امریکی ساختہ حکومت بھی آزادی کا جشن منائے گی ؟!

آج کی بات: افغان کیلنڈر میں ماہ اسد کی 28 تاریخ  افغان عوام کی بہادری اور قربانیوں  کی یاد دلاتی ہے، جب اس قوم نے خود کو غلامی کی لعنت سے بچتے ہوئے ناجائز قبضے کی نیت سے غیرملکی حملہ آور انگریزوں کو مار بھگایا تھا۔ اس تاریخ کو ہر وہ افغان، جو قومی اور […]

آج کی بات:

افغان کیلنڈر میں ماہ اسد کی 28 تاریخ  افغان عوام کی بہادری اور قربانیوں  کی یاد دلاتی ہے، جب اس قوم نے خود کو غلامی کی لعنت سے بچتے ہوئے ناجائز قبضے کی نیت سے غیرملکی حملہ آور انگریزوں کو مار بھگایا تھا۔ اس تاریخ کو ہر وہ افغان، جو قومی اور دینی جذبے سے سر شار ہو، ہر سال بڑے فخر سے اپنےشان دار جہاد کو یاد کر کے اس دن کی خوشی مناتا ہے۔

97 سال قبل دنیا کی وہ بڑی قوت، جس کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، افغانوں کی ایمانی اور جہادی قوت نے اس ناجائز طاقت کا سورج ہمیشہ کے لیے بحر اوقیانوس میں غرق کر دیا تھا۔ اُسے  اپنے دینی اور اسلامی جذبے  کو عظمت کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور کیا تھا۔

28 اسد کی تاریخ اس  حوالے سے بھی افغانوں کے لیے اہمیت کی حامل ہے کہ اس دن کابل کی تاریخی عیدگاہ میں افغانستان کے مجاہد علماء، مشائخ اور قبائلی بزرگوں نے امان اللہ خان کو اپنا صدر منتخب کر کے اُنہیں غازی کا لقب دیا تھا۔ اُن سے درخواست کی کہ ہم آپ کو یہ اعزازات اس لیے دے رہے ہیں کہ آپ نے بہت جلد آزادی   کا اعلا ن کرنا ہے اور افغانستان میں اسلامی شریعت کے عملی نفاذ کا حکم نامہ جاری کیا جائے گا، لیکن جب امان اللہ خان نے دیکھا کہ انگریز شکست کھا چکا ہے  اور اب حالات معمول پر آگئے ہیں تو انہوں ہر احساس کمتری کی بیماری میں مبتلا دیگر مسلم حکمرانوں کی طرح انگریزوں کو ماربھگانے والے علمائے کرام کے بجائے یورپ  کی تقلید شروع کر دی۔ جب وہ یورپ کے چھ ماہ کے سفر سے واپس افغانستان آئے تو تب وہ  ‘غازی’ اور ‘مجاہد’ امان اللہ خان نہیں رہے تھے۔ وہ علماء کے مشورے بھول گئے تھے۔ ان کی فکر،عمل اور عقیدے میں ترقی کے نام پر اسلام مخالف نظریات کا کینسر پروان چڑھ رہا تھا۔ وہ ہرگز اس بات کے لیے تیار نہیں تھے کہ افغانستان میں شریعتِ اسلامی کا نظام نافذ ہو، تاکہ فغان عوام کے دل اسلام کی ٹھنڈی بہاروں سے سکون پا سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ امان اللہ خان  کے خلاف عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ دینی اور مذہبی  تنظیمیں ان کے خلاف نکل کھڑی ہوئیں، جس کا نتیجہ ان کے اقتدار کا سقوط اور ان کی جلاوطنی کی صورت میں برآمد ہوا۔

افغانستان کی موجودہ صورت حال اور آزادی:

آج ہم ایسے حالات میں انگریز سے آزادی کی 97 سالہ سالگرہ منا ر ہے ہیں، جہاں افغانستان کے عوام  اُن ہی انگریزوں  اور ان کے تلوے چاٹنے والے اسلام مخالف کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا گیا ہے۔ پندرہ سال سے یہ جارحیت پسند ممالک بذات خود اور اپنے ڈالر کے بھکاریوں کی مدد سے افغان عوام کے قتل عام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ان درندوں نے مظلوم عوام کی دینی و قومی آزادی کو غصب کر رکھا ہے۔ لیکن جارحیت کے ان حالات میں جب کہ دن رات امریکا، نیٹو اور ان کی کٹھ پتلیاں افغان عوام پر بم برسا رہے ہوں، افغانستان کے تمام فضائی اور زمینی اختیارات امریکا اور نیٹو کے اختیار میں ہوں، افغانستان کے جس علاقے میں بھی چاہیں، ظالمانہ فوجی آپریشن کرتے ہیں، افغانوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں،  ان پر تشدد کرتے اور انہیں پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جب چاہیں، کابل میں اپنی مرضی کے مہرے نصب کرتے ہیں۔ امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری  کابل آ کر دیکھتے ہیں کہ کس  شخص میں غلامی کے جراثیم دوسروں سے زیادہ ہیں، اسے تختِ کابل پر بٹھایا جاتا ہے۔ کسی کو صدر اور کسی کو چیف ایگزیکٹیو کا نام دے کرہمارے دین و ملت کے دشمنوں کو ہم پر ظلم کا موقع دیا جاتا ہے۔ اب جان کیری کے ہاتھوں بننے والے کابل کے ذلیل اور حلقہ بگوش غلام بھی آزادی کا نعرہ لگا رہے ہیں اور جشنِ آزادی کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ آزادی  کا دعوی صرف  وہ لوگ کر سکتے ہیں، جو کم سے کم فکری، سیاسی، فرہنگی، فوجی   اور اقتصادی میدان   میں آزاد اور خود مختار ہوں۔

ہم جان کیری  کے غلام ادارے کے کٹھ پتلی صدر، بے اختیار چیف ایگزیگٹیو اور ان کے ساتھ   شریک تمام غیرملکی مہروں سے یہ پوچھنا چاہتے  ہیں کہ  مذکورہ پانچ میدانوں میں سے آپ کا ادارہ کس کس میدان میں آزاد اور خود مختار ہے؟ اگر ان میں  سے ہر شعبے میں جان کیری  کی ڈکٹیشن لینا  آپ کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے  تو پھر کس منطق اور دلیل کی بنیاد پر افغانوں کے اس عظیم دن  کا جشن منانے  میں آپ لوگ شریک ہو رہے ہو؟ یہ کیسا مضحکہ خیز منظر ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ برطانیہ کی گود میں بیٹھ کر 97 سال قبل برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کا جشن منا رہے ہیں؟ یہ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ایک آدمی حکمران ہے، لیکن وہ غلام ہے۔ یعنی ‘غلام حکمران’! ہمیں تو اس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آتی!

یہ ناہنجار غلام طبقہ عوام کی کم، اپنی آنکھوں میں زیادہ دھول جھونکنے کی  کوشش ہے اور یہ بے ضمیر اسی میں خوش ہیں؟

تھا جو نا خوب، بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر