امارت اسلامیہ کے کمیشن برائے امور جیل خانہ کے سربراہ سے گفتگو

کابل انتظامیہ کے زیرقبضہ اضلاع میں عموما ہر کمانڈر ایک نجی جیل بھی رکھتا ہے ۔   محترم قارئین ! اس شمارے میں انٹرویوز کے سلسلے میں ہم نے کمیشن برائے امور جیل خانہ کے سربراہ سے گفتگو کی ہے امید ہے قارئین کی توقعات پر پورا اترے گا۔ قیدیوں کے نظم وضبط اور رہائی […]

کابل انتظامیہ کے زیرقبضہ اضلاع میں عموما ہر کمانڈر ایک نجی جیل بھی رکھتا ہے ۔

 

محترم قارئین ! اس شمارے میں انٹرویوز کے سلسلے میں ہم نے کمیشن برائے امور جیل خانہ کے سربراہ سے گفتگو کی ہے امید ہے قارئین کی توقعات پر پورا اترے گا۔ قیدیوں کے نظم وضبط اور رہائی کے متعلق امور کے نگران حاجی عبداللہ خان صاحب نے تحریک اسلامی طالبان کے آغاز کے ساتھ ہی جہادی خدمات کا آغاز کیا ۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے اہم عسکری اور انتظامی شعبوں میں اعلی عہدوں پر خدمات انجام دیں ۔ گذشتہ تقریبا تین سال سے قیدیوں کے امور کی نظم وضبط کے حوالے سے قائم کیے گئے کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ہم نے ان کے متعلقہ کمیشن کے حوالے سے ان سے گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے ۔ (ادارہ)

سوال : محترم حاجی صاحب ! سب سے پہلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ پہلے سوال کے طورپر قیدیوں کے حوالے سے قائم کمیشن کے متعلق معلومات دیں تو مہربانی ہوگی ،آپ کی تشکیلات کہاں تک فعال ہیں اور کن شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں ؟

جواب:   حامد اًومصلیاً! سب سے پہلے میڈیا ونگ اور ثقافتی کمیشن کے محترم  ذمہ دار کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے امارت اسلامیہ کے مختلف ذمہ داروں سے انٹرویوز کا اہتمام کرکے امارت اسلامیہ کی انتظامی بنیادوں اور تشکیلات کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ جس سے وطن عزیز کے حالات سے متعلق عوام اور مسلمانوں کو آگاہی ملتی ہے ۔

آپ کے سوال کے جواب میں کہوں گا کہ دشمنوں کے ہاتھوں میں قید ، قیدیوں کی رہائی شریعت کی نگاہ میں اہم ترین مسائل میں سے ہے ۔ امت کے جمہور علماء اور مجتہدین کا خیال ہے کہ مسلمان قیدیوں کی رہائی دیگر مسلمانوں پر واجب کفایہ ہے ۔

یہ فتوی عام قیدیوں کے متعلق ہے ۔ اور اگر قیدی راہ حق کے مجاہدین ہوں اور پھر امریکا جیسے جابر کفر  کی جیلوں میں ہوں تو ان کی رہائی کا مسئلہ اور بھی اہم اور ضروری ہوجاتا ہے ۔

اسی ضرورت کی بنیاد پر امارت اسلامیہ افغانستان نے گذشتہ سالوں میں مظلوم  قیدیوں کے نجات کے لیے مختلف عسکری اور غیر عسکری ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے قیدیوں کے کئی کئی گروپ دشمن کی قید سے آزاد کردیے ہیں ۔ اس حوالے سے اپنے ان اسیر مجاہدین کی رہائی کے لیے جو اندرون یا بیرون ملک جیلوں میں کابل انتظامیہ یا جارحیت پسندوں کی قید میں ہیں انہیں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور رہائی کے لیے مستقل کمیشن قائم کرکے دیا  تاکہ صحیح طریقے سے قیدیوں کی رہائی اور خدمت کی ذمہ داری صحیح طریقے سے نبھائی جاسکے ۔ قیدیوں کے امور کے لیے امارت اسلامیہ کی قیادت نے ایک لائحہ مرتب کیا ہے ۔ کمیشن کی تشکیلات کے حوالے سے بہترین معلومات اسی لائحہ سے بہتر طورپر حاصل کی جاسکتی ہیں ۔

یہ ادارہ اپنی تشکیلات میں ریاست مقام ، سیکرٹری اور چار شعبہ جات رکھتا ہے ۔ انتظامی اور ریکارڈو رجسٹریشن کا شعبہ ، تحقیق وتفتیش کا شعبہ ، عمومی رابطوں کا شعبہ ، کارکن اکائیوں کا شعبہ ۔ اب مختصر طورپر ہر انتظامیہ کی ذمہ داری اور اختیارات کی وضاحت کریں گے ۔

ریاست مقام:

ریاست مقام کمیشن برائے جیل خانہ کا عمومی ذمہ دار ہوتا ہے ۔ کمیشن کی اہم ذمہ داریاں ، تشکیل ، ترتیب ، کمیشن شوری کی قیادت ، قیادت کی اجازت اور ہدایت پر ان تمام اجلاسوں میں شرکت جن میں قیدیوں کی مشکلات کے حل یا قیدیوں کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں اور شخصیات سے ملاقاتیں ۔ اپنے ادارے کی کارکردگی ، خفیہ رموز اور بجٹ کے صحیح استعمال کی نگرانی ۔ اسی طرح قیادت کی ہدایت پر امارت اسلامیہ کے ساتھ دشمن کے خارجی یا داخلی قیدیوں کا تبادلہ مقام ریاست کی اہم ذمہ داری ہے ۔

سیکرٹری:

امارت اسلامیہ کے دیگر کمیشنز کی طرح ہمارے کمیشن کے بھی کام کے دو حلقے ہیں ۔ ایک جنوب مغربی زون اور دوسرا مشرقی زون ۔ کمیشن کا عمومی ذمہ دار مشرقی زون میں ہو تو کمیشن کا سیکرٹری جنوب مغربی زون میں ہوگا ۔ اور اگر عمومی سربراہ جنوب مغربی زون میں ہو تو سیکرٹری مشرقی زون میں ہوگا ۔ کمیشن کا معاون عمومی ذمہ داریوں اور مشوروں میں اپنے حلقے کے حدود میں ان تمام امور کی سرپرستی اور نگرانی کرے گا جو عمومی سربراہ کی ذمہ داری میں شامل ہیں ۔

انتظامی ریکارڈ اور رجسٹریشن کا شعبہ:

یہ شعبہ تمام انتظامی امور کا ذمہ دار ہے ۔ اس کے دائرہ کار میں مالیات اور حسابات ، ریکارڈ کی ترتیب ، رجسٹریشن ، قیدیوں کی درخواستوں کا ریکارڈ ، قیدیوں کی گنتی وغیرہ شامل ہیں ۔  اسی طرح اس شعبے کی ذمہ داریوں میں شوری اجلاس کے لیے ایجنڈا ، مقام اور وقت کا تعین اور ہر ماہ اپنے تمام حساب کتاب کا مکمل آڈٹ ریاست مقام کے حوالے کرنا بھی اس شعبے کی ذمہ داریوں میں سے ہے ۔

شعبہ تحقیق وتفتیش:

یہ ادارہ قیدیوں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال اور رہائی کے لیے تمام ممکنہ ذرائع کے اہتمام کی کوششیں کرتا ہے ۔ اس شعبے کی ذمہ داریوں میں ایسے ذرائع یا افراد کا انتخاب یا ان کا تعاون حاصل کرنا بھی ہے جو قیدیوں کے امور کی قانونی چھان پرکھ رکھتے ہوں ، باقاعدہ وکیل ہوں یا کم از کم ایسے لوگ ہوں جو جرائم کے اقسام جانتے ہوں اور سیاسی ، مافیائی اور  پرتشدد جرائم کے مقدمات میں فرق جانتے ہوں ۔

یہ شعبہ دشمن کے قیدیوں کی تحقیق بھی کرتا ہے تاکہ وہ معلومات مجاہدین کے پاس موجود رہیں ۔ قیدی اگر بیرونی ، سیاسی یا اہم فوجی شخصیت ہو ۔ یا اربکی ملیشیا کے افراد ہوں ، یہ ادارہ تبادلے اور دیگر متعلقہ ذرائع کا طریقہ کار مرتب کرتا ہے اور ریاست مقام کے حوالے کرتا ہے ۔

عموی رابطے کا شعبہ :

یہ ادارہ داخلی اور عالمی تعلقات کے شعبے میں قیدیوں کے معاملات سنبھالتا  ہے ۔ داخلی تعلقات کے شعبے میں ملک کے تمام جیلوں سے روابط بڑھاتا ہے اور عالمی تعلقات میں امارت اسلامیہ کی سیاسی پالیسی کے مطابق ان تمام رفاہی داروں سے تعلقات وابستہ کرتا ہے جو قیدیوں کو خوراک ، لباس اور ادویہ کی فراہمی کرنا چاہتے ہیں ۔ ان سے مفاہمت کرتا ہے اور حسب ضرورت ان کی توجہ کھینچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اسی طرح ان تمام تنظیموں سے جو قیدیوں کے حوالے سے ملک کے اندر یا باہر کام کرنا چاہتے ہیں اور بالواسطہ یا بلاواسطہ معاملات کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔ اور اپنی مشکلات کے حوالے سے بتانا چاہتے ہیں ان سے تعاون کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں ، ریڈ کراس اور دیگر قومی اور عالمی تنظیموں کے اعلامیے اور رپورٹس جو سیاسی اور عسکری قیدیوں کے حوالے سے نشر ہوچکی ہیں یا ہورہی ہیں ان کا حصول اور ان کی روشنی میں ملک کے داخلی یا بیرونی جیلوں میں بند قیدیوں کے ساتھ جو غیر قانونی سلوک کیا جاتا ہے اس کی نشاندہی اور ضرورت پڑے تو امارت اسلامیہ کی مطبوعات اور میڈیا کے ذریعے پالیسی اور کمیشن کی ہدایت کے مطابق باقاعدہ موقف دنیا کو پیش کرتا ہے ۔

کارکن اکائیوں کا شعبہ:

اس شعبے میں پورے ملک میں صوبائی سطح پر کمیشن کے ذمہ داران کا تعین کیا گیا ہے ۔ ہر ذمہ دار اپنے متعلقہ صوبے کے قیدیوں کے معاملات سنبھالتا ہے ۔

صوبائی ذمہ داران کی اہم ذمہ داریاں یہ ہیں :

ریکارڈ اور رجسٹریشن کے شعبے کو نئے قیدی کے متعلق پورے معلومات کی فراہمی ، تحقیق اور تفتیش کے ادارے کی جانب سے جاری ہونے والے رہنما ہدایات قیدیوں تک پہنچانا ، جس ان کے ریکارڈ میں معلومات کی تکمیل تبدیلی ہوسکے ۔ ایسے کمیشن ایجنٹوں کو تلاش کرنا جو ججوں ، وکلاء ، انٹیلی جنس اور دیگر متعلقہ حکام سے قیدیوں کے لواحقین کی ملاقاتوں کا اہتمام کریں۔ اسی طرح اپنے متعلقہ صوبے کے قیدیوں کی مشکلات سے باخبر رہنا اور اپنے متعلقہ مراجع کو ان مشکلات سے باخبر کرنا ۔

سوال : اب افغانستان میں قیدیوں اور جیلوں کے حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔ آپ کی معلومات کے مطابق کتنے افغان دشمن کی جیلوں میں موجود ہیں ؟

جواب : افغانستان کی جیلوں میں قیدیوں کی حالت ماضی کی بنسبت بہت خراب ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر جیلوں سے قیدیوں کی حالت زار کے متعلق طرح طرح کی خبریں آتی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کٹھ پتلی انتظامیہ اور وحشی فوجی نہ اسلام کو جانتے ہیں اور نہ انسانیت سے واقف ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل صوبہ فاریاب کے مرکزی جیل میں قیدیوں نے پولیس کے نامناسب سلوک کی روک تھام کے لیے بھوک ہڑتال کردی ۔ میڈیا پر جب بھوک ہڑتال کی خبر پھیل گئی جیل کے نگران نے کئی قیدیوں کو سخت سزائیں دیں اور کال کوٹھری میں لاکر بند کردیا ۔ مگر قیدیوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنا احتجاج جاری رکھا ۔ اگلی صبح جب قیدی نماز کے بعد قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے وحشی کمانڈر نے اپنے ساتھیوں سمیت مسجد پر حملہ کرکے قیدیوں کو گھسیٹنا شروع کردیا ۔

قیدیوں نے جب مزاحمت کی تو اس بے دین نے قران کریم کے نسخے مسجد سے باہر نکال پھینکے ۔ اور حدیث مبارکہ کی کتابیں پھاڑ ڈالیں ۔ قیدیوں نے ان کا یہ عمل دیکھ کر اپنی مزاحمت اور بھی  شدید کردی اور کئی فوجیوں کو زخمی کرڈالا۔ زخمی فوجیوں نے دوسرے فوجیوں کی مدد سے پہلے ان قیدیوں کو پیچھے دھکیلا اور پھر ان کے سامنے قرآن کریم کے نسخوں کو آگ لگادی ۔ قیدیوں کے ساتھ ہونے والے ان مظالم کے آڈیو ثبوت ہمارے پاس موجود ہے ۔ مظلوم قیدیوں کے ساتھ ظالم انتظامیہ کا وحشیانہ سلوک ایسے ظالمانہ اقدامات ہیں جسے خفیہ رکھنے کی ہمت مغرب اور اقوام متحدہ کو بھی نہ ہوئی ۔اور انہوں نے گذشتہ سال جنوری میں قیدیوں سے غیر انسانی رویہ کے متعلق حقائق سے پردہ اٹھا یا۔ یوناما کی رپورٹ میں پوری تفصیل کے ساتھ ان 14 طریقہ ہائے مظالم اور ان کے شواہد کی روداد لکھی گئی ہے افغانستان کی جیلوں میں قیدیوں کوروزانہ جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور یہ تو  آپ بھی جانتے ہیں کہ مختلف ملکی اور عالمی ذرائع ابلاغ کی جانب سے وقتا فوقتا سخت سنسر شپ کے باوجود افغانستان کے جیلوں کے حالات کو ناگفتہ بہ قرار دیا جاتا ہے ۔ جس کی ایک مثال ریڈیوآزادی کی رپورٹ ہے جو گذشتہ سال جنوری میں نشر ہوئی ۔ جس میں پل چرخی جیل کے خراب حالات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا ۔ رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اس جیل کا ماحول صحت کے حوالے سے قیدیوں کے رہنے کے قابل نہیں ۔

جیل کی خراب صورتحال ، جیل محافظین کا ظالمانہ سلوک اور دیگر سخت حالات اس کا باعث بنے ہیں کہ قیدیوں نے احتجاج اور بھوک ہڑتال شروع کردی ہے ۔ اور یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ میں ایسے کئی جیلوں میں احتجاجوں اور ہڑتالوں کی خبریں نشر ہوتی ہیں ۔ ہمارے کمیشن نے اپنی ذمہ داری سمجھ کر کئی کئی مرتبہ دشمن کے ناروا سلوک اور مظالم کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرکے ان کے مظالم اور وحشتوں کو طشت از بام کیا ہے ۔

قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ کہ 34 جیلوں اور 222 توقیف خانوں میں 30 ہزار سے زیادہ افراد قید ہیں ۔ ہماری معلومات کے مطابق ان قیدیوں کو تین کیٹگریوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے کچھ قیدیوں کو تعذیری جرائم ، کسی کو طالبان کے الزام میں اور کسی کو طالبان سے تعاون کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ۔

سوال:   گذشتہ چند سالوں میں قیدیوں کے کمیشن کی اہم کارروائیوں کے متعلق معلومات دیں کہ کس شعبہ میں کتنا کام کیا گیا ہے ؟

جواب :   قیدیوں کے کمیشن کی ساری کارروائیاں اور اقدامات اہم ہیں کیوں کہ ایک مظلوم قیدی سے تعاون سارے مسلمانوں کے لیے اہم ہے ۔ اور قیدیوں کا کمیشن امارت اسلامیہ کی مہربان قیادت کی ہدایت پر اسی لیے بنایا گیا ہے کیوں کہ قیدیوں کی ہر حوالے سے خدمت ان کے لیے اہمیت رکھتی ہے ۔ اور اپنی بساط کے مطابق قیادت یہ خدمت سرانجام بھی دے رہی ہے ۔ قیدیوں کے کمیشن کے حوالے سے اہم اقدامات کے متعلق کچھ بتاتاچلوں :

الف ۔ انتظامی نظم وضبط:

چونکہ ہر ادارے کی ترقی اور کامیابی کے لیے انتظامی نظم ونسق کا کنٹرول بہتر ہونا ضروری ہوتا ہے اس لیے ہم نے کمیشن برائے جیل خانہ جات کی ترتیب انتہائی بہتر نظم وضبط سے مرتب کیا ہے ۔ ہر صوبے کا ذمہ دار ماہانہ کارروائیوں کی تفصیل انتظامی شعبے کے حوالے کرتا ہے ، انتظامی شعبہ صوبائی ذمہ داران کی رپورٹوں کی بنیاد پر تمام قیدیوں کی صحیح تعداد،  ریکارڈ اور رجسٹریشن کے شعبے کے حوالے کرکے درج کرواتا ہے ۔ اسی طرح تحقیق وتفتیش کا شعبہ قیدیوں کے مسائل کے حل کے لیے ان سے متعلق تعاون اور کنٹرول کے شعبے میں تحقیق کرتا ہے اور اس کے نتائج مقام ریاست کے حوالے کرتا ہے ۔

ب ۔      شعبہ تعلقات:

قیدیوں کے کمیشن کا اہم اقدام تعلقات عامہ کا شعبہ بھی ہے جو تمام متعلقہ امور کو سنبھالتا ہے ۔ یہ شعبہ ملک کے تمام جیلوں سے فعال تعلقات رکھتا ہے اور ہر قیدی کے مسائل سے خود کوباخبر رکھتا ہے اور پھر متعلقہ مراجع تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ شعبہ قیدیوں کے مسائل کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے تعلقات بھی قائم رکھتا ہے اور وقتا فوقتا متعلقہ موضوعات پر گفتگو بھی کرتا ہے ۔

ج۔        قیدوں اور ان کے خاندانوں سے ہمہ پہلو تعاون:

قیدیوں کا کمیشن اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے قیدیوں سے ان کی رہائی کے لیے مختلف صورتوں میں تعاون کرتا ہے ۔ یہ تعاون ان قیدیوں کے مقدمات میں ان کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جس کی پوری تفصیل پالیسی کی وجہ سے یہاں پیش کرنا ممکن نہیں ۔ بے سہارا اور بے کس قیدیوں کے احوال وقتا فوقتا لیتے ہیں اور اپنی استطاعت کی حدتک ان سے تعاون بھی کیا ہے ۔ اسی طرح قیدیوں کے بے سہارا خاندانوں سے اپنی استطاعت کے مطابق تعاون کیا ہے اور ان کا حال پوچھا ہے ۔

د ۔ طبی تعاون:

قیدیوں کا کمیشن عوامی تعلقات کے شعبے کے ذریعے قیدیوں کی طبی مشکلات سے باخبر رہتا ہے اور تعاون کے لیے ایسے قیدیوں کو افغانستان میں عالمی ادارے ریڈکراس سے متعارف کراتا ہے ، اگر کسی جگہ ریڈکراس کے ڈاکٹروں کے لیے قیدی کا علاج ممکن نہ ہو تو پھر قیدیوں کا کمیشن دیگر ذرائع سے اس قیدی سے تعاون کرتا ہے تاکہ ان کی طبی مشکلات حل ہوجائیں ۔

ھ ۔ قیدیوں کی تاریخ :

آپ کو معلوم ہے کہ امریکی جارحیت کے آغاز کے ساتھ امریکی وحشیوں اور ان کے ساتھیوں اور غلاموں کی جانب سے بھی مظلوم ہم وطنوں کی اسارت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ جو اب تک جاری ہے ۔ اسارت کے دوران ان مظلوم قیدیوں کو انتہائی شدید حالات ، وحشتوں اور مظالم کا سامنا رہا ۔ کمیشن نے فیصلہ کیا کہ قیدیوں کا اپنا آنکھوں دیکھا حال اور جیل کے شب وروز کے قصے تاریخ کے صفحات میں محفوظ کردیے جائیں تاکہ آئندہ نسلیں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور تاریخ سے واقف رہیں ۔ قیدیوں کے حالات جمع کرنے کا طریقہ یوں بنتا  ہے کہ ہر قیدی کو اپنے حالات اور مشاہدات لکھنے کے لیے ایک چھوٹی سی ڈائری دی جاتی ہے جسے لکھنے کے بعد واپس کیا جاتا ہے یہ معلومات ان شاء اللہ کتابی صورت میں شائع ہوں گی ۔

قیدیوں کا کمیشن ان فعال کارروائیوں کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی بنیاد پر قیدیوں کے حوالے سے عالمی اداروں کے اعلامیے ، داخلی و خارجی خبریں اور معلومات کی نگرانی کرتا ہے اور ضرورت پڑنے پر امارت اسلامیہ کی پالیسی کے مطابق اچھا ردعمل دکھاتا ہے ۔

سوال:    عوام یا میڈیا سے ایسے اطلاعات بھی ملی ہیں کہ کابل انتظامیہ کے کچھ علاقوں میں ذاتی جیلیں بھی ہیں ۔ آپ کی معلومات کے مطابق یہ کہاں تک درست ہے اور لوگوں کی نجی جیلوں کے بارے میں آپ کہاں تک جانتے ہیں؟

جواب:   جی ہاں کابل انتظامیہ کے زیر اختیار اضلاع میں عموما ہر کمانڈر ایک نجی جیل بھی رکھتا ہے اور سب نے اپنے مزاج کے مطابق اس کے لیے قوانین بھی متعین کیے ہوئے ہیں ۔ کسی کا قتل یا جیل  یہ سب کچھ اس کے ذاتی اختیار میں ہوتا ہے ۔ مگر وحشی کمانڈروں کی خفیہ جیلیں ، وحشیانہ مظالم اور بے گناہ قیدیوں کی اجتماعی شہادتیں یہ سب کچھ اب کوئی اجنبی بات نہ رہی ۔ یہ ساری داستانیں زبان زد خاص وعام ہیں ۔ ان وحشی کمانڈروں میں سے ایک قندہار کا پولیس سربراہ کمانڈر عبدالرازق ہے جس کے وحشیانہ مظالم کسی سے پوشیدہ نہیں  ۔ کچھ ایسے قیدی جو اس کی نجی جیل سے لاکھوں افغانی روپے دے کر رہا ہوئے ہیں ۔ ایسے وحشیانہ واقعات بیان کرتے ہیں  جس کے لکھنے سے قلم عاجز ہے ۔ قندہار کے علاقے “ریگ” میں قیدیوں کی اجتماعی شہادتیں ایسی عام ہوئی ہیں  جس کا ساری دنیا کو علم ہے ۔ اس کے ان مظالم کو ہم نے  کئی بار میڈیا کے ذریعے ثبوتوں اور دلائل کے ساتھ نشر کیا ہے ۔

سوال:    کابل انتظامیہ اور امریکیوں کا دعوی ہے کہ وہ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کا احترام اور اس پر عمل کرتے ہیں اسی لیے ہم نے تمام قیدیوں کو انسانی حقوق فراہم کیے ہیں ، دشمن کا یہ دعوی کہاں تک درست ہے ؟

جواب :   دشمن کے اس دعوے کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ سارے دعوے ان کا خالی خولی پروپیگنڈا ہے ۔ اس حوالے سے کہنا چاہتا ہوں کہ قیدیوں کی قید کے حوالے سے دو فریق ذمہ دار ہیں ۔ ایک فریق خارجی جارحیت پسند اور دوسرا فریق ان کے کٹھ پتلی غلام  ۔

امریکی اگر یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے قیدیوں کو انسانی حقوق فراہم کیے ہیں تو گوانتانا موبے اور بگرام جیل کے حوالے سے واضح کردیں کہ وہاں قیدیوں کوکو ن کون سے حقوق فراہم کیے گئے ہیں ۔ ان دو جیلوں کے قیدی گذشتہ 13 سالوں سے ایسی ہی صورتحال کا شکار نہیں ہیں کیا ؟ یہاں اگر کچھ قیدی اپنے حقوق کے لیے احتجاج یا بھوک ہڑتال شروع کردیں تو کیا انہیں ایسی ہی صورتحال میں نہیں چھوڑا جاتا ۔ اور بالآخر ان قیدیوں کوموت آجاتی ہے یا زبردستی ان کا ہڑتال توڑا جاتا ہے ۔

کابل انتظامیہ کی جیلوں میں رواں حالات کے حوالے سے کہوں گا کہ قیدی نہایت سخت حالات میں رہتے ہیں ۔اور انتہائی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ جیلوں میں طبی سہولیات کا فقدان ، قیدیوں کے رہائشی جگہوں کی تنگی ، بہت مرتبہ تعلیم پر پابندی کے لیے مختلف بہانے ، جیل میں پولیس کی جانب سے منشیات کا کاروبار، قیدیوں کو منشیات کے عادی بنانے کی کوششیں ، سیاسی اور تعذیری واخلاقی مجرموں کو ایک جگہ کرکے انہیں لڑانے کی کوششیں اور اس طرح کے دیگر واقعات ہیں جس کی رپورٹ ہمارے کمیشن کو ہمیشہ ملتی رہتی ہے ۔ ان مسائل کے متعلق ہماری معلومات بہت سے ذرائع ابلاغ پر بھی شائع ہوئی ہیں جنہیں ہمارے کمیشن نے ریکارڈ کے طورپر اپنے آرشیف میں  محفوظ رکھا ہے ۔

سوال :   ابھی بگرام اور گوانتا نا موبے کی جیلوں کو بند کرنے کے متعلق ذرائع ابلاغ میں باتیں چل رہی ہیں ۔ اوباما نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کہا تھا کہ گوانتا نا موبے کی جیل کو بند کردیا جائے گا ۔ دشمن کی جانب سے ان جیلوں کو بند کرنے کی خبر واقعتا سچی ہے یا یہ بھی ان کا محض پروپیگنڈا ہی ہے۔

جواب :   امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک ہمیشہ سے اپنے عوام کو اپنی منافقانہ سیاست سے دھوکہ دیتے آرہے ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ اکثر اتحادی ممالک کے عوام اپنی حکومتوں کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ہیں ۔ ان کا اپنی حکومتوں سے ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ اب وہ افغانستان سے نکل جائیں ۔ اور مزید اپنی فوج اور معیشت کو اس جنگ کی بھٹی میں نہ جھونکیں ۔  امریکی عوام کے دیگر مطالبوں کے ساتھ ساتھ ایک مطالبہ گوانتانا موبے کی جیل بند کرنے کا بھی تھا ۔ یہ مطالبہ بش کے دور میں بھی تھا اور بعد میں بھی جاری رہا ۔ اوباما کی دوسری مرتبہ کامیابی میں بڑا کردار افغان جنگ کے خاتمے اور گوانتانا مو کی جیل بند کرنے کے اعلان نے ادا کیا تھا۔ اوباما نے اپنے عوام سے اس جیل کے خاتمے کا وعدہ کیا اور عوام نے بھی اسے ووٹ دیے ۔مگر کامیابی کے بعد اب تک کئی سال گذرنے کے باوجود  اوباما نے اس جیل کو بند نہیں کیا اور عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سب سے بڑے مرکز کے طورپر اب بھی یہ جیل قائم ہے ۔ اوبا ما ایک بارپھر یہی وعدے کررہا ہے تو اس میں بھی خلوص نظر نہیں آتا ۔ اس جیل کا خاتمہ اس وقت ممکن ہوگا جب اتحادی قوتیں مکمل شکست کے ساتھ ملک سے نکل جائیں ۔

سوال :    محترم حاجی صاحب! کابل انتظامیہ کی عدالتوں میں قیدیوں کو پھانسیوں کے فیصلے سنائے جاتے ہیں ۔ کیا ایسی سزائیں دینا عالمی عدالتی قوانین کے مطابق صحیح ہے ؟

جواب :  ان کی یہ سزائیں کسی عالمی عدالتی قوانین کے مطابق درست نہیں ہیں ۔ وہ عدالتی قوانین جسے عالمی دنیا میں سزا کے قانون کے حوالے جانا جاتا ہے اور سارے کفریہ اور جمہوری ممالک  خود کو اس پابند قراردیتے ہیں ۔ کابل انتظامیہ بھی خود کو اس کا پابند قرار دیتی ہے وہ قوانین افغانستان کے کسی بھی حصے میں کہیں بھی عملی طورپر لاگو نہیں ہوئے ۔ یہاں سارے فیصلے رشوت پر ہوتے ہیں ۔ کوئی ملزم عدالت کو پیسے دے کر بہت آسانی سے رہا ہوجاتا ہے اگر چہ وہ ان کے قوانین کے مطابق مجرم ہو ۔ اور اگر کسی کے پاس پیسے نہیں تھے اسے یا تو سزا ملے گی یا عمر قید ۔ موجودہ انتظامیہ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کوئی چھوٹا سا فیصلہ بھی اسلامی قوانین کے مطابق کریں گے یہ ناممکن ہے ۔ قیدیوں کے حوالے سے یہ اپنے مرتب کردہ قوانین پر عمل پیرا ہونا بھی ضروری نہیں سمجھتے ۔ ساری دنیا جانتی ہے گذشتہ سال کابل کے وحشی حکام نے کرزئی کے دستخط پر چھ مجاہدین کو جو تمام کے تمام سیاسی قیدی ہیں انہیں پھانسی دے دی ۔

ہمارے پاس وہ کاغذی ثبوت محفوظ ہیں جنہیں کرزئی نے ذرائع ابلاغ کو بھیجا تھا جس میں ان چھ قیدیوں کا ذکر تھا ۔ اس نے خط میں خود تحریر کیا تھا کہ فلاں فلاں کا تعلق طالبان سے ہے ۔ ایسے سیاسی قیدیوں کو پھانسی خود امریکی قوانین کی تحت بھی جرم ہے ۔ امریکا خود اپنے ملک میں بھی ایسا نہیں ہونے دیتا ۔ سیاسی قیدیوں کو پھانسی کا مقصد محض مذہبی دشمنی اور کفر کو خوش کرنا ہے ۔ مقدمات کے دوران فیصلے سے قبل قیدیوں کو پھانسی کی سزا یہ خود کابل انتظامیہ کے قوانین کے خلاف ہے اس حوالے سے ہمارے پاس بہت سے دلائل اور ثبوت ہیں ۔ بات لمبی ہونے کے خوف سے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں ۔

قندہار ہائی کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ نے گذشتہ مارچ کے مہینے میں 18 تاریخ کو دیگر قیدیوں کے مقدمات کے ساتھ ساتھ تین سیاسی قیدیوں کی سزا کے حوالے بھی تذکرہ کیاہے ۔ اس بات کی مزید توثیق کے لیے ان کی جانب سے جاری کی گئی خبر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔ ” ہائی کورٹ میں تین افراد کو 5 سالہ قید کی سزا سنائی گئی ، نقیب اللہ ، نور احمد اور رفیع اللہ، احمدجان نامی کیس میں ملزم نامز دکیے گئے تھے ۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ مذکورہ تین افراد نے احمد جان نامی ایک شخص کو قتل کیا ہے ۔ جنہیں کچھ عرصہ بعد پولیس نے گرفتار کرلیا تھا ۔

ان کے وکیل صفائی نے کہا ہے : کہ نوراحمد کالج کا طالب علم ہے اس کی عمر بھی کم ہے ، نقیب اللہ اور رفیع اللہ کو سکول سے پولیس نے گرفتار کیا ہے ، ان کے پاس کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں تھا ، ان لوگوں نے اعتراف پولیس کے پرتشدد طریقہء تفتیش کی وجہ سے کیا ہے ۔ اور ڈاکٹروں نے اس کی تصدیق کی ہے  کہ ان ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔‘‘۔ مگر مقتول کے ورثاء نے انہیں افراد کو مجرم قرار دیا اور عدالت سے درخواست کی کہ ان افراد کو سزا دی جائے ۔ جج عبدالحلیم مسلم نے مذکورہ افراد کو پانچ سالہ جیل اور پھانسی کی سزا سنادی “۔

اس خبر کی تشریح کی ضرورت نہیں ، آپ خود سوچیں کہ یہاں سزا کن دلائل اور ثبوتوں کی بناء پر دی گئی ۔

سوال :   قیدیوں کے خاندانوں اور ورثا کو کیا پیغام ہے اور امارت اسلامیہ کے نمائندے کی حیثیت سے آپ ان سے کیا کہنا چاہیں گے ۔

جواب :   قیدیوں کے خاندانوں اور ورثا کو ہمارا پیغام یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی قید سے ہر گز یہ  نہ سمجھیں کہ ہم انہیں بھول چکے ہیں ۔ امارت اسلامیہ تمام قیدیوں کو اپنے وجود کا اہم حصہ سمجھتی ہے ۔ اور اپنی پوری قوت سے ان کی رہائی کے لیے ممکنہ کوششیں کرتی ہے ۔ مگر امارت اسلامیہ کی تمام کوششوں کے ساتھ یہ قیدی آپ کے گھر کے افراد ہیں ۔ انہیں آپ کی شفقت اور محبت کی ضرورت ہے ۔ آپ ان سے اور ان کے بچوں سے ہمدردی والا رویہ رکھیں تاکہ ان کے حوصلے پست نہ ہوں ۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ  سب کو قیدی بھائیوں کی خدمت اور ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔

سوال : قیدیوں کے حوالے سے عام مسلمانوں کو آپ کا پیغام کیا ہے ؟

جواب : عام مسلمانوں کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ افغان ہوں یا غیر افغان ، ہم سب امت مسلمہ کا حصہ ہیں ۔ حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق سارے مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی تکلیف اپنی تکلیف سمجھنی چاہیے ۔ جو لوگ افغانستان میں کفار یا ان کے ساتھیوں کی جیلوں میں بند ہیں وہ کسی ذاتی مسائل یا دنیوی مقاصد کی وجہ سے قید نہیں ہیں بلکہ اسلام پر غیرت اور اسلامی نظام کے حصول کے لئے جدوجہد کی جرم میں قید ہیں ۔ جس طرح تمام مسلمان ایک دینی خاندان کا حصہ اور آپس میں بھائی ہیں ۔ ہمیں ایک دوسرے  کا درد بھی یوں ہی محسوس کرنا چاہیے ۔ ان کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھیں اور ان سے تعاون کریں ۔

قیدی ساتھی جو ہمارے مشترک دین کے دفاع میں قید ہوگئے ہیں ان کا ہم پر حق ہے کہ ان کے احوال پوچھیں اور ان کی رہائی کے لیے ہر طرح کے تعاون جتنا ہم سے ہوسکے دریغ نہ کریں ۔ اسی طرح ان قیدیوں نے پس ماندگان میں بے سہارا خاندان اور بچے چھوڑے ہیں ان کی پرورش کے لیے امارت اسلامیہ سے تعاون کریں تاکہ آپ کا تعاون بجا طورپر انہیں پہنچ سکے ۔

محترم حاجی صاحب ! آپ کا بہت بہت شکریہ ۔  کہ آپ نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ہمیں وقت دیا۔

حاجی صاحب: آپ کا بھی بہت شکریہ ۔ اللہ تعالی آپ کو اور تمام مجاہدین بھائیوں کو اچھی خدمت کی مزید توفیق عطافرمائے اور اس کا جزائے خیر دے ۔