امارت اسلامیہ کے تعلقات میں وسعت

ہفتہ وار تبصرہ مملکت قطر کے صدر مقام دوحہ میں ایک طرف بین الافغان مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا ہے۔ ساتھ ہی امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندے مختلف ممالک کے سیاسی حکام اور عالمی اداروں کے نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں۔ اگرچہ امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندوں کی جانب سے خطے اور دنیا کے […]

ہفتہ وار تبصرہ

مملکت قطر کے صدر مقام دوحہ میں ایک طرف بین الافغان مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا ہے۔ ساتھ ہی امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندے مختلف ممالک کے سیاسی حکام اور عالمی اداروں کے نمائندوں سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں۔

اگرچہ امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندوں کی جانب سے خطے اور دنیا کے مختلف ممالک سے ملاقاتوں اور سیاسی دوروں کا سلسلہ کئی سال پہلے شروع ہوا تھا، جس میں امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے مختلف ممالک کے دورے کیے، عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی اور افغان قوم کے جائز مطالبے کو عالمی برادری تک پہنچایا۔ مگر  بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی اس سلسلے میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔

امارت اسلامیہ کے لیے باالعموم دنیا اور باالخصوص اسلامی ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتیں اس لیے قابل اہمیت ہیں، کہ آج سے 19 برس قبل افغانستان پر بیرونی جارحیت کے بعد امارت اسلامیہ سے سیاسی جدوجہد اور اپنے مؤقف کو ظاہر کرنے کے حقوق چھین لیے گئے ۔ تقریبا ڈیڑھ عشرے تک عالمی میڈیا امارت اسلامیہ کے خلاف یک جانبہ پروپیگنڈے پر مصروف رہی۔ امارت اسلامیہ کے خلاف مختلف النوع پروپیگنڈے کرتے رہتے اور ہمارے حوالے سے غلط، من گھڑت اور تحریف شدہ معلومات نشر کرتے رہے۔

اس یک جانبہ پروپیگنڈے نے امارت اسلامیہ کے حوالے سے بہت سے ذہنوں کو گمراہ کیا۔ یہاں تک امارت اسلامیہ کو ایک باغی اور غیرقانونی گروہ کے طور پر عالم اسلام کی جماعتوں اور ممتاز اشخاص کے سامنے متعارف کروایا۔ اس حال میں کہ امارت اسلامیہ افغان قوم کی نمائندہ قوت  اور ایک مکمل ملت کی آرزوؤں کی نمائندہ کررہی ہے۔

چند روز قبل جب امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے دوحہ میں علمائے کرام کے عالمی تنظیم کے سربراہ اور نمائندوں سے ملاقات کی، ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں، کہ اس ملاقات سے امارت اسلامیہ کےحوالے سے عالم اسلام کے علماء کرام کے بہت سارے وہ سوالات حل اور ان شکوک کا ازالہ ہوچکا ہے،جو گذشتہ دو دہائیوں سے ان کے ذہنوں میں موجود تھے۔

ملاقات کا خوشگوار اور پرخلوص ماحول اس امر کا ثبوت تھا کہ امارت اسلامیہ کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے،جس کے بارے میں دنیا کے مسلمان اور علمی سماج پریشان ہوجائے۔ صرف مسئلہ یہ ہے کہ عالمی اسلامی تنظیموں اور امارت اسلامیہ کے مابین غلط پروپیگنڈوں کی بڑی دیوار حائل ہے۔اگر یہی دیوار براہ راست ملاقاتوں کے ذریعے ہٹا دی جائے، تو اس سے امارت اسلامیہ کے متعلق غلط فہمیاں بھی دور ہوجائیں گی۔

اسے مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک موقع ہے،جس سے فریقین کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ امارت اسلامیہ کو اپنا جائز مطالبہ  دنیا  کی ہر جگہ اور ہر معاشرے تک پہنچانا چاہیے، برعکس دنیا کے مختلف ممالک، کیمونٹیز،خاص کر وہ علمی مراکز جو مسلمانوں کے اتحاد اور ترقی کی راہ میں سرگرم ہیں، انہیں امارت اسلامیہ سے براہ راست اور مستقل روابط رکھنے چاہیے۔  اپنے اچھے مشورے امارت اسلامیہ سے شریک کریں،  امارت اسلامیہ کے اعمال پر  خلوص دل سے تنقید  کریں اور مسائل حل کرنے میں امارت اسلامیہ سے پرخلوص تعاون کریں۔