امریکی جنرل اور عوام آمنے سامنے

ہفتہ وار تبصرہ اس حال میں کہ امریکی عوام میں افغانستان کی جارحیت اور وہاں امریکی فوج کی فوجی مداخلت کے متعلق منفی سوچ پروان چڑھا ہے،امریکی عوام کی مطلق اکثریت اور مختلف سماج و طبقات کے نمائندے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کررہا ہے۔اس کے برعکس پینٹاگان کے بعض جنگ طلب […]

ہفتہ وار تبصرہ

اس حال میں کہ امریکی عوام میں افغانستان کی جارحیت اور وہاں امریکی فوج کی فوجی مداخلت کے متعلق منفی سوچ پروان چڑھا ہے،امریکی عوام کی مطلق اکثریت اور مختلف سماج و طبقات کے نمائندے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کررہا ہے۔اس کے برعکس پینٹاگان کے بعض جنگ طلب جنرل مزید ناکام تجربات پر اصرار کررہا ہے  اور افغانستان میں اپنی ناکام اور کٹھن مشن کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔

امریکی عوام سے جنگ طلب جنرلوں کے ٹکراؤ اور مخالفت کا تازہ ترین مثال اس ملک (امریکا) کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مارک میلی کا وہ بیان ہے، جوانہوں نے  اے بی سی ٹی وی چینل کیساتھ انٹرویو کے دوران کہا ۔ انہوں نے کہا کہ پینٹاگان اب آمادہ نہیں ہے کہ افغانستان سے اپنی افواج نکال دیں،کیونکہ ان کے مطابق اب تک افغانستان میں ان کا مشن مکمل نہیں ہوا ہے۔ مگر انہوں نے نہیں کہا کہ آخرکار افغانستان میں امریکی افواج کا مشن کیا ہے،حتی کہ اٹھارہ سالہ جنگوں،جانی و مالی نقصانات،جنگی جرائم، تھکن اوربدنامی کے باوجود اب تک مکمل نہیں ہوا ہے۔

جنرل مارک میلی اس حال میں افغانستان میں جارحیت کو جاری رکھنے کی بات کررہا ہے،کہ دوسری جانب امریکی صدر،کانگریس کے اعضاء کی اکثریت اور عام امریکیوں کی مطلق اکثریت  اس سوچ میں ہے کہ امریکا اس ناقابل اختتام اور بےنتیجہ جنگ کو ختم کردیں،جس کے سالوں باربار تجربات کے بعد بھی اس کا نتیجہ صفر ہے اور اس سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کرسکا۔

پینٹاگان کے جنگ طلب جنرلوں کے خلاف امریکی عوام کا مؤقف اس لیے جائز ہے،کہ افغان جنگ میں پینٹاگان کے اعلی حکام کو نقصان نہیں پہنچا،بلکہ اس میں عام امریکی شہریوں کے فرزندوں کا خون بہایا جارہا ہے، جنگ کی فنڈنگ عام شہریوں کے ٹیکس سے پورا کیا جارہا ہے، اس طرح امریکی فریق میں جنگ کا تمام نقصان عام امریکیوں کو متوجہ ہے۔اس کے علاوہ افغانستان میں جارحیت کو جاری رکھنے کا کوئی منطق اور اخلاقی بنیاد نہیں ہے۔ اگر امریکی جنرل یہ کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکا پر حملہ ہوا، تو اگر ایک طرف یہ امکان دنیا اور موجودہ شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت بعید معلوم ہورہا ہے، تو دوسری جانب جارحیت کے خاتمے کی صورت میں  امارت اسلامیہ یہ تسلی کو دینے کے حاضر ہے کہ افغان سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

جیسا کہ نصف صدی قبل ویتنام کی لڑائی کے دوران پینٹاگان کے حکام اپنی ملت کے مطالبات کے برعکس مسیر پر گامزن تھے،یہاں تک کہ ان کا انجام عظیم رسوائی اور ناکامی ہوا،اس مرتبہ بھی اگر پینٹاگان کے جنگ طلب جنرلز اپنی ملت کی آواز نہیں سنتا،تو اس کا نتیجہ اب کی بنسبت شرمناک شکست اور فرار ہوگا۔

امارت اسلامیہ افغانستان کا مؤقف یہ ہے کہ افغانستان ہمارا ملک ہے،ایسا ملک جو ہمیشہ خودمختار رہا ہے اور یہاں تک انیسویں اور بیسویں صدیوں کے استعماری دورے میں بھی جارحیت کے طوق تسلیم نہیں کیا ۔ جیسا کہ افغان ملت نے گذشتہ اٹھارہ برسوں میں جارحیت کے خلاف قابل رشک جہاد انجام دیا اور شدید مراحل میں ثابت قدمی کا  امتحان دیا،اسی طرح مستقبل میں بھی اللہ تعالی پر یقین  اوراپنی اسلامی اور  افغانی پرافتخار تاریخ  سے الہام لیتے ہوئے عزم رکھتا ہے کہ آخری غاصب کے انخلا تک مقدس جہاد کو جاری رکھیں گے۔ ان شاءاللہ تعالی