امارت کا قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک

 آج کی بات: حالیہ فتوحات اور حیران کن جہادی کامیابیوں کے سلسلے میں گزشتہ روز کی ایک دل چسپ خبر یہ تھی کہ ہلمند اور اروزگان میں دشمن کے وہ سیکڑوں اہل کار، جو مجاہدین کے شدید محاصرے میں تھے، مجاہدین کے سامنے  نہ صرف ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے، بلکہ اپنے مراکز میں موجود […]

 آج کی بات:

حالیہ فتوحات اور حیران کن جہادی کامیابیوں کے سلسلے میں گزشتہ روز کی ایک دل چسپ خبر یہ تھی کہ ہلمند اور اروزگان میں دشمن کے وہ سیکڑوں اہل کار، جو مجاہدین کے شدید محاصرے میں تھے، مجاہدین کے سامنے  نہ صرف ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئے، بلکہ اپنے مراکز میں موجود تمام فوجی وسائل بھی مجاہدین کے حوالے کر دیے۔

تفصیلات کے مطابق صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ شہر کے قریب بشرانو قبرستان کے علاقے میں دشمن کا ایک بڑا قافلہ مجاہدین کے محاصرے میں آ گیا تھا، جس میں لڑائی کے نتیجے میں دشمن کے 79 اہل کار ہلاک ہو گئے، جب کہ باقی اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ دشمن کے مذکورہ فوجی قافلے میں  125 پولیس اہل کار اور قومی ملیشیا  کے جنگجوؤں سمیت پانچ اہم کمانڈر بھی شامل تھے۔

اس کارروائی میں دشمن کے 8 ٹینک اور ایک کماز ٹرک جل کر خاکستر ہو گیا۔ 220 ہلکے اور بھاری ہتھیار، ایک بڑا ٹینک، 22 ہموی بکتربند، 3 ٹوڈی گاڑیوں سمیت بڑے پیمانے پر فوجی ساز وسامان بھی مجاہدین نے غنیمت کر لیا ہے۔ اسی طرح صوبہ اروزگان  کے مرکزی شہر ترین کوٹ میں بھی پولیس کی ایک مکمل اکیڈمی نے تمام فوجی وسائل کے ساتھ مجاہدین  کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اس کارروائی میں دشمن کے تین اہل کار ہلاک ہوئے، جب کہ اکیڈمی میں موجود 100 اہل کاروں  نے اپنے کمانڈر شیر محمد سمیت  مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ سرنڈر  ہونے والے پولیس اکیڈمی کے اہل کاروں نے 30 ہموی بکتربند، 15 رینجر گاڑیاں، 4 کماز ٹرک، 18 موٹر سائیکلز، 105 عد د ہلکے اور بھاری ہتھیار،2000 بم افگن کے گولے، ڈیڑھ لاکھ مختلف ہتھیاروں کی گولیاں، 2000 راکٹ لانچر کے گولے اور  4 عدد نائٹ دوربین بھی مجاہدین کے حوالے کی ہیں۔

ہلمند اور اروزگان میں سیکڑوں  اہل کاروں کا اپنے تمام وسائل اور ہتھیاروں سمیت امارت اسلامیہ کے سامنے سرنڈر ہونا مجاہدین کے لیے ایک مثبت اور قابل فخر کامیابی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جن علاقوں میں دشمن کے اہل کار مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہوتے ہیں، ان پر فرار ہونے کے تمام راستے مسدود  ہوتے ہیں۔ وہ مجاہدین کی شدید حملوں کی زد میں ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر وہ مجاہدین کے خلاف لڑنے سے احتراز کریں اور مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہونا چاہیں تو مجاہدین اسلامی اصولوں کے مطابق اُن کے ساتھ حسن سلوک  کا معاملہ کرتے ہیں۔ سیکڑوں اہل کاروں کا مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہونا اور مجاہدین کی جانب سے ان کےساتھ حسن سلوک کو دیکھ کر اس بات کے مزید امکانات ہیں کہ اس کے بعد افغانستان کے دوسرے صوبوں میں بھی سیکڑوں پولیس و فوجی اہل کار دشمن سے علیحدگی اختیار کر کے امارت اسلامیہ کے سائے میں پناہ لیں گے۔

امریکا  سمیت کابل کی کٹھ  پتلی انتظامیہ کے صرف صوبہ ہلمند میں 40 ہزار سے زیادہ اہل کار تعینات تھے۔ کہا جاتا ہے ان میں سے 900 امریکا کے فوجی بھی شامل تھے، جو کابل کی کٹھ پتلیوں کے شانہ بہ شانہ مجاہدین کے خلاف زمینی اور فضائی آپریشن  میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ یہاں ہر قسم کی وحشت اور طاقت کا استعمال کرنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت، مجاہدین کی بیش بہا قربانیوں اور عوام کی بھرپور حمایت کے نتیجے میں امریکا اور اس کی کٹھ پتلی انتظامیہ کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے ہیں۔ ہلمند کا وسیع علاقہ صرف چند سرکاری عمارتوں کے علاوہ مجاہدین کے قبضے میں آ چکا ہے۔ اسی طرح صوبہ اروزگان، فراہ اور بغلان بھی مکمل فتح کی دہلیز پر ہیں۔ جب کہ صوبہ قندوز کے مرکزی شہر پر مجاہدین کی کارروائیاں جاری ہیں۔