امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد عصرِحاضر کا ایک استثنائی رہبر

ہفتہ وار تبصر 04 ثوربمطابق 24 اپریل اور12 رمضان المبارک امارت اسلامیہ کے بانی امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات کی آٹھویں برسی ہے۔اس حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح اسلامی نظریہ کے پیروکاروں اور امارت اسلامیہ کے حامیوں نے مرحوم امیرالمؤمنین کے بارے اپنے نیک تاثرات، یادیں، عقیدت کے اظہارات […]

ہفتہ وار تبصر
04 ثوربمطابق 24 اپریل اور12 رمضان المبارک امارت اسلامیہ کے بانی امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کی وفات کی آٹھویں برسی ہے۔اس حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح اسلامی نظریہ کے پیروکاروں اور امارت اسلامیہ کے حامیوں نے مرحوم امیرالمؤمنین کے بارے اپنے نیک تاثرات، یادیں، عقیدت کے اظہارات اور ان کے کارناموں کی مثالیں تازہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے مرحوم امیر کی یاد منائی۔
مرحوم امیرالمؤمنین موجودہ عصر کے عظیم سیاسی اور اصلاحی اشخاص میں سے تھے۔ ایسی شخصیات صدیوں میں کبھی کبھار گزرتی ہیں۔ انہوں نے اسلامی سیاست اور حاکمیت کے اس فراموش شدہ فریضے کو زندہ اور اسے عملی جامہ پہنایا، جسے عوام نے کئی صدیوں سے بھلادیا اور اس کے نفاذ کو ناممکن سمجھا جاتا ۔ مگر مرحوم ملا صاحب نے ایک بار پھر دنیا کو دکھلا دیا کہ اگر ایمان، اخلاص، عزم اور اپنے اصولوں پر اعتماد اور یقین موجود ہو، تو اب بھی ممکن ہے کہ خیرالقرون کی طرح حقیقی اسلامی بنیادوں پر استوار حکومت قائم، شرعی قانون نافذ، شرعی حدود جاری اور حکومتی نظام، قانون، عدلیہ، ثقافت، علم اور معیشت سمیت زندگی کے تمام پہلو شریعت کے روشن دستور کے مطابق ہوجائیں۔
مرحوم امیرالمؤمنین کا عظیم کارنامہ یہی تھا،کہ انہوں نے موجودہ عصر کے عالمی نظم میں ایک فراموش شدہ سیاسی نسخے کو متعارف کروایا ، وہ اسلامی نظام ہے۔ وہ نظام کے جس کے تدوین، تصویب اور منصوبے کے امور کو کسی مشرقی یا مغربی مفکر یا فلسفی کی جانب سے ڈیزائن نہیں کیا گیا، بلکہ اللہ تعالی نے انسانوں کے اصلاح اور سماجی نظام کے استحکام کی خاطر زمین کو بھیجا ہے۔ ایسا نظام جو انسان کی سعادت، تحفظ، انصاف، اخلاقی عظمت اور سماجی ترقی کا واحد ضامن سمجھا جاتا ہے۔
المیہ یہ ہےکہ امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی شخصیت اور امارت اسلامیہ افغانستان کی حقیقت اب تک منفی پروپگنڈوں کے گردآب میں گم ہے اورعوام کے لیے اس کا سمجھنا اب بھی آسان نہیں ہے۔لازم یہ ہے کہ مرحوم امیرالمؤمنین کی شخصیت، تقوی، اخلاق اور اپنے عقائد سے وابستگی کا غیرجانبداری سے جائزہ لیا جائے۔دنیا والے امتیازی سلوک اور سیاسی ملاحظات کے بغیر اسلامی نظام کی نوعیت کو مطالعہ کریں، کہ اس میں عدالت اور سعادت کا وسیع ذخیرہ موجود ہے،جسے اللہ تعالی نے اپنی نصرت سے عالی قدر امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے ذریعے عملی طور پر دنیا کو دکھلا دیا اور اس کے مثبت اثرات کا سب نے مشاہدہ کیا۔
اب ایک بار پھر افغانستان میں مستقبل کے نظام کے حوالے بحث میں تیزی آئی ہے، تو ہموطنوں اور عالمی برادری کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اڑھائی دہائی قبل اسلامی نظام اور شریعت کا نفاذ ملک اور عوام کے تمام دکھ درد کی دوا بنی ،اس نے قوم کو بندوق برداروں کے بحران اور مصائب سے نجات دلایا، ملک کی سلامتی اور عالمی ساکھ کو محفوظ کیا اور امن، اطمینان اور سعادت کی زندگی کے لیے راہ ہموار کی۔ اب بھی تمام موجودہ مسائل صرف اسلامی نظام سے حل ہوسکتے ہیں۔