انتخابات کی بڑھتی ہوئی رسوائی

ہفتہ وار تبصرہ تقریبا دو ماہ قبل کابل انتظامیہ کی جانب سے صدارتی الیکشن کے نام سے یک جعلی اور فریب پر مبنی عمل انجام ہوا۔ الیکشن کے نام سے اس عمل کا صرف شہروں کے چند محدود علاقوں میں نمائش کیا گیا، عوام کی شرکت بہت ہی کم، مگر دھاندلی، افراتفری وغیرہ مسائل کی […]

ہفتہ وار تبصرہ

تقریبا دو ماہ قبل کابل انتظامیہ کی جانب سے صدارتی الیکشن کے نام سے یک جعلی اور فریب پر مبنی عمل انجام ہوا۔ الیکشن کے نام سے اس عمل کا صرف شہروں کے چند محدود علاقوں میں نمائش کیا گیا، عوام کی شرکت بہت ہی کم، مگر دھاندلی، افراتفری وغیرہ مسائل کی سطح اندازے سے بلند تھی، الیکشن کا عمل اس حال میں انجام ہواکہ اس سے عوام کی مطلق اکثریت، سیاسی فریق اور کارکن مخالفت کرتے،اس لیے کہ ابتداء ہی سے اندازہ یہ تھا کہ الیکشن عوام کو  کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچا سکتا۔

امارت اسلامیہ ابتداء ہی سے الیکشن کے نام سے اس عمل کا مخالفت کرتارہااور اسے ایک غیرقانونی اور ورغلانے والا عمل سمجھتا۔ امارت اسلامیہ نے مؤمن عوام کو بتلایا کہ الیکشن کے عمل کا بائیکاٹ کریں، عوام نے حسب معمول امارت اسلامیہ کی صدا کو لبیک کہا،  دیہی علاقوں کی طرح شہروں میں بھی الیکشن کا عمل عوام کے بائیکاٹ اور فیصلہ کن شکست سے روبرو ہوا۔ یہاں تک کہ الیکشن میں حصہ لینے والوں نے اپنی شکست کا ایک حد الزالہ کیاہو، تو واضح طور پر دھاندلی کی جانب گامزن ہوئے اورجعلی ووٹ سے نام نہاد الیکشن کے بیلٹ بکسز کو بھر دیے۔

جیسا کہ جعلی الیکشن کا عمل کا  ابتداء ہی رسوائی اورافراتفری سے روبرو تھا اور اب دو ماہ  گزرنے کے بعد اس کے نتائج کے اعلان کے مرحلے کو بھی ایسی ہی کشمکش کا سامنا ہے۔ چند ہفتوں سے امیدواروں اور الیکشن کمیشن کے درمیان تنازعات ،الزامات اور دھمکیاں جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں بات لت وکوب تک بھی آں پہنچی، جن صوبوں میں اشرف غنی گروہ کی اکثریت ہے،وہاں الیکشن کی گنتی کا عمل کا دوبارہ آغاز ہوا اور جن علاقوں میں عبداللہ عبداللہ کی جماعت کی قوت ہے،وہاں الیکشن کمیشن کے دفاتر محاصرہ اور اعتراضات جاری ہیں۔

الیکشن بحران کی شدت کیساتھ ساتھ اس عمل میں اجنبی مداخلت کا موضوع بھی اتنی آشکار ہوچکی ہے کہ اب ہر شخص مشاہدہ کررہا ہےکہ  بیرونی ممالک کے سفارت کار روزانہ الیکشن کمیشن کے آفس  کا چکر لگاتے  ہیں، الیکشن کمیشن کے اعضاء سے سفارش کررہے ہیں، ووٹ کو تسلیم یا رد کرنے کے متعلق فیصلے کررہے ہیں اور الیکشن کا تمام عمل استعماری ممالک کے سفارت کاروں کے تسلط میں ہے،یہ موضوع امارت اسلامیہ کی اس بات کی تصدیق کرتی ہے ،جس میں کہا گیا تھاکہ  بیرونی جارحیت کی موجودگی میں الیکشن کا کوئی مفہوم اور معنی نہیں ہے، کیونکہ آخری فیصلہ اس شخص کی جانب سے ہوگا،جنہوں نے اس عمل کی فنڈنگ کی ہو اوراس  طریقے سے اپنے اہداف تک پہنچنا چاہتا ہے۔

الیکشن کےموجودہ حالت سے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر تمام عمل کو باطل اعلان  کرتے ہوئے فیصلہ امریکی سفارت کی جانب سے ہوجائیگا۔

موجودہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئےامارت اسلامیہ ایک بار پھر اپنے وہی مؤقف پر اصرار کرتی ہے کہ جارحیت کی موجودگی میں خودمختار حکمران کا انتخاب ناممکن ہے، جب تک جارحیت موجود رہیگی، تو الیکشن کی طرح ہر عمل ملک کے مفادات کے بجائے اجنبی استعمار کے مفادات کی خدمات میں ہوگا،اس کے مفادات کو استعمار   اپنالے گا  اور اس کی رسوائی کٹھ پتلی غلاموں کی پیشانی پر سیاہ دھبہ ہوگا۔