امریکی تربیت یافتہ وردی پوش ٹوٹ پھوٹ کا شکار!

آج کی بات:   امریکی حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے کابل کی کٹھ پتلی حکومت کو اقتصادی اور فوجی میدان میں 115 ارب ڈالر کی امداد دیگر ان فوجی اخراجات کے علاوہ دی ہے، جن میں ساٹھ فیصد حصہ افغان فوج کی تربیت، جنگی وسائل اور  مجاہدین سے لڑنے  کے […]

آج کی بات:

 

امریکی حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے کابل کی کٹھ پتلی حکومت کو اقتصادی اور فوجی میدان میں 115 ارب ڈالر کی امداد دیگر ان فوجی اخراجات کے علاوہ دی ہے، جن میں ساٹھ فیصد حصہ افغان فوج کی تربیت، جنگی وسائل اور  مجاہدین سے لڑنے  کے لیے مختص تھے۔ لیکن اب ایسا محسوس رہا ہے کہ اشرف غنی کے جنگجوؤں پر کی جانے والی سرمایہ کاری بے سود ہی رہے گی۔ کیوں کہ امریکا کو توقع  تھی کہ چار لاکھ مسلح وردی پوش افغان جنگجو  مٹھی بھر مجاہدین  کے مقابلے  میں انتہائی کامیاب ثابت ہوں گے۔ اور وہ اپنے اور ہمارے مشترکہ دشمن کو جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کرنے دیں گے۔ لیکن حالیہ صورت حال اور امارت اسلامی کی جانب سے متعدد علاقوں پر قبضے نے کفار کی جانب سے اشرف غنی سے منسلک کی گئی بھاری بھر کم توقعات کو لاتعداد اور خوف ناک سوالات کے درمیان گھیر رکھا ہے۔ اور یہ معاملہ امریکا کی امداد کو خاک میں ملانے والا ہے۔

نیو یارک ٹائمز نے  ہفتے کی رپورٹ میں اعلیٰ امریکی عہدہ داروں  کی زبانی لکھا ہے  کہ “جب مجاہدین نے صوبہ ہلمند میں افغان اسلحہ بردار جتھوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تو پہلے ہی حملے کے نتیجے میں افغان جنگجو اپنے مورچے چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ جب کہ کچھ نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے  اور کئی اہل کاروں کو اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کے سب سے بڑے صوبے ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ کے علاوہ اکثر ضلعوں پر مجاہدین قابض ہو گئے ہیں۔”

اخبار نے بغلان، قندوز، تخار، ننگرہار اور نورستان میں بھی اشرف غنی کے اسلحہ بردار شدت پسندوں کو مجاہدین کے مقابلے میں ناکام کٹھ پتلیاں قرار دیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے “اب خدشہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ مجاہدین قندوز اور بغلان دونوں صوبوں پر قبضہ کر لیں گے۔ جب کہ ان دو صوبوں پر قبضے سے شمالی صوبوں پر بھی مجاہدین کے قبضے کی راہ بہت آسان ہو جائے گی۔”

کابل کے غلام ادارے  کے ایک جنرل نعمت اللہ نے میڈیا  پر اپنی حالیہ شکست تسلیم کر لی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجاہدین نے ہمیں  غفلت میں ڈال کر حملہ کیا۔ کیوں کہ ہمارا خیال تھا کہ اس سال مجاہدین کی اسٹریٹیجی صرف دفاعی ہوگی اور وہ صرف اپنی دفاعی جنگ لڑیں گے۔  کیوں کہ حالیہ دنوں میں  وہ اپنے رہنما سے محروم کر دیے گئے تھے، لیکن مجاہدین نے ہماری توقعات کے برعکس اقدامی کارروائی کر کے ہمیں سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔

سیاسی ماہرین کے مطابق “اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قیادت کے لحاظ سے امارت اسلامیہ کو ایک کڑے اور سخت امتحان سے گزرنا پڑا ہے۔ امارت اسلامیہ کے باانی گرامخ قدر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات اور بعدازاں امیرالمومنین ملا اختر محمد منصور شہید رحمہ اللہ کی شہادت ایسے بڑے سانحات تھے، جنہوں نے امت مسلمہ اور خاص کر امارت اسلامیہ کے مجاہدین اور مسئولین  کے دلوں کو سخت صدمے سے دوچار کیا تھا۔ چوں کہ امارت اسلامیہ کی اساس اور مقصد بہت مقدس ہے۔ اس لیے  آج تک اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے رہنما کی شہادت  کے بعد لڑکھڑانے سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر ایک طرف مجاہدین اس قسم کے صدمات پر صبر کرتے ہیں تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ انہیں اس کا نعم البدل بھی عطا فرماتے ہیں۔”

ہم مجاہدین کی جو حالیہ فتوحات دیکھ رہے ہیں، ہم اسے صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی نصرت اور افغانستان کے مظلوم عوام کی حمایت اور دعاوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ یہاں کسی دوسرے عنصر کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ کیوں کہ جو وسائل غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے پاس ہیں، مجاہدین کے وسائل کا کسی بھی لحاظ سے ان سے موازنہ نہیں ہو سکتا۔

ہم امریکا اور نیٹو کے حکام سے کہتے ہیں کہ “کابل کے کٹھ پتلی غلاموں پر اب تک جتنے اخراجات کیے جا چکے ہیں، جتنا اسلحہ اور رقم برباد کی جا چکی ہے،  اگر اس کا دس گنا مزید بھی اشرف غنی کو فراہم کر دیا جائے تو تمام صورت حال کا منصفانہ جائزہ لینے کے بعد یقین کرنا پڑے گا کہ آپ کے یہ حلقہ بگوش غلام وردی پوش اور ان کے اعلیٰ حکام تب بھی مجاہدین کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت مجاہدین کے ساتھ ہے۔ جس کے ساتھ الہی نصرت  اور مدد ہو، وہ طاغوت اور اس کے لشکر پر ہمیشہ غالب رہے گا۔ جب کہ آخری فتح ہمیشہ حق ہئ کی ہوتی ہے۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ