امریکی صدر کے لیے ایک مشورہ

آج کی بات: امریکا کے ڈھائی سو سالہ جمہوری دور میں ڈونلڈٹرمپ 45 واں صدر ہیں۔ امریکا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ یہ اپنی فوجی اور سیاسی قوت کے ذریعے ہمیشہ دنیا کے غریب، خصوصا مسلم ممالک کے ساتھ دشمنی کا رویہ ہی رکھے ہوئے ہے۔امریکا کی یہ دشمنی آج […]

آج کی بات:

امریکا کے ڈھائی سو سالہ جمہوری دور میں ڈونلڈٹرمپ 45 واں صدر ہیں۔ امریکا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ یہ اپنی فوجی اور سیاسی قوت کے ذریعے ہمیشہ دنیا کے غریب، خصوصا مسلم ممالک کے ساتھ دشمنی کا رویہ ہی رکھے ہوئے ہے۔امریکا کی یہ دشمنی آج تک جاری ہے۔ اسی ظالمانہ اور جابرانہ سیاست کے نتیجے میں جاپان پر غیرانسانی طور پر  ایٹم بم پھینکے گئے، جن کی تباہی میں صرف چند لمحوں میں ڈیڑھ لاکھ انسان موت کی نیند سلا دیے گئے۔ یہ انسانی تاریخ میں ظلم کے ایک سیاہ ترین  باب کا اضافہ تھا۔

اسی طرح ویت نام پر شرم ناک جارحیت کی گئی۔ عراق پر دو مرتبہ حملہ کیا گیا۔ لیبیا، شام، یمن اور صومالیہ پر فضائی و زمینی حملے، اسرائیل کی حمایت اور افغانستان پر جاری ظالمانہ جارحیت امریکی حکمرانوں کے مظالم کا وہ سلسلہ ہے، جن سے پوری دنیا کا امن غارت ہو چکا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ناانصافی کا اودھم مچایا ہوا ہے۔ امن کے نام پر کئی ممالک کے جنگی اڈے اور جزیرے اپنے قبضے میں لیے ہوئے ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کی مدد سے کئی ممالک پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ دنیا کے غریب ممالک کو قرضوں کے نام پر اقتصادی غلامی کے جال میں پھنسایا ہوا ہے۔ آج کل دنیا  جس سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی بحران کا شکار ہے، مجموعی طور پر اس کی اکثر کڑیاں امریکا کی ظالمانہ فوجی اور سیاسی عیاریوں سے ملتی ہیں۔ امریکا افغانستان میں ایک ناکام جنگ میں گرفتار ہے۔ اس جنگ سے افغانستان بھی ایک سنگین بحران کا شکار ہے۔ امریکا کو چاہیے اُس کے نئے صدر اس بارے میں مثبت طرزِ فکر اختیار کریں، تاکہ ایک طرف امریکا کو تباہی سے بچایا جائے اور دوسری جانب افغانستان کو بھی پندرہ سالہ جنگ سے نجات مل جائے۔

امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان کے مظلوم عوام کی نمائندگی میں امریکا کے نئے صدر کے نام اپنے پیغام میں انہیں مناسب راستہ اپنانے کا مشورہ دیا ہے، تاکہ وہ اس پر سنجیدگی سے سوچیں اور اپنی فوجیں افغانستان سے نکال لیں۔ آئندہ کے لیے اس قسم کی استعماری سیاست سے گریز کریں۔ کیوں کہ  نہ صرف امریکا، بلکہ پوری دنیا کے لیے مثبت ترقی بہت ناگزیر ہے۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہے، جب دنیا بھر میں امن پسندانہ سیاست کو فروغ دیا جائے گا۔ اگر امریکی صدر حسب سابق فوجی ڈکٹیشن سے ہی اپنی احمقانہ سیاست کو جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں تو اُنہیں واضح رہنا چاہیے کہ اب وہ وقت دور نہیں کہ دوسرے ممالک کے بجائے سب سے پہلے امریکا اس آگ میں جل کر خاکستر ہو جائے گا۔

اور اَب امریکا اپنی ہی بھڑکائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے۔