متعلق بات کی اس حوالے سے اگر کچھ تفصیلی تذکرہ ہوجائے ؟

جواب :

جی بالکل ، عسکری شعبے میں تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں امارت اسلامیہ کی تمام تشکیلات فعال ہیں ۔ اکثر صوبوں میں اکثریتی علاقے مجاہدین کے زیر کنٹرول ہیں ۔ عمومی طورپر حکومت محصور انداز میں رہ رہی ہے ۔ مجاہدین نے تمام صوبوں میں عملی طورپر گوریلا حملے ، فدائی حملے اور بڑے محاذ قائم کرکے جنگ کا منظم آغاز کردیا ہے ۔ جنگ میں اقدامی کیفیت میں ہیں ۔ مجاہدین نے گذشتہ چند مہینوں میں بہت سے اضلاع فتح کیے ۔ دانگام ، بکوا ، وردوج ، نوبہار ، جرم ، چھلگزی اور قندوز کے گورتیپی اور امام صاحب جیسے اہم علاقے مجاہدین کے زیر تصرف ہیں اور یہاں دشمن پر شدید ترین حملے ہوئے ہیں ۔ مجاہدین ہلمند ، غزنی ، قندوز اور کنڑ آپریشن  جیسے دشمن کےبڑے بڑے آپریشن ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ میدان جنگ کی طرح جہادی تربیت ، ذہنی وفکری تربیت اور وسائل کے حوالے سے خود کفالتی کے شعبے میں بھی مجاہدین کو بہت سی کامیابیاں ملی ہیں یہ کفر کے خلاف جہاد کی بقاء کے حوالے سے اچھی خوشخبری ہے ۔

جہاد کے ساتھ ساتھ امارت اسلامیہ کا دعوت پروگرام بھی کامیابی سے جاری ہے ۔ اور ہر مہینے بہت سے لوگ دشمن کی صفوں سے نکلتے اور مجاہدین کی صف میں شامل ہوتے ہیں ۔ صرف گذشتہ اپریل کے مہینے میں 231افراد اپنے اسلحہ سمیت دشمن کی صف سے نکل کر مجاہدین سے مل گئے ہیں ۔ سیاسی شعبے میں بھی امارت اسلامیہ کی کارکردگی موثر اور مدبرانہ شکل میں جاری ہے ۔ رواں سال  رجب کے وسط  میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے ارکان نے قطر میں ایک کانفرنس میں شرکت کر کے امارت اسلامیہ کا موقف عالمی سٹیج سے پیش کیا اور اسے اپنے دوستوں اور دشمنوں کے سامنے واضح کیا ۔ امارت اسلامیہ نے جارحیت کے خلاف مزاحمت پر زور دیا اور اپنے قانونی موقف کا دفاع کیا ۔

اسی طرح دیگر تمام شعبہ جات مثلا نشریاتی شعبے میں بھی امارت اسلامیہ کی کارکردگی اچھے طریقے سے روبہ ترقی ہے ۔ دشمن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود امارت اسلامیہ کی حقانیت کی آواز کو خاموش نہیں کرسکا اور نہ ہی اس بڑی حقیقت کو دنیا کی آنکھوں سے چھپا سکا ۔

سوال :

رواں سال 5 رجب 1436 کو امارت اسلامیہ کے رہبری شوری کی جانب سے عزم آپریشن کا آغاز کیا گیا ۔ آپ ذاتی طورپر اس آپریشن کے حوالے سے اگر کچھ معلومات دیں ؟

جواب :

الحمد للہ عزم آپریشن جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں بہت اچھے طریقے سے جاری ہے ۔ اور یہ سلسلہ روز بروز تیز ہوتا جارہا ہے ۔ اس آپریشن کے پہلے روز مجاہدین نے پورے ملک میں 300 سے زائد حملے کیے ۔ معمول کے حملوں کے ساتھ ساتھ آپریشن کے دوسرے روز بڑے بڑے گروپ حملے بھی مختلف علاقوں میں کیے گئے ۔ اس سلسلے میں آپ نے دیکھا کہ قندوز میں بھی مجاہدین نے خلاف معمول بڑی کارروائیاں کیں ۔ قندوز مرکز کے قریب گورتیپی کے علاقے میں ، قلعہ زال، علی آباد اور ضلع امام صاحب سمیت مرکز کے علاوہ تمام علاقے دشمن کے قبضے سے چھڑا لیے ۔ یہاں میں مثال کے طورپر قندوز میں عزم آپریشن کے پہلے ہفتے کی کامیابیاں مختصراً ذکر کرتا ہوں جس سے قارئین کے سامنے اس آپریشن کی تاثیر واضح ہوجائے گی ۔

عزم آپریشن کے پہلے ہفتے میں قندوز میں مجموعی طورپر 232فوجی ، پولیس اربکی ہلاک ہوئے ہیں ۔ 146 دیگر اہلکار شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ 58 اربکی زندہ پکڑے گئے ہیں ۔ دشمن کے 20 ٹینک تباہ ہوگئے ۔ 13 رینجر گاڑیاں تباہ ہوگئیں ۔ دشمن کی 65 چیک پوسٹیں فتح ہوئیں ۔ 41 گاؤں دشمن کے وجود سے پاک کردیے گئے ۔ 12 ٹینک ، 11 گاڑیاں ، 11 موٹر سائیکل ، سینکڑوں کی تعداد میں اسلحہ اور بڑی مقدار میں ہلکا اور بھاری اسلحہ اور اہم وسائل غنیمت میں پکڑے گئے ۔ یادرہے کہ قندوز کی اس پوری لڑائی میں 9 مجاہدین شہید اور 10  زخمی ہوگئے ہیں۔

قندوز کی طرح بدخشان میں بھی مجاہدین نے بڑی فتوحات حاصل کی ہیں ۔ اس صوبے کے ضلع جرم میں مجاہدین نے شاہین چھاونی کا ایک مکمل بریگیڈ تباہ کردیا ۔ جس میں دشمن کے درجنوں فوجی ہلاک ہوگئے ۔ درجنوں کی تعداد میں زندہ پکڑے گئے ۔ جرم کی فتوحات میں مجاہدین نے 30 کلومیٹر کے طول وعرض کے علاقے دشمن کے وجود سے پاک کرکے اپنے کنٹرول میں شامل کردیے ۔

بدخشان کے جرم کی طرح وردوج میں مجاہدین نے عزم آپریشن کے سلسلے میں دشمن کے دو اہم اڈے اور 10 چیک پوسٹیں فتح کی ہیں اور بڑی تعداد میں اسلحہ اور اہم وسائل حاصل کیے ہیں ۔ اسی طرح صوبہ بغلان میں عزم آپریشن کے کے پہلے ہفتے میں مرکزی بغلان ، پل خمری ، دہنہ غوری اور دوشی کے علاقوں میں مجاہدین نے دشمن کے 9 فوجی مراکز اور 22 پوسٹیں فتح کی ہیں ۔ 32 بڑے گاؤں دشمن کے وجود سے پاک کردیے ۔ بغلان میں بھی اسی عرصے میں دشمن کے بہت سے اہلکار ہلاک ہوئے ہیں ۔ بہت سا اسلحہ اور وسائل مجاہدین کو غنیمت میں ملے ہیں ۔

ان صوبوں کے علاوہ فاریاب ، غور اور سرپل میں بھی علاقوں کے صفایا اور فتوحات کا سلسلہ بہت تیزی سے جاری ہے ۔ اور ان شاء اللہ بہت جلد مستقبل میں ہم ان علاقوں میں بڑی فتوحات دیکھ سکیں گے ۔ عزم آپریشن کے سلسلے میں اروزگان کے پولیس ہیڈکوارٹر کے ایک افسر، قندہار کے پولیس چیف کے نائب ، بلخ میں فوجی بریگیڈ کے سربراہ اور ملک کے طول وعرض میں دشمن کے بہت سے افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ صوبہ قندہار میں فدائی حملے میں ایک دن میں 11 فوجی ہلاک ہوئے ہیں ۔ فراہ کے بالا بلوک ، ہلمند کے ضلع سنگین ، خوست کے علیشیرو اور دیگر بہت سے علاقوں میں گذشتہ چند دنوں میں قابل توجہ فتوحات مجاہدین کو نصیب ہوئیں یہ سب عزم آپریشن کی کامیابی کی علامات ہیں ۔

سوال :

مجاہدین نے دشمن کے ساتھ جنگ کے علاوہ عوام کے لیے کچھ  کیا ہے یا نہیں ؟

جواب : جی ہاں ، امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے عوام کی جان ومال کی حفاظت کی ہے ۔ مثلا چوری ، ڈاکے ، بے جا اور ناجائز قتل اور خود سر مسلح گروپوں کا خاتمہ کیا ہے ۔ اور بہت سے صوبوں میں چوروں کو پکڑ کر انہیں سزا دی ہے ۔ اور وہ لوگ جنہوں نے بے گناہ لوگوں کو قتل کیاتھاشریعت محمدی کی روشنی میں ہماری عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق انہیں قصاص کیا ہے ۔ کیوں کہ شرعی حدود کا قیام اور شریعت کا نفاذ ایک اہم فریضہ ہے ۔ جس سے اللہ تعالی راضی ہوتا ہے اور اسی طرح عوامی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس سے لوگوں کا مجاہدین پر اعتماد اور بڑھ جاتا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ قضایا کے بہترین حل کے لیے بڑی تعداد میں لوگ مجاہدین سے رجوع کررہے ہیں ۔ شہروں میں ہو یا دور دراز کے دیہاتوں میں۔ اسی طرح عوام کے لیے فلاحی اور رفاہی کاموں اور تعلیم وتربیت کے امور کے لیے بھی راہ ہموار کی ہے ۔

سوال :

آپ امارت اسلامیہ کے ترجمان کی حیثیت سے اپنے عوام کو کس قدر اطمینان دلاسکتے ہیں کہ امارت اسلامیہ جہادی اہداف اور عوام کے خواہشات کے کہاں تک ضامن رہیں گے اور اس راہ میں سستی اور کمزوری کی پالیسی اختیار نہیں کریں گے ؟

جواب :

امارت اسلامیہ ایک ایسی صف ہے جہاں مجاہدین سب کے سب ایک نظریے اور فکر کی خاطر جمع ہوئے ہیں ۔ دراصل یہی مشترک خواہش اور مقدس نظریہ ہے جس نے اس صف کو روح اور زندگی عطاکی ہے ۔ امارت اسلامیہ کوئی ایسی سیاسی تنظیم نہیں جس کا سارا اختیار چند محدود لوگوں کے مزاج کے تابع ہو ۔ ہماری پالیسی معلوم ہے ۔ امارت اسلامیہ کی پالیسی وہی محمدی شریعت اور اللہ تعالی کے نازل شدہ احکام ہیں ۔ وہ تبدیلی کے قابل نہیں ہیں ۔ امارت اسلامیہ کا ہر فرد بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب پر شریعت اسلامیہ کا حکم ماننا لازم ہے اور اگر کوئی اس سے حکم عدولی کرتا ہے تو جیسا کہ آپ نے پہلے دیکھا امارت اسلامیہ نے اس سے بیزاری کا اعلان کیا اور اسے اپنے صف سے نکال دیا ہے ۔اس لیے میں تمام مجاہدین ، اپنے مومن عوام اور عالمی اسلامی امت کو جو امارت اسلامیہ سے اعتقاد رکھتے ہیں یقین دلاتاہوں کہ ان کی امیدوں کے ساتھ دھوکہ نہیں ہوگا ۔ یہ صف شہیدوں کے خون اور مخلص  مجاہدین کی قربانیوں سے بنی ہے ۔ امارت اسلامیہ ایک فعال اور ذمہ دار تحریک کی حیثیت سے اپنے پاک اہداف کے حصول کے لیے مختلف قانونی راستوں اور مواقع کا استعمال کرتی ہے ۔ مگر جس طرح اب تک اللہ تعالی نے انہیں انحراف سے بچایا ہے مستقبل میں بھی کبھی ان شرعی حدود سے تجاوز نہیں کریں گے ۔ مجاہدین اور عوام امارت اسلامیہ پر اعتماد رکھیں ۔ اور دشمن کے پروپیگنڈے ، شیطانی وساوس اور قبل از وقت فیصلوں کی بجائے حقیقی اور معروضی حالات سے خود باخبر رکھیں ۔ اور جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں شریعت مخالف اور باغرض لوگوں کی باتوں کی پیچھے نہ جائیں ۔

سوال :

آخر ی سوال یہ کہ امارت اسلامی کے ترجمان کی حیثیت سے تمام ہم وطنوں اور مجاہدین کے نام کیا پیغام دیں گے۔

جواب:

میرا پیغام پہلے تو امارت اسلامی کے مجاہدین کو ہے کہ وہ پہلے اپنے ذاتی افعال کی اصلاح اور امیر کی اطاعت کریں ، جہاد میں اپنی نیتیں صحیح رکھیں ۔ اور عوام کے ساتھ مزید نرمی اور محبت کا سلوک کریں ۔ اور دشمن کے خلاف فیصلہ کن اور موثر تیکنیک استعمال کریں ۔ عوام کے نام میرا پیغام یہ ہے کہ ماضی کی طرح اور بھی مجاہدین بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں ۔ جان ومال سے جارحیت پسندوں اور کٹھ پتلیوں کے مقابلے میں مجاہدین کی مدد کریں ۔ اور کٹھ پتلی انتظامیہ کے حکام کو میری نصیحت ہے کہ اب اس صف سے باہر نکل آئیں  اور سچی توبہ کریں ۔ نیشنل آرمی اور پولیس کو میری وصیت ہے کہ اپنے اسلحے کا رخ اسلام اور ملک کے دشمن قوتوں کی جانب کریں ۔ اور اس زریں موقع سے فائدہ اٹھائیں ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور مسلم ممالک سے مجھے امید ہے جہاں تک ممکن ہو مجاہدین کی مدد کریں ۔ اور وہ ممالک جنہوں نے ناٹو میں شامل ہوکر افغانستان کی تباہی میں حصہ لیا ان کے حکام کو مشورہ دینا چاہتاہوں کہ مزید اب اپنی افواج کو امریکی مقاصد کے لئےقربان کرنے سےبچیں ۔ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں اور اپنی فوج جلد از جلد افغانستان  سےنکال دیں ۔ مزید افغانوں کو بھی اذیت نہ دیں اور نہ افغانوں کے ہاتھوں اپنے بیٹوں کی قربانی کروائیں ۔ اس میں ان کے لیے بھی خیر ہے اور افغانوں کے لیے بھی  ۔

شکریہ محترم قاری صاحب

آپ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ شاد رہیں ۔