امریکی جرائم اور انسانی حقوق کا ڈھونگ

 آج کی بات: امریکی طیاروں کی قندوز پر بمباری اور  کم سے کم 50 مکانات کی تباہی اور 60 کے قریب شہادتوں کے بعد دنیا نے کابل کٹھ پتلی انتظامیہ کا ردِعمل دیکھ لیا ہے، جس میں وزارت دفاع  نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کفار کے ظلم کا دفاع کیا اور کہا کہ کٹھ پتلی […]

 آج کی بات:

امریکی طیاروں کی قندوز پر بمباری اور  کم سے کم 50 مکانات کی تباہی اور 60 کے قریب شہادتوں کے بعد دنیا نے کابل کٹھ پتلی انتظامیہ کا ردِعمل دیکھ لیا ہے، جس میں وزارت دفاع  نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کفار کے ظلم کا دفاع کیا اور کہا کہ کٹھ پتلی فورسز اور غیرملکی جارحیت پسندوں نے اس لیے وہاں بمباری کی کہ وہاں مجاہدین کے ایک کمانڈر کا گھر تھا،  جو اس حملے میں اپنے خاندان سمیت  نشانہ بن گیا ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات ناقابل یقین ہے کہ تباہ ہونے والے 50 مکانات میں سے ایک مکان  مجاہدین کے ایک کمانڈر کا  تھا، جہاں وہ رہائش پذیر تھا۔ فرض کریں وہاں پر مجاہد کمانڈر کا گھر موجود تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکا  خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن سمجھتا  ہے اور مجاہدین کو انسانیت دشمن کے القابات دیتا ہے، وہ کس قانون کے تحت ایک شخص کے لیے اس کے خاندان کے تمام افراد کو موت کی نیند سلانے کا حق رکھتا ہے؟

اگر وہ شخص امریکی جارحیت پسندوں اور ان کے اہل کاروں کا قاتل اور دشمن ہے تو وہی ایک شخص ہے، باقی ان کے بیوی بچوں  اور درجنوں  دیگر شہید ہونے والے افراد کا کیا جرم تھا؟ انہیں خون میں کیوں  تڑپا یا گیا ہے؟ ان کے مکانات کو مٹی کے ڈھیر میں کیوں تبدیل کیا ہے؟

دوسری جانب قندوز کے سانحے کے بارے میں میڈیا، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس حملے کو جواز فراہم کرنے کے لیے بے ڈھنگے دلائل ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مذکورہ تنظیمیں اور میڈیا کس حد تک امریکی اثر و رسوخ میں غرق ہیں۔

امریکا کی جانب سے اس ظالمانہ حملے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی معنی خیز خاموشی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ان تنظیموں کے لیے انسانی اقدار کس حد تک لائقِ احترام ہیں۔ وہ صرف اس وقت ہی آواز اٹھاتے ہیں، جب خون امریکا یا کسی مغربی ملک میں بہا ہو۔ اگر باقی پوری دنیا ایک دن میں تباہ ہو جائے تو ان کے سامنے اس سے اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق حالیہ دنوں میں کابل کی کٹھ پتلی فورسز اور ان کے غیرملکی آقاؤں کو مجاہدین نے افغانستان کے طول و عرض میں ناکوں چنے چبوائے ہیں، جس میں دشمن سے بہت سے علاقوں کو آزاد کرا کر اُن پر مجاہدین نے دوبارہ کنٹرول کر لیا ہے۔ اس حالت سے افغان انتظامیہ اور امریکی جارحیت پسندوں کی حیثیت دنیا میں بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بن رہی ہے۔ دنیا یہ جان چکی ہے کہ امریکا مجاہدین کے ساتھ جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی لیے اُسے علاقے چھوڑ کر بھاگنا پڑ رہا ہے۔

اب اس نے ایک منصوبہ بندی کے تحت عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے، تاکہ وہ مجاہدین کی حمایت سے دست بردار ہو جائی۔، دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مجاہدین کو نشانہ بنانے میں اب مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے، اس لیے عام شہریوں کو ٹارگٹ کر کے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر نے کو شش میں ہے۔ تمام اسلام دشمن قوتیں ان گھناؤنے جرائم سےکسی کو مجاہدین کی حمایت سے نہیں روک سکتیں۔ افغانستان سمیت دنیا کے تمام مسلمان امارت اسلامیہ کے مجاہدین کو اپنی عزت و آبرو اور اسلامی اقدار کا نگہبان سمجھتے ہیں۔ گزشتہ 15 سال سے افغانستان کے غریب عوام مسلسل مجاہدین کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ان کے لیے جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اسی لیے کفار کو چاہیے کہ افغان عوام کی حمایت بمباریوں اور ڈالروں سے حاصل نہیں کی جا سکتی، بلکہ وہ ان کے حمایتی ہیں، جو افغانستان پر اسلام کا علم بلند کرنے کے لیے 15 سال سے کفار اور ان کے کاسہ لیسوں کے ساتھ برسرِ پیکار ہیں۔