امن ، لیکن اسلامی نظام اور آزادی کے بدلے نہیں

آج کی بات امن جنگ زدہ ممالک کی وہ گم شدہ متاع ہے جس کے لیے وہ سالوں سال ترستے  اور اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتےہیں۔  کیونکہ امن میں سکون ہے ، خوشی  ہے قوموں کی  ترقی اور بقا ہے ۔ افغان قوم  ماضی میں ایک مثالی امن سے بہرہ ور […]

آج کی بات

امن جنگ زدہ ممالک کی وہ گم شدہ متاع ہے جس کے لیے وہ سالوں سال ترستے  اور اسے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہوتےہیں۔  کیونکہ امن میں سکون ہے ، خوشی  ہے قوموں کی  ترقی اور بقا ہے ۔

افغان قوم  ماضی میں ایک مثالی امن سے بہرہ ور تھی، شرعی نظام نافذ تھا، قومی ، لسانی اور علاقائی عصبیت کا نام ونشان نہیں تھا۔ مرکزی اقتدار کو کسی قسم کا خطرہ نہیں تھا۔ افغانستان میں موجود تمام اقوام بھائیوں کی طرح زندگی گذار رہے تھے۔ امارت اسلامی عوام کے محافظ کے طور پر ان کے حقوق کے دفاع میں سر گرم عمل تھی اور ملک  میں کئی عشروں بعد لوگ امن وسکون کی زندگی بسر کرنے لگے تھے۔

اچانک مغرب کی جانب سے وحشت و بربریت کی داستان افغانستان میں نظر آنے لگی  جس نے افغان قوم سے امن کی نعمت چھین لی، اور یہاں خون کی ندیاں بہنے لگیں، فضاء میں لوگوں کی آہیں اور سسکیاں گونجنے لگیں، وحشت کے دھویں نے آسمان پر کالی گھٹا کی صورت اختیار کرلی جس سے عدل کی کرنیں غائب ہوئیں، ملک میں فساد اور قتل عام کی ہوا چل پڑی، افغان قوم امن امن کے نعرے لگاتے رہے،انسانی  حقوق کا دعویٰ کرنے والوں کے دروازوں پر دستک دی ، لیکن مہذب اور متمدن دنیا کے ان لوگوں کو مظلوم افغانوں کی آواز کہاں سنائی دیتی تھی  بلکہ انہوں نے الٹا مغربی جارحیت اور مظالم پر بھی مکمل خاموشی اِختیار کر لی ۔

افغان قوم ڈیڑھ عشرے سے  امن وسکون ، خود مختاری اور معنوی ترقی کے حصول کے لیے اس دور کے فرعونوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے ساتھ مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں اور اس وقت تک ان کی جدوجہد جاری رہے گی جب تک ان جارحیت پسند فرعونوں کو شکست فاش نہیں دی جاتی اور ان کا غرور خاک میں نہیں مل جاتا۔ اور افغانستان ایک بار پھر شریعت کی معطر فضاوّں سے بہرہ ور ہو سکے۔

افغان قوم نے اس بار بھی گزشتہ جارحیت کی طرح بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور دشمن کو یہ بتایا کہ افغان قوم نے تاریخ کے ابواب میں کسی جارحیت پسند ملک کے سامنے سر تسلیم ِخم نہیں کیا ہے۔ جی ہاں افغان قوم کی سرزمین چنگیز، انگریز، گورگین اور روس کی شکست کی عینی گواہ ہے۔

ہم امن کے لیے ترستے ہیں، امن چاہتے ہیں، امن کی امید رکھتے   ہیں لیکن امن جو واقعی امن ہو وہ امن نہیں جو نعروں تک محدود ہو، امن صرف امن کےلیے ہو نہ جنگ کے لیے۔ ہم امن کی اتنی زیادہ خواہش رکھتے ہیں کہ اس کے حصول کے لیے اپنی جان قربان کرتے ہیں لیکن اسلامی اقدار اور آزادی کی قیمت پر کبھی امن نہیں چاہتے۔

ہم وہ امن چاہتے ہیں جس میں دین کی بے حرمتی نہ ہو،مذہبی اقدار محفوظ ہو اسلامی شعائر کو مکمل  احترام حاصل ہو، قرآن وحدیث تمام فیصلوں کا اصل مرجع ہو، مغربی کلچر نیست و نابود ہو، لادینیت کی زہر آلود فضا نہ ہو، قومی مفادات    پر ہمیں مکمل دسترس حاصل ہو،ملک کی سرحدیں محفوظ ہو اور مختصر یکہ کہ اسلام کا مبارک دین انفرادی اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلووں میں حاکم ہو۔