امریکی و کٹھ پتلی جرائم میں اضافہ

آج کی بات: غیرملکی جارحیت پسندوں اور کابل کٹھ پتلیوں کےمظالم اور وحشیانہ پن میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، جس میں افغان شہریوں کو بھاری جانی اور مالی  نقصانات پہنچے ہیں۔ قندوز، شیرزاد، درویشان اور فاریاب کے سانحات اس کی واضح مثال ہیں۔ فاریاب کے ضلع خواجہ سبزپوش  کے علاقے قلعہ کوچہ میں […]

آج کی بات:

غیرملکی جارحیت پسندوں اور کابل کٹھ پتلیوں کےمظالم اور وحشیانہ پن میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، جس میں افغان شہریوں کو بھاری جانی اور مالی  نقصانات پہنچے ہیں۔ قندوز، شیرزاد، درویشان اور فاریاب کے سانحات اس کی واضح مثال ہیں۔

فاریاب کے ضلع خواجہ سبزپوش  کے علاقے قلعہ کوچہ میں کابل کی کٹھ پتلی فورسز کے مارٹر گولوں کے ایک حملے 23 افراد شہید، جب کہ درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق  کٹھ پتلی فورسز کے مارٹر گولے علاقے کے ایک ایسے گھر میں گرائے گئے، جہاں شادی کی تقریب جاری تھی۔ اسی لیے زیادہ شہادتیں ہوئیں۔

دو  نومبر کو غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کے کاسہ لیسوں نے صوبہ قندوز کے علاقے بزقندھاری میں چھاپہ مارنے کے بعد اندھی بمباری شروع کع دی، جس میں 50 مکانات تباہ ہوگئے اور 60 کے قریب شہری شہید ہوگئے، جن مین زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

سانحۂ قندوز سے صرف چند روز قبل اروزگان کے مرکز ترین کوٹ کے قریب درویشان  کے علاقے میں غیرملکی جارحیت پسندوں کی بمباری میں 35 شہری شہید ہوگئے تھے۔ بمباری اس وقت کی گئی، جب واقعے سے صرف دو روز قبل اس علاقے کے ایک بڑے فوجی مرکز کے تمام اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے، جنہیں مجاہدین نے محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ جب اگلے دن اہلِ علاقہ مذکورہ مرکز دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تو امریکی طیاروں نے ان پر بمباری کر دی۔

سانحہ درویشان سے قبل غیرملکی جارحیت پسندوں نے نائٹ آپریشن کے سلسلے میں صوبہ ننگرہار کے ضلع شیرزاد  کے علاقے مرکخیل میں چھاپہ مارا، جسے مجاہدین کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس پر کفار نے زچ ہو کر علاقے پر اندھی بمباری شروع کر دی، جس کے نتیجے میں 30 افراد شہید اور زخمی ہوگئے۔

افغانستان پر غیرملکی جارحیت پسندوں اور ان کے کاسہ لیسوں کی جانب سے  بمباریوں، چھاپوں اور فائرنگ کے مسلسل واقعات میں ہزاروں شہری شہید اور زخمی ہو رہے ہیں۔ مکانات، مساجد، مدارس، اسکولز، کالجز اور عوامی فلاحی تنصیبات تباہ کی جا رہی ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب ایک مرتبہ پھر ان جیسے حملوں میں تیزی آئی ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود ہمیں اللہ تعالی کی ذات سے مکمل امید ہے کہ وہ ایک دن اسی جہاد کی برکت سے اہلِ اسلام کو کفار پر زبردست غلبہ عطا فرمائے گا۔ تب کفار کے لیے کوئی جائے فرار نہیں رہے گی۔ ان شاء اللہ