امارت اسلامیہ کے  وزیر دفاع الحاج عبیداللہ اخند شہید رحمۃ اللہ علیہ

عبد الروف حکمت اما رت اسلامیہ کے سا بق  وزیر دفاع مو لانا عبید اللہ اخند شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہا جارہاہے کہ ان کا انتقا ل2012 مارچ کو کر اچی کے ایک جیل میں ہو ا ہے ۔حا لانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ  اس سے دو سا ل پہلے ۵ […]

عبد الروف حکمت

اما رت اسلامیہ کے سا بق  وزیر دفاع مو لانا عبید اللہ اخند شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہا جارہاہے کہ ان کا انتقا ل2012 مارچ کو کر اچی کے ایک جیل میں ہو ا ہے ۔حا لانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ  اس سے دو سا ل پہلے ۵ ما رچ 2010کو پا کستان میں  کراچی کے ایک جیل میں شہا دت کے مو ت سے سر فراز ہو کر اس دار فانی سے کو چ ہو چکے ہیں ۔

مو لانا کا شما ر تحریک طالبا ن کے اولین بانیوں میں ہو تا تھا۔روس کے خلاف جہاد میں بھی آپ ایک نڈر بے با ک او رفاتح مجاہد کے نا م سے پہچانے جا تےتھے ۔ اس کے علاو ہ امریکہ کےخلاف جہاد کی بنیاد رکھنے والوں میں بھی آپ کا شما ر ہو تاہے آپ کی شہا دت نہ صر ف افغانستان بلکہ دنیا بھر کے مسلما نو ں اور مجاہدین  کیلئے ایک عظیم سانحہ ہےآپ کے جانے سے جو خلا پیدا ہو اسے پر کرنا آسا ن نہیں ،قبل اس کے کہ راہ حق کے اس عظیم مجا ہد کی جدائی ہمیں اپنی کا زمیں ان کی تمناوں کے مطابق ایک نئی زندگی بخشے آئیے زرا   ان کے کارنا موں کی ایک جھلک ملا حظہ کریں اور اپنی بابرکت جہاد کی راہ میں ان کی نقش قدم پر چلنے کی کو شش کریں ۔

ولادت اور زندگی کےابتدائی حالات

آپ حضرت مولانا یار محمد ؒ کے فرزند اور اپنے وقت کے ایک مشہور اور بڑے عالم مولا نا فتح محمد کے پوتے تھے آج سے تقریبا ۴۵سال پہلے ۱۳۸۸۔ش ق،کوقندھا ر کے ضلع ’’ژڑی‘‘میں نلغام نامی علاقے میں واقع الکوزی کے گاؤں میں ایک علمی خاندان میں آپ کی پیدائش ہو ئی ۔ابتدائی تعلیم آپ نے والد ماجد اور مقامی مسجد میں حاصل کی اس کے بعد ملک کے بڑے بڑے علماء کرام سے باقی دینی کتب کی تعلیم حاصل کی ۔جس وقت روس کے خلاف افغانستان میں جہاد کا میدان گرم تھا تو آپ وہ پہلے نوجوان تھے جس نے قندھا رمیں مولانا محمد صادق اخند کی قیادت میں روسیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف جہاد کا آغا ز کیا ۔ آپ نے جہاد کے ساتھ ساتھ اپنی دینی تعلیم کا سلسلہ بھی ایک حد تک جاری رکھا لیکن آپکی زیادتر مصروفیات جہادی نوعیت کی تھیں آپ پورا سال قندھار کے ایک جہاد ی محاذ میں ہو تے اور راہ حق میں آپ کو کسی قسم کی تھکاوٹ محسوس نہیں ہو تی ۔

روسیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف جہاد

آپ کا شمار روسیوں اور ان کے زر خرید غلاموں (افغان کمیونسٹوں)کے خلاف جہاد کرنے والے مجاھدین اور قائدین میں ہو تا تھا ،نو عمری ہی سے روسی جارحیت کے خلاف اسلحہ اٹھا یا اور روسی کمیونسٹ حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے سقوط تک اپنی جہادی سرگرمیوں کو بغیر کسی توقف اور تاخیر کے جاری رکھا آپ نے اپنی جہادی زندگی کا آغاز ایک عام مجاھد کی حیثیت سے کیا لیکن اپنی خداد صلاحیت ،جہادی جذبے ،اور استقامت اور اجسمانی قوت کے بل بوتے پر بہت جلدہی قندھار کے سطح پر ایک بہادر اور جری مجاھد کی حیثیت سےپہچانے  لگے ۔ آپ کے جہادی ساتھی کہتے ہیں کہ روس کے خلاف جہاد میں آپ کے پسندید ہ اسلحہ ۸۲میٹردور مار ایک توپ تھا جسے آپ بڑی مہارت سے چلایا کرتے تھے ۔بعد میں آپ قندھار میں مولانا محمد صادق اخند کی یونٹ کے عمومی نگران مقرر ہو ئے ۔ آپ نے روسیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف بہت سے معرکوں میں حصہ لیا جس میں سے بہت سارے معرکوں میں آپ نے قائد کے فرائض بھی سر انجام دیے ،قندھا ر شہر ،میوند ،ژڑی،پنجوئی،ارغنداب اور اسکےعلاوہ دیگر علاقوں میں آپ نے جہادی سرگرمیاں سر انجام دی ہیں اسی طرح صوبہ ھلمند کے ضلع کجکی اور صوبہ زابل کے شہر صفااور صوبہ روزگان کے ترین کوٹ میں بھی آپ روسیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف جہاد میں شریک رہے۔

آپ کے ایک جہادی ساتھی مولوی جان محمد کا کہنا ہے کہ صوبہ زابل کے شہر صفا کے مقام پر کمیونسٹوں کا جو ایک بہت بڑا قافلہ مجاھدین کی مشترکہ کارر وائی میں تبا ہوا تھا تو اس کاروائی میں آپ نے اپنی بہادری کے جوہر دکھائے  ۔ مولوی جان محمد جو اس کارروائی کے دوران آپ کے ساتھ ایک ہی محاذمیں تھے کہتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے بغیر کسی وقفے کے ھشتادودو توپ (ایک تو پ کا نام ہے ) سے دشمن پر مسلسل ۳۰گولے داغ کر دشمن کے بہت سارے ٹینکوں اوربکتر بند گاڑیوں کے پر خچے اڑادیئے۔

آپ نے کمیونسٹوں کے خلاف جہادمیں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا جس میں متعددبارآپ زخمی ہوگئے تھے لیکن قندھارشہر کے محلہ جات کے علاقے میں ایک تاریخی معرکے کے دوران جس میں امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاھد مدظلہ کے ساتھ ایک مورچے میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئےآپ کوشدید چوٹیں آگئیں تھیں ۔

اس وقت کے مجاہدین کے کہنے کے مطابق محلہ جات میں جاری اس معرکہ کے دوران دشمن کے بہت سارے ٹینک اور گاڑیاں تباہ ہو ئیں حتی کہ دشمن کے پسپائی کے بعد جب اگلے روز ان تباہ شدہ گاڑیوں اور ٹینکوں کے انجام کودیکھنے کے لئے  دور دور سے لوگ آنے لگے تو اتنی بڑی مقدار میں ان گاڑیوں اور ٹینکوں کی تعداد کو دیکھ کر وہ گمان کرنے لگے کہ شاید ابھی تک دشمن کا قافلہ کھڑا ہے حالانکہ وہ صرف اپنے کچھ ٹینک اور گاڑیوں کو لیکرواپس اپنے مورچوں کی طرف  پسپا ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے اور ان کی زیادہ تر ٹینک اور گاڑیاں اس جنگ میں تباہ ہو چکی تھیں۔ اس معرکے میں شریک مجاہدین کا کہنا ہے کہ ان ٹینکوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنانے میں جو بڑا اسلحہ استعمال ہو رہا تھا تووہ صرف امیر المؤمنین اور ملا عبید اللہ شہیدؒ چلارہے تھے

اسلامی تحریک کی بنیاد اور اس کیلئے آپ کی خدمات:

قند ھار میں کیمونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد آپ اپنے دیگر مجاہدین ساتھیوں سمیت  عام لوگوں کی طرح زندگی گزارنے لگے ۔ اس دوران قندھار کے ضلع (زیڑی)میں اپنی تعلیمی سلسلہ کو بھی جاری رکھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب افغانستان کے حالات دوبارہ خراب ہونے لگےاور مختلف تنظیمی ٹولوں اور گروپوں نے لوٹ مار اور قتل وغارتگری کا بازار گرم کر کے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیااور افغانستان میں کسی کی جان ،مال عزت وآبرو محفوظ نہ رہی توان  حالات کے سد باب کیلئے ملا محمدعمر مجاہد حفظہ اللہ کی قیادت میں قندھار کے ضلع زیڑی اور میوند میں ایک مرتبہ پھر پرانے مجاہدین اور طالبان کا اجتماع ہوا جس میں اس فساد اور قتل وغارتگری کے خلاف ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی گئی ۔ ملا عبید اللہ شہید ؒ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس تحریک کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اور اس کے بعد ایک سچے اور باعتمادمجاہد کی صورت میں اپنی ساری زندگی تحریکی خدمات کیلئے وقف کردی ۔

طالبان کی طرف سے قندھار شہر پر قبضہ کرتے وقت آپ کو کمانڈر مقرر کیا گیا ، چنانچہ مغربی افغانستان میں جہادی کارروائیوں میں شرکت کے ساتھ ساتھ  کبھی کبھی صوبہ فراہ کے دفاعی لائنوں پر عمومی نگرانی کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔

صوبہ فرا ہ کی نگرانی کے دوران ایک دفعہ عید کے دن مخالفین کے ایک بڑے کمانڈر اسماعیل خان کی طرف سے کیے گئے ایک حملے میں اپنے کچھ ساتھیوں سمیت گرفتار ہوئے اور چالیس روز بعد قیدیوں کی باہمی تبادلے کی صورت رہاہوکر واپس اپنے عہدے پر آگئے ۔ ان ہی ایام میں جب کابل میں اسلامی تحریک کی کارروائیاں جاری تھیں تحریک کے مشہور کمانڈر ملا مشر اخوند شہید ہو گئے ۔ چنانچہ ملا عبید اللہ شہید ؒ صوبہ روزگان سے آپکی فاتحہ خوانی کےلیے آرہےتھے کہ  ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا لیکن اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ہیلی کاپٹرگرجانے کے باوجود بھی آپ اورآپ کے تمام رفقاء صحیح اورسلامت رہے ۔

6میزان 1375ش ق ،کوجس وقت اسلامی تحریک کی طرف سے کابل پر کنڑول کےبعد آپ کو یہاں کے وزارت دفاع کا نگران مقرر کیا گیا اورپھر کچھ ہی عرصہ بعد  مستقل وزیر دفاع بنائے گئے ۔چنانچہ کابل پر امریکہ کےحملہ کرنے کے بعد اسلامی امارت کے مجاہدین کے انخلاتک آپ بدستور اپنےفرائض منصبی سر انجام دیتے رہے۔

وزیر دفاع ہونے کی حیثیت سے آپ امارت اسلامی کے تمام مسلح قوتوں کے سپریم    لیڈر بھی تھے لیکن اس کے باوجود آپ بذات خود بھی مختلف اقدامی اور دفاعی معرکوں میں حصہ لیتے رہے ، آپ کابل کے شمالی دفاعی لائنوں کی ہمیشہ نگرانی کرتے   تھے چنانچہ اسی استقامت کیساتھ آپ تقریبا تمام معرکوں میں بذات خود بھی شریک ہوتے رہےجن  میں آپ  تقریباسات مرتبہ زخمی بھی ہوئے ۔ آخری مرتبہ کلکانو کے قریب ایک معرکہ میں آپ کو کافی زخمیں آئیں ۔

جس وقت امریکی حملہ کی وجہ سے امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت کابل اور دیگر شہروں سے پسپائی اختیار کی تو اس وقت امیر المؤمنین کی طرف سے آپ پورے افغانستان کے نائب امیر بنائے گئے ، اس بھاری ذمہ داری کے کندھوں پر آنے کی وجہ سے خاص کر اس وقت جب افغانستان اور خطے کے حالات سخت ناساز گار تھے اور دشمن  فوج اور میڈیا دونوں طرف سے حملہ آور ہو چکا تھا ، عام طور پر لوگوں کے حوصلے پست ہو چکے تھے اور امارت اسلامیہ کو مالی اور دفاعی لحاظ سے سخت مشکلات کا سامنا تھا ، دنیا بھر میں اللہ تعالی کے سوا کوئی آسرا نہیں تھا ۔ تو اس وقت ملا عبید اللہ شھید ؒ نے امارت اسلامیہ کے دیگر باہمت اور پر عزم قائدین کیساتھ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو ان مشکلات کے مقابلے میں اس وقت تک پیش کر دیا جب تک کہ افغانستان میں حملہ آوروں کے خلاف جاری مزاحمت میں نئی روح پھونک کر اسےایک نئی زندگی بخشی۔

آپ نے مختلف پالیسیوں کےتحت  امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی از سر نو تشکیلات کیں ۔ آپ کے ایک قریبی ساتھی کا کہنا ہے ان ہی ایام میں ملا داداللہ اخوند اور کچھ دیگر کمانڈروں کے ساتھ آپ کی ملاقات ہوئی۔ اسی طرح افغانستان کے مختلف علاقوں میں بار سوخ   جھادی کمانڈروں کیسا تھ بھی آپ نے ملنا شروع کیا ۔ جس کی وجہ سے پہلی دفعہ ، انتظامی ، اقتصادی ، تعمیری اور سیاسی پالیسیوں کے بارے میں ایک منصوبہ پیش کیا گیا ۔ چنانچہ اس طرح ان تشکیلات کی روشنی میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پورے افغانستان کے تمام علاقوں میں جہادی امیر مقررکیے گئے جس کی وجہ سے امریکہ  کےخلاف جاری جہاد کو ایک نئی اور منظم زندگی ملی ۔

آپ نے اپنے قریبی ساتھیوں کے کہنے پر امریکہ کے خلاف جاری جہاد کے اوائل میں جہاد کی تقویت اور اس کو متاثر کن بنانے کیلئے بڑی جدوجہد کی ۔ جس کیلئے آپ کو بہت سے علاقوں کے سفر کرنا پڑے ۔ اور جس کسی سے بھی آپ کو جہاد کی امید تھی اس کے  گھر جاکر اسے جہاد کی  دعوت دی ۔یہ امارت اسلامیہ کے ان جیسے درددل رکھنے والے قائدین کی محبت کا ثمرہ تھا کہ افغان جہاد قوت پکڑ کر بدستور بڑھتا گیا اور آج فتح و کامیابی سے ہم کنار ہونے  کے قریب کھڑا ہے ۔

ذاتی شخصیت :

صوبہ ہلمند کے رہنے والے مولوی محب اللہ جس نے روس کے خلاف جہاد کے دوران ملا عبید اللہ شہیدؒ کے ساتھ وقت گزارا تھا اور بعد میں بھی آپ کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے تھے ۔وہ ملا عبید اللہ اخند ؒ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کے زندگی  میں اور صفات کے علاوہ تقوی اور قوت عزم کی صفات بہت نمایاں تھیں ۔ آپ حالت جنگ اور مقابلے کے وقت بہت پر عزم اور حوصلہ مند ہوتے تھے اور اپنی عام زندگی میں بھی بڑے تقوی دار تھے ۔ مولوی محب اللہ کے کہنے کے مطابق ملا عبید اللہ شہید ؒ نے اپنے یونٹ کے تمام مجاہد ساتھیوں کو نیک چلنی ، دیانت اور باجماعت نماز کا پابند بنا یا ہوا تھا اور جو کوئی ان دینی امور پر عمل پیرا نہ ہو تا تو اسے اپنے یونٹ میں نہ چھوڑتے ۔ اسی طرح جہاد کے وقت آپ ہر صبح سورت یسن  کا ختم کرواتے جس میں ایک ساتھی تلاوت کرتا اور باقی سب سنتے رہتے  تھے ۔ مولوی محب اللہ کے بقول ملا عبید اللہ اخوند شہید ؒ ذاتی طور پر علم دین کے بہت شوقین تھے نیز آپ علماء کرام کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ۔چنانچہ جس وقت آپ کابل میں وزیر دفاع تھے تو اگر عام عالم دین بھی ملاقات کیلئے آتے تو بڑے ادب و احترام سے ان سے ملتے اور انکی عزت افزائی میں کو ئی کسر نہ چھوڑتھے ۔ الحاج ملا عبد الغفار جو کہ امارت اسلامیہ کی حکومت کے دوران وزارت دفاع میں اطلاعات کے عمومی نگران تھے اور بہت عرصہ ملا عبید اللہ شہید ؒ کے ساتھ بھی رہے تھے ، وہ بھی مولانا عبید اللہ شہیدؒ کے تقوی اور بیت المال سے متعلق ان کی نہایت احتیاط کے بارے میں کہتے ہیں کہ جس وقت آپ وزیر دفاع تھے تو میں قندھار میں موجود ان کے گھر پہ بھی گیا  لیکن دنیاوی عہدے داروں کی طرح آپ کا گھر کوئی مزین اور عالی شان نہ تھا بلکہ آپ کا گھر ایک فقیر منش انسان کے گھر کا نمونہ تھا۔

مولوی عبد الغفار وزارت دفاع کے انٹیلی جنس آفیسر مولوی نور علی کی بات نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس وقت ملا عبیداللہ اخوند ؒ کا گھر کابل میں تھا تو ایک دن آدھی رات کو آپ نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا جب میں باہر نکلا تو کہا کہ اگر تمہارے پاس اپنی کچھ ذاتی رقم ہو تو مجھے ادھار دو، میرا بیٹا محمد سخت بیمار ہے ، ملا نور علی کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اپنے بیٹے کو اس چار سو بستر والے ہسپتال پہنچاؤ وہاں تو امارت اسلامیہ کے خاص افراد کا علاج مفت ہوتا ہے یا بیت المال سے کچھ پیسے لیکر خرچ کرو کیونکہ اس طرح کے مواقع پر تو اجازت ہو تی ہے ۔ لیکن یہ سب کچھ سن کر مجھ سے عبداللہ اخوند نے کہا کہ مجھے طریقے بتانا چھوڑ دو  اگر  رقم ہو تو مجھے ادھار دو جب میرے پاس پیسے آجائیں گے تو واپس کر دونگا ، چنانچہ پھر میں نے انہیں ۲۰ہزار روپے دیے ۔ پھر بعد میں ملا عبید اللہ اخوند ؒ  وہ رقم ایک ساتھ  ادا نہیں کرسکا بلکہ پانچ پانچ سو ، ہزار ہزار اور ڈیڈھ ہزار کر کے مختلف ادوار میں آہستہ آہستہ یہ پوری رقم لو ٹادی ۔  ملا عبد الغفار اخوند کہتے ہیں کہ آپ کے گھر یلو محافظ نے مجھے آپ کے گھر کے اخراجات کے بارے میں بتایا کہ ایک مرتبہ پورے ہفتے میں آپ کے گھر کے اخراجات میں صرف آدھا کلو گوشت شامل تھا جو کہ بیت المال سے متعلق آپ کی انتہائی احتیاط اور میانہ روی پر واضح دلیل ہے ۔

مولوی عبد الغفار اخوند آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ عاجزی کے ایک پیکر تھے ، راستہ میں چلتے وقت آپ کسی سے آگے نہیں بڑھتے تھے  اور اگر کسی وقت بیٹھنے کی ضرورت پیش آجاتی تو آپ اس بات کا انتظار نہیں  کرتے کہ کوئی چیز بچھائی جائے بلکہ بے تکلفانہ زمین پر ہی بیٹھ جاتے ۔

اسی طرح مولوی عبدالغفار آپ کی دفاعی ذمہ داریوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ بڑے توکل والے  تھے نیز اپنے وظائف کی بھی بڑی پابندی فرماتے تھے ، پورے افغانستان میں اپنےچند ساتھیوں کیساتھ اپنی ذاتی گاڑی میں مختلف علاقوں میں گھومتے تھے۔ آپ کی روٹین یہ تھی کہ ہفتہ کے اکثر ایام میں آدھی رات کو کابل سے روانہ ہوتے اور شمالی علاقوں کے دفاعی لایئنوں کا نزدیک سے معاینہ کرتے اور مجاہدین کی پوزیشن کے بارے میں معلومات حاصل کرتے  اور جس وقت دفتری اوقات شروع ہو جاتے تو دوبارہ دفتر پہنچ کر اپنا کام شروع کرتے ۔ نیز مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک مرتبہ آپ تن تنہا گاڑی چلاتے ہوئے شمال کے دفاعی لائنوں تک گئے اور وہاں جاکر ان کا معاینہ کیا ۔

مولوی عبدالغفار جس کے پاس وزارت دفاع کے رابطہ کی ذمہ داری بھی تھی آپ کےبارے میں کہتے ہیں

وزارت دفاع میں انکی ڈیوٹی کے دوران میں نے کھبی نہیں سنا کہ عبید اللہ اخوند کا رابطہ اپنے دیگر مجاہدین کمانڈروں سے منقطع ہواہو کیونکہ آپ کا مخابرہ چوبیس گھنٹے کھلا ہوتاتھا جس کی وجہ سے دیگر ذمہ دار حضرات کا ہمیشہ آپ  سے رابطہ قائم رہتاتھا ۔ اور دن رات میں کسی کے ساتھ بھی اگر کوئی مسئلہ پیش آتا تو آپ وہاں پہنچ جاتے تھے ۔امریکہ کے خلاف نئے جہاد کے آغاز میں جب بڑی مایوسی اور آزمائش کا وقت تھا مولانا عبید اللہ اخوند اپنی مجالس میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے سامنے اس آیت کریمہ ( اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے ،ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے (۲۱پارہ نمبر ۹۶) کو بطور استدلال پیش کرکے فرماتے کہ اگر ہم ایک مرتبہ پھر سچے دل سے جہاد کی نیت کرلے تو یقینا اللہ تعالی اس کے اسباب بھی ہمیں عنایت فرمادیں گے ۔

صوبہ ہلمند میں ضلع دکر شک کے مقام پر ایک جہادی کمانڈر مولوی عطامحمد جو ان دنوں ملا عبید اللہ اخواند ؒ کے قریب رہے تھے کہتے ہیں کہ آپ ہمیشہ یہ وصیت کرتے تھے کہ لوگوں کیساتھ نرمی کا معاملہ کرو چاہے تمہیں خود کتنی ہی تکلیف کیوں نہ اٹھانی پڑے ، اور اگر کبھی بھوک لگی ہو تو لوگوں سے بزور زبر دستی کچھ نہ مانگو بلکہ ان کو اپنے حال پر چھوڑ و تاکہ قوم تمہاری حالت خود دیکھے  اور اس کے بعد وہ تمہاری مدد اور نصرت کریں ۔ امریکہ کے خلاف جہاد کے ابتدائی ایام میں آپ کے ساتھ رابطہ کے فرائض سر انجام دینے والے ایک ذمہ داری کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود کہ ان دنوں حالات سخت خراب تھے لیکن پھر بھی ملا عبید اللہ اخوند ؒ نے مجھ سے کہا کہ نہ تو ٹیلیفون نمبر بدلنا اور نہ ہی اسے بند رکھنا ، اور آپ خود بھی ہمیشہ ایک نمبر زیر استعمال رکھتے جس کے ذریعے مجاہدین ہمیشہ میرے واسطے سے رابطہ کر سکتے تھے۔ آپ یہ اتنا بڑا رسک اس وجہ سے لیتے تھے کہ آپ کی نظر میں اپنی گرفتاری کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا بجائے اس کے کہ مجاہدین کو کوئی ایمرجنسی درپیش ہو اورآپ وہاں نہ پہنچ سکیں یا اس کی اطلاع ہی نہ ہو۔

امارت اسلامیہ کے پہلے لکھاری مولوی خبیر احمد مجاہد جس نے امریکہ کے خلاف جاری جہاد کے شروع کے سالوں میں پرنٹ میڈیا کے ذریعہ امارات اسلامیہ کے مؤقف کو بھر پورانداز  میں پیش کرنے میں اپنا اہم اور بنیادی رول ادا کیا ، وہ بھی اس وقت ملا عبید اللہ اخوند ؒ سے قریبی رابطہ میں رہتے تھے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملا عبد اللہ اخوند نے مجھے مخاطب کر کےکہا فی الحال ہمارے پاس وسائل نہ ہو نے کے برابر ہیں لیکن اللہ تعالی کی ذات بہت بڑی ہے ساری دنیا کے کفار اور اسلام دشمن قوتیں ہمارے خلاف متحد ہو چکی ہیں سر چھپانے کیلئے پوری دنیا میں ہمیں ایک بالشت جگہ میسر نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ملک ہے جو ہمیں امداد دیکرہماری مدد کر سکیں ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمارا حمایتی اور مدد گار صرف اللہ تعالی ہے اسی پر ہم توکل کرتے ہیں ۔

باقی ہم اس انتظار میں نہیں بیٹھیں گے کہ پہلے بہت سے وسائل اور پیسہ مہیا ہو اور پھر ہم جہاد کا آغاز کریں ، بلکہ اگر ہمارے پاس کچھ بھی نہ ہو تو زمین پر پڑے پتھر ہی دشمن پر پھننکنا شروع کر دیں گے اور بروز قیامت اللہ سبحانہ وتعالی سے عرض کریں گے کہ ہمارے بس میں اتنا ہی تھا جس سے ہم نے بجائے خاموش بیٹھنے کے آپ کے دین کے دشمن کا مقابلہ کیا ۔ اور دوسری بات یہ کہ اس راہ میں شہادت اور قید خانوں کی اذیت کیلئے ہمیں ہمیشہ تیار رہنا ہو گا

دوران قیدمولانا عبید اللہ اخوند ؒ نے قرآن کریم بھی حفظ کرلیا تھا ، قید کے دوران آپ ہمیشہ نفل نمازوں میں قرآن کا ختم کیا کرتے تھے ۔ اور ساتھ ہی اپنے دیگر قیدی ساتھیوں کو بھی یہ سپارے سناتے تھے ۔ آپ فرماتے تھے کہ ایک طرف نماز کے دوران تلاوت کا بہت بڑا اجر ہے تو دوسری طرف اس سے توجہ اور حضور قلب بھی نصیب ہوتاہے  جس کی وجہ سے نماز میں بہت لذت محسوس ہوتی ہے۔

آپ کے جیل کے ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ مجھے مولانا عبید اللہ اخوند ؒ نے کہا کہ میں نے قرآن کریم دو سال میں مکمل حفظ کر لیا ہے جس کی صورت یہ ہوئی کہ شروع میں چارسورتیں (سورت یسن ،ملک،دخان، حم سجدہ ) یادکرلیں اور یہ معمول بنایا کہ ہر جمعہ کی رات کو نفل نماز میں ان چار سورتوں کی تلاوت کیا کرتا تھا اور اللہ تعالی سے قرآن حفظ کرنے کی توفیق مانگتا رہتاتھا ، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالی نے میری دعا قبول فرما کر مجھے اس نعمت عظمی سے سر فراز فرمایا۔

شہادت

آپ ۳جنوری ۲۰۰۷؁ کوبلوچستان کی طرف سفر کر رہے تھے کہ کوئٹہ کے مقام پر پاکستانی سیکورٹی اہل کاروں نے آپ کو گرفتار کیا ، گرفتاری کے بعد بہت عرصے تک آپ کا کچھ  پتہ نہیں چلتا تھا یہاں تک کہ رواں سال فروری کے مہینے میں پاکستانی اہل کاروں نے آپ کے اہل خانہ کو اطلاع دی کہ ملا عبید اللہ اخوند ؒ آج سے دوسال پہلے ۵ مارچ ۲۰۱۰؁ کو بروز جمعہ پاکستان میں کراچی کے ایک جیل میں انتقال کر چکے ہیں اور ان کی تجہیز و تکفین بھی ہو چکی ہے ۔

آپکی شہادت کی خبر دنیا بھر کے مسلمانوں خصوصا افغان قوم اور امارت اسلامیہ کے مجاھدین کیلئے ایک درد ناک خبر تھی  ،امارت اسلامیہ کے شوراہ کی طرف سے آپ کی شہادت کے بارے میں یہ اعلامیہ جاری ہوا ہے کہ ’’افغانستان کی امارت اسلامیہ آپ کی شہادت پر آپ کے معزز گھر انہ ،تمام مجاہدین افغان قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے غم میں برابر کی شریک ہے اور اس سانحہ پر اپنی شدیدرنج وغم کا اظہار کرتی ہے، اور جس طرح آپ نے اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے تو ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کی شہادت قبول فرما کر آپ کو جنت الفردوس میں ٹھکا نا عطا فرمائیں اور آپ کے خاندان کو اس سانحہ پر صبر جمیل اور اجر عظیم عطا فرما ئیں (آمین) افغانستان کی امارت اسلامیہ آپ کے دنیا سے جانے کو تمام مسلم دنیا اور خاص کر افغان قوم کیلئے عظیم سانحہ گردانتی   ہے جس کی خلا تادیر پر نہیں ہو سکے گی ۔ اور ہم پاکستانی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد مولانا عبید اللہ اخواند ؒ کی گرفتاری مرض اور وفات کے بارے میں امارت اسلامیہ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کریں ۔نیز آپ کے گھر والوں کو دو سال تاخیر سے  شہادت کی خبر پہنچا نے کی وجہ سے ہم بین الاقوامی ہیومن رائٹس کے ادارے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان نے ابھی تک مولانا عبید اللہ شہید ؒ اور دیگر امارت اسلامیہ کے قیدیوں کے بارے میں ان کے اہل خانہ کو کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی ہیں لہذا وہ جلد از جلد مذکورہ معلومات فراہم کریں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے

آپ نے اپنے پسماندگان میں ۹ بیٹے اور پانچ بیٹیاں سوگوار چھوڑے ہیں ، بیٹوں میں کچھ حافظ قرآن ہیں اور باقی اپنا دینی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اللہ آپ کی روح کو خوشی سے سر شار اور آپ کی یاد کو تر وتازہ رکھے۔